یوم عاشورہ :عبرت کے چند پہلو

یوم عاشورہ ہمیں یہ سبق بھی دیتا ہے کہ بندئہ مومن کو اللہ پر مکمل ایمان وبھروسہ ہونا چاہیے کہ اللہ قادر مطلق ہے، ہر چیز اس کی قدرت کے اندر ہے ، زمین وآسمان کی کوئی چیز اسے عاجز وبے بس نہیں کرسکتی، جو اس کائنات اور اس کے عظیم محیرو العقول نظام کو بنانے والا ہے وہ اسے تبدیل بھی کرسکتا اور جس طرح چاہے رد وبدل اور الٹ پھیر کرسکتا ہے

نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ و جامعۃ النور یوسف گوڑہ
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
0091-9393128156

اس کائنات اور اس کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی بڑی نشانیاں ہیں اور اس کے ہر عمل میں بڑی حکمتیں پنہا ہیں۔ کائنات کے اندر اللہ تعالیٰ جو تصرفات و تقلیات فرماتے ہیں، اس کے حکمتوں اور اسرار کے اندر اگر غور کیا جائے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے یہاں کا ایک نظام بنادیا ہے اور ساری مخلوق کو اس کے تابع کردیا اور اسی حکمت ومصلحت کے تحت مختلف زمانوں اور مقامات کے اندر اللہ تعالیٰ حوادث وواقعات رونما فرماتے ہیں تاکہ بندہ اس کے اندر غورو فکر کرکے اس سے درس عبرت حاصل کرے۔
محرم الحرام کا مہینہ جب آتا ہے تو اس کی آمد کے ساتھ ہی یوم عاشوراء کی تصویر بھی ہمارے ذہن میں مرتسم ہوجاتی ہے، یہ وہی دن ہے جس میں اپنے زمانہ کے سب سے بڑے ظالم وجابر اور سرکش کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک وبرباد کرکے ایمان والوں پر احسان عظیم فرمایا اور اپنی نعمتوں سے سرفراز کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جو تمام عالم کا پروردگار ہے ۔ (الانعام: 45)
روئے زمین پر اپنے وقت کا جو سب سے بڑا ظالم وسرکش بلکہ ظلم وبربریت کی علامت ونشان امتیاز بنا ہوا تھا یعنی موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا فرعون مصر جس کے اور اہل حق کے درمیان طاقت وقوت کا کوئی موازنہ تھا اور نہ تقابل کہ موسی کی قوم بنی اسرائیل تہی دست ومفلوک الحال اور بے دست وپا تھی اور فرعون ایک سپر پاور تھا جو دولت وثروت ، جاہ وجلال، فوج ولشکر ، سازوسامان اور ہر طرح کے اسلحہ سے لیس تھا ، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے چشم زدن میں اسے اور اس کی فوج کو ہلاک کرکے نشان عبرت بنا دیا۔
اس دن کی تعظیم وتقدیس زمانہ جاہلیت کے عرب بھی کیا کرتے تھے ، شاید اس وجہ سے کہ دین ابراہیمی کا کچھ حصہ انہیں وراثت میں ملا تھا اور وہ اسے دین ابراہیمی ہونے کی وجہ سے اہمیت دیتے اور پاس ولحاظ رکھا کرتے تھے۔ فرعون کی ہلاکت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
یاد رکھو جب کہ ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ تو اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی میں نکال ، اور انہیں اللہ کے احسانات یاد دلا، اس میں نشانیاں ہیں ہر صبر کرنے والے کیلئے۔ (ابراہیم :15)
حضرت حسن بصری علیہ الرحمہ نے اس آیت کے آخری حصہ سے حجاج بن یوسف الثقفی کی ہلاکت وبربادی پر استشہاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دیر یا سویر اللہ تعالیٰ اپنے صابر وشاکر بندوں کی ضرور مدد فرمائیںگے اور ظالم وسفاک حجاج کو ضرور فرعون ہی کی طرح نشان عبرت بنائیںگے۔ حضرت حسن بصری سات سال تک روپوش رہے اور جب حجاج کے مرنے کی انہیں اطلاع ملی تو انہوں نے اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمایا کہ اے اللہ تونے اسے بدترین موت تو دے دی ، اب اس کے طریقہ کو بھی موت دے دے، اور سجدئہ شکر کرتے ہوئے اس آیت کا ورد کرتے رہے۔
کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ دریا میں کشتیاں اللہ کے فضل سے چل رہی ہیں، اس لیے کہ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے۔ یقیناً اس میں ہر ایک صبر وشکر کرنے والے کیلئے بہت ہی نشانیاں ہیں۔ (لقمان:31)
یوم عاشورہ کی تعظیم واحترام کرنے ، اس دن روزہ رکھنے اور اس روزے کا کفارئہ سیئات بننے کی وجہ شاید یہ ہے کہ حیات انسانی پر اس کا گہرا اثر پڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حق وباطل کے درمیان امتیاز کی علامت بنایا ہے، موجودہ حالات وواقعات میں اس سے سبق حاصل کیا جاسکتا اور یقین کیا جاسکتا ہے کہ فرعون موسیٰ ہو یا فرعون قریش، فرعون یوپ وامریکہ ہو یا فرعون ہند ومیانمار، فرعون مغرب ہو یا فرعون مشرق ، ہر ایک کا معرکہ ایک ، ہر ایک کا طرز عمل ایک ، اور ہر ایک کے ظلم وسفاکی کی داستان ایک ہے، اس لئے ہر ایک کا انجام بھی ایک ہی ہوگا۔
ع؛ عدل وانصاف فقط حشر پہ موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ، وہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلعم مدینہ تشریف لائے تو عاشوراء کے دن یہود کو روزہ رکھتے ہوئے پایا، تو آپ نے ان سے دریافت کیا کہ یہ کیسا روزہ ہے؟ تو انہوںنے کہا یہ اچھا دن ہے ، اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تو موسیٰ نے شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھا تو آپ صلعم نے فرمایا میں موسیٰ کا تم سے زیادہ حق دار ہوں ، تو آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (متفق علیہ)
قرآن کریم نے اس کی بڑے دلنشیں انداز میں منظر کشی کی ہے جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں، ایک چھوٹی سی جماعت ہے جس کے سامنے ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے اور پیچھے دشمن کا لشکر جرار۔
پس فرعونی سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میںنکلے، پھر جب دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا ، ہم تو یقینا پکڑ لئے گئے، موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں، یقین مانو ، میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راستہ دکھائے گا، ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی لاٹھی مار ، پس اس وقت دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ پانی کا بڑے پہاڑ کے مانند ہوگیا، اور ہم نے اسی جگہ دوسروں کو نزدیک لا کھڑا کیا اور موسیٰ اور اس کے تمام ساتھیوں کو نجات دے دی اور سارے دوسروں کو ڈبو دیا، یقینا اس میں بڑی عبرت ہے اور ان میں کے اکثر لوگ ایمان والے نہیں، اور بیشک آپ کا رب بڑا ہی غالب ومہربان ہے۔ (الشعراء: 68-60)
اللہ کی نشانی اور عظیم معجزہ فرعون کی نگاہوں کے سامنے تھا مگر وہ ہوش میں نہیں آیا اور نہ اس سے نصیحت حاصل کی ، وہ دیکھ رہا تھا کہ سمندر موسیٰ کے لیے پھٹ گیا اور اس کے لئے راستہ بن چکا ہے پھر بھی وہ اپنی سرکشی میں پڑا رہا اور جاہل ونادان اور عقل کے کورے انسان کی طرح اطمینان سے اس میں داخل ہوگیا کہ بھاگنے والوں کو پکڑ لے گا اور ہر زمانے کے فرعون کا یہی حال ہوتا ہے ، اس کی آنکھوں پر پٹی پڑ جاتی ہے، فرعون چشم زدن میں جس طرح اپنے انجام کو پہنچ گیا‘ فرعون وقت بھی پہنچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت کے عذاب پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ دنیا میں آنے والی نسلوں کے لئے اسے عبرت دیا کہ آئندہ ہر دور میں ظالموں کا انجام یہی ہوگا ، اللہ اپنی رسی کو ڈھیل ضرور دیتا ہے مگر جب پکڑتا ہے تو اس کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق بھی ملتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے اندر ایک ازلی وابدی نظام بنا دیا ہے کہ وہ ظلم کو برداشت نہیں کرتا اور مظلوم ایمان والوں کی ضرور مدد کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
پھر ہم نے گناہ گاروں سے انتقام لیا، ہم پر مومنوں کی مدد کرنا لازم ہے۔ (الروم:17)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
یقینا ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد دنیوی زندگی میں بھی کریںگے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوںگے۔ (المومن ، غافر:51)
اللہ کا یہ ہمیشہ سے نظام رہا ہے کہ اس میں اسی وقت تخلف ہوتا جبکہ ایمان والے ایمان کے تقاضوں پر عمل کرنا ترک کردیں، ان کا اعتماد اللہ کے بجائے بندوں پر یا ہتھیاروں پر یا مادی چیزوں پر ہوجائے اور وہ اللہ کے حکم کی پیروی ترک کردیں اور خواہشات کے پیچھے لگ جائیں۔ اگر ہمارے اندر ایمان راسخ ہو ، ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہیں، اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کی خلاف ورزی کا ارتکاب نہ کریں ، حقوق اللہ بھی ادا کرتے رہیں اور حقوق العباد کی بھی ، اور محرمات ومعاصی سے بچتے رہیں تو اللہ کی مدد ضرور آئے گی،یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے بڑے پر اعتماد ویقینی لہجے میں فرمایا تھا ، کلا ان معی ربی سیھدین ، ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ ہمیں پکڑ لے، ہمارے ساتھ ہمارا پروردگار ہے، وہ ہمیں راستہ دکھائے گا۔ اور یہی بات رسول اللہ صلعم نے غار ثور میں ہجرت کے موقع پر اپنے یار غار حضرت ابوبکر صدیق سے فرمایا تھا ، ہاں مدد آنے میں کبھی تاخیر ضرور ہوگی اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ بندئہ مومن کے دلوں میں سے آلائشوں کو نکالنا چاہتے، کھرے کھوٹے میں تمیز کرنا چاہتے، مختلف طبقات کے درمیان پائی جانے والی تفریق کو مٹانا چاہتے اور ان میں ایمان راسخ کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جائوگے، حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے کے لوگوں پر آئے تھے، انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں، اور یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اللہ اور ان کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن لو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد قریب ہی ہے۔ (البقرہ: 214)
دوسری جگہ غزوئہ خندق کے تذکرہ میں اس طرح ہے:
اور ایمان والوں نے جب کفار کے لشکروں کو دیکھا تو بے ساختہ کہہ اٹھے کہ انہیں کا وعدہ ہمیں اللہ نے اور اس کے رسول نے دیا تھا، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا اور اس نے ان کے ایمان میں اور شیوئہ فرمانبرداری میں اور اضافہ کردیا۔ (الاحزاب :22) جبکہ دوسری طرف منافقین کا پول کھل گیا کیونکہ ان کا موقف اس کے برعکس تھا‘ اور اس وقت منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں شک کی بیماری تھی کہنے لگے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا فریب کا ہی وعدہ کیا تھا۔ (الاحزاب:12)
