بہار اسمبلی انتخابات ۔۔۔مسلم قیادت سیکولر اتحاد کے قیام میں قائدانہ کردار اداکرے

مولانانعمت اللہ محمدناظم قاسمی
(ریسرچ اسکالر ام القري یونیورسٹی ،مکہ مکرمہ)
بہار میں کورونا کے بری طرح انتشار کے باوجود حکومت نے اپنے وقت پر ہی اسمبلی انتخابات کرانے کی ٹھان لی ہے،اب تو الیکشن کمیشن کی طرف سے رہنما ہدایات بھی جاری کردی گئ ہیں،لیکن کیا یہ انتخاب بھی پچھلے انتخابات کی طرح آئے گا اور گذر جائے گا،یا کیاہم نے اس کے لئے کوئی منصوبہ بندی کر رکھی ہے؟
سی اے اے،این آر سی کے خلاف ہندوستان بھر میں چلنے والی عوامی تحریکات کو حکومت وقت نے پارلیمنٹ اور صوبائی حکومتوں نے اپنی اپنی اسمبلیوں میں جس طرح اپنی عدد ی طاقت کے بھرم میں کچلنے کی کوشش کی،وہ جگ ظاہر ہے،جمہوریت میں اپنے حقوق کے حصول کا سب سے مضبوط ذریعہ اپنے پسند کے نمائندوں کو اسمبلی وپارلیمنٹ تک پہونچانا ہے، موجودہ حالات میں جب کہ ہندوتوا کا زہر بہت منظم طریقے پر معاشرہ میں گھولا جارہا ہے،اس کے مقابلہ کے لئے کیا ہم نے کچھ سوچا ہے،کیا ہم نے اس کے لئے کوئی پلاننگ کی ہے؟اگر نہیں تو کم از کم خدارا بہار کے حالیہ اسمبلی انتخاب میں مسلم قیادت کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ اسے محسوس کریں اور ہندو توا اور آیس ایس کے سیاسی چالوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جو ممکنہ کوشش ہو سکے اسے انجام دیں۔
بہار کا حالیہ اسمبلی انتخاب مسلم قیادت کے لئے بڑی ہی آزمائش کی گھڑی ہے،اب کسی ایک پارٹی ہار جیت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اب جمہوریت کی بقاء اور اسے مضبوط کرنے کا وقت ہے،جو پارٹیاں سیکولزم پر یقین رکھتی ہیں اور جمہوریت کو بچانے کے لئے کسی بھی درجہ میں کوشاں ہیں، انہیں متحد کرکے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع کرکے ایک ساتھ میدان انتخاب میں اترنے کی ضرورت ہے،یہ ذمہ داری جہاں سیکولرزم کا نعرہ لگانے والوں پر عائد ہوتی ہے،وہیں اس سے زیادہ اس ذمہ داری کا بوجھ مسلم قیادت پر ہے،کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے ملک میں جمہوریت کے بقاء کے لئے جس خلوص کے ساتھ مسلم قیادت کوشش کرسکتی ہے ،وہ شاید دوسروں سے نہ ہوسکے،اس لئے موجودہ حالات میں مسلم قیادت کی یہ ایک اہم ذمہ داری ہے کہ صوبہ بہار میں منعقد ہونے والے انتخاب کے پس منظر میں سیکولر پارٹیوں کو متحد کرنے کی کوششوں میں اپنا بھرپور تعاون ہی نہیں بلکہ قیادت کا فریضہ انجام دیں،کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج ملک میں جمہوریت کو بچانا اسی طرح ضروری ہے،جس طرح ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانا ضروری تھا۔
بہار کے اسمبلی حلقوں کی سیاسی صورت حال یہ ہے کہ یہاں تقریبا تیس سیٹوں پر مسلمانوں کا وٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے،سب سے اہم کام ان حلقوں میں اپنی پسند کے امیدوار کو کامیاب بنانے کی پوری کوشش کی جائے، اور مخالفین کے ہر طرح کے حربے اور ان کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنانے کی کوشش کی جائے، دوسرے اسمبلی حلقوں میں ہندو مسلم،دلت،اتحاد کی ایسی مضبوط کڑی بنائ جائے کہ ہندوتوا کے حامیوں کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑے۔
بہار کی موجودہ سیاسی صورت حال کی یہ حقیقت ہے کہ یہاں سیکولر ووٹ کئی خیموں میں بٹا ہوا ہے،نتیش کمار،لالو پرشاد یادو،کانگریس،پپو یادو،اسد الدین اویسی،مانجھی کی پارٹیوں میں مسلمان بٹے ہوئے ہیں، اگر وقت رہتے ہوئے انہیں متحد نہیں کیا گیا تو پھر بہار میں جملہ والی سرکار بی جے پی اور خود اپنی زبانی ترقی کی دعویدار نتیش کمار کی پارٹی کو دوبارہ سرکار بنانے سے کوئی قوت نہیں روک سکتی۔الا ان یشاء اللہ۔
حالیہ دنوں میں ایل جے پی اور جدیو کے درمیان سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا ہے،کیا سیکولرزم کے دعویدار اس موقع کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ؟یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مسلم قیادت کو سیاسی رہنمائی کے لئے قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا اور اس ضمن میں مندرجہ ذیل نکات شاید کسی درجہ میں فکر ونظر کی راہیں وا کرنے میں کار آمد ہوسکیں:
۱ ۔صوبہ کے مختلف فکرو نظر کے حامل مسلم قائدین،دانشوران کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی مخلصانہ کوشش کی جائے، اس کا بنیادی مقصد اور مشن جمہوریت کی حفاظت ہو۔
۲۔قائدین کا یہ اتحاد مسلم اکثریت یا جہاں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن تعداد میں ہے ،وہاں مسلم ووٹوں کو متحد کرنے ،انہیں انتشار وبکھراؤ سے بچانے کی پوری کوشش کرے۔
۳۔سیکولر جماعتوں کو متحد کرنے کی ممکنہ شکل کیا ہوسکتی ہے ؟کن بنیادوں پر انہیں متحد کیا جاسکتا ہے؟ یہ ایک غورو فکر کا مرحلہ ہے، مگر فسطائی قوتوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کو مشترکہ عمومی ہدف بنایا جا سکتا ہے۔
۴۔اس ممکنہ اتحاد میں ان تمام سیکولر پارٹیوں کو شامل کیا جائے جن کی