یوم عاشورہ ہمیں یہ سبق بھی دیتا ہے کہ بندئہ مومن کو اللہ پر مکمل ایمان وبھروسہ ہونا چاہیے کہ اللہ قادر مطلق ہے، ہر چیز اس کی قدرت کے اندر ہے ، زمین وآسمان کی کوئی چیز اسے عاجز وبے بس نہیں کرسکتی، جو اس کائنات اور اس کے عظیم محیرو العقول نظام کو بنانے والا ہے وہ اسے تبدیل بھی کرسکتا اور جس طرح چاہے رد وبدل اور الٹ پھیر کرسکتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے اندر ہر چیز کو اسباب کے ساتھ جوڑ رکھا ہے اور ہر ایک کی تاثیر الگ الگ رکھی ہے۔ جیسے جلانے کیلئے آگ، بجھانے کے لئے پانی ، تولید کے لئے نر ومادہ کا باہمی اختلاط، مگر اللہ تعالیٰ اس کے بغیر بھی چیزوں کو معرض وجود میں لانے پر قادر ہے، ابراہیم کے لئے نار نمرود سے اس کی تاثیر سلب کرلی، موسیٰ کے لئے پانی کی رقت وسیلان کو ختم کردیا، عیسیٰ علیہ السلام کو باپ کے بغیر پیدا فرما دیا ، اس سے ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اللہ ہی موثر اور قادر مطلق ہے، اگر یہ یقین پیدا ہوجائے تو انسان کا اعتماد وبھروسہ اللہ پر قوی ہوجائے گا، پھر وہ غیراللہ کی طرف جھانک کر نہیں دیکھے گا، اور نہ حاجت روائی کیلئے کسی اور کو پکارے گا بلکہ اللہ ہی سے لو لگائے گا جو ہر آن ہمارے اوپر نگاہ رکھے ہوا ہماری باتوں کو سن رہا اور ہمارے مصائب وآلام سے آگاہ ہے۔ یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کے حکم میں بھی ہمارے لئے درس عبرت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے جب عاشورہ کا روزہ رکھا اور دوسروں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول!اس دن کی تو یہود تعظیم کرتے ہیں؟ تو آپ صلعم نے ارشاد فرمایا: جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھیںگے ، مگر اگلاسال نہیں آیا کہ آپ صلعم کا وصال ہوگیا، مگر امت کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ ایک دن ملا کر روزہ رکھنا مستحب ہے یعنی نویں اور دسویں محرم کو ، یا دسویں وگیارہویں کو۔ کیونکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم اس بات کے پابند ہیں کہ ہم عبادتوں میں بھی یہود ونصاری کی مشابہت اختیار نہ کریں بلکہ ان کی مخالفت کریں۔
اے کاش کہ ہم رسول اللہ صلعم کی اس نصیحت کو اپناتے، آج ہم یہود ونصاری کے قدم پر چلنے میں فخر محسوس کررہے ہیں۔ ان کے طور طریقوں کو اختیار کرکے مہذب کہلانا چاہتے ہیں، عوام تو عوام خواص بھی آج یہود ونصاریٰ کے اعمال اور ان کے خیالات وانداز کو اپنا چکی ہے، لباس وپوشاک سے لے کر رفتار وگفتار تک ، ہر چیز میں ہم نے ان کی نقالی شروع کردی ہے، ہم نے اپنے لئے ذریعہ نجات اور حکمرانی کا وسیلہ یہود ونصاری کو بنا لیا اور ان کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا ہے۔ شکل وصورت اور نام سے تو ہمارے حکمراں عرب ومسلم ہیں مگر اصل حکمرانی وفرمانروائی ان پر یہود ونصاری کی ہے، وہ ان کی مرضی کیخلاف اف تک نہیں کرسکتے ، اسلام کی بیخ کنی اور مسلمانوں کے وجود کو نیست ونابود کرنے کے لئے یہ یہود ونصاری ایسے ہی مسلم نام کے اپنے ایجنٹ وغلام حکمرانوں کے ذریعہ اپنے ایجنڈے کو نافذ کررہے ہیں جو اسلام کی بیخ کنی کیلئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار اور اپنے یہودی آقائوں کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کے حکم ملنے کے منتظر کھڑے ہیں، مگر انہیں اس ذلت ورسوائی کا احساس تک نہیں۔
ع: وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
یوم عاشوراء میں کربلا کے واقعہ نے ساری امت مسلمہ کے دلوں کو چھلنی کردیا، اس کا درد والم اور اس کی تکلیف وملال جتنا اہل تشیع کوہے اس سے کہیں زیادہ اہل سنت کو ہے، اس واقعہ نے ایسا زخم دیا ہے کہ جس کا مندمل ہونا ممکن نہیں، اس کی وجہ سے اہل سنت والجماعت اور اہل تشیع کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوگئی اور جب بھی محرم کا مہینہ آتا یہ زخم ہرا ہوجاتا ہے ، دونوں گروہوں کے درمیان اختلافات بھی بھڑک اٹھتے ہیں، مگر ہمیں سمجھنا چاہیے کہ امت مسلمہ اس واقعہ کی کب تک قیمت چکاتی رہے گی، بعد کی نسل کا اس واقعہ سے کیا سروکار اور ان کا کیا گناہ کہ انہیں مورد الزام ٹھہرایا جاتا رہے جبکہ کوئی بھی سنی اس حادثے کو نہ پسند کرتا اور نہ اس کا وجہ جواز تلاش کرتا ہے بلکہ وہ اہل بیت سے محبت کرتا کہ یہ ایمان کا جز ہے اور رسول اللہ صلعم کی وصیت کا اہم عنصر ہے کہ رسول اللہ صلعم رخصت ہونے سے پہلے اپنے اہل بیت کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کی تاکید کرگئے ہیں، ماضی سے کہیں زیادہ اس وقت شیعہ سنی اتحاد واتفاق کی ضرورت ہے۔ اس ملک کی ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے حالات ہم سے متقاضی ہیں کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، باہمی اختلافات کو پس پشت ڈالیں، یہودیت ونصرانیت آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہیں، کسی بات میں یکسانیت نہیں وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہے، دونوں کے عقیدے ایک دوسرے سے متصادم ہیں، پھر بھی آج وہ شیرو شکر ہوگئے ہیں، انہوں نے اپنے سارے گلے شکوے، اور اختلافات بھلا دیئے اور اسلام ومسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے دست وبازو بن گئے ہیں۔ عیسائیوں نے (اپنے عقیدے کے مطابق )عیسیٰ علیہ السلام کے خون سے ہولی کھیلنے والے قاتل یہودیوں کو معاف کردیا اور دم عیسیٰ کو فراموش کردیا ، جب وہ اس خون کو بھلا کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہوسکتے ہیں تو خون حسین کی وجہ سے ہم شیعہ وسنی کب تک لڑتے اور ایک دوسرے سے برسر پیکار رہیںگے، ؟ موجودہ حالات وواقعات کیا اب بھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہیں؟ کیا اب بھی ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرسکتے؟
وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم متحد ہوں، ہم دشمنان اسلام کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں، اور سارے مسلمان شیعہ وہں یا سنی اخوت ایمانی کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں، ورنہ اگر ہم اسی طرح منتشر اور بکھرے رہے جس طرح اس وقت ہیں تو بھیڑئیے ہمیں ایک ایک کرکے نگلنے کی کوشش کریں گے۔ ہم اگر اپنے وجود کو اپنے دین وایمان کو ، اپنے تشخص کو اور اپنے مقدسات کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں آپسی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے ایک صف میں کھڑا ہونا ہوگا۔ یوم عاشورہ ہمیں سبق دے رہاہے کہ یہود ونصاری کے مقابلہ میں ہم یک جان ویک زبان بنیں، متحدہ طور پر ان کا سامنا کریں، اور متحد ہو کر دشمن کا اس جذبہ کے ساتھ مقابلہ کریں کہ سرکٹا سکتے ہیں لیکن سر جھکا سکتے نہیں‘ اگر ہم نے ایسا کرلیا تو یقین جانیں کہ اللہ کی مدد آنے میں دیر نہیں لگے گی، اور فرعون وقت کا انجام بھی فرعون مصر ہی کی طرح ضرورت ہوگا۔
ع: ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

Comments are closed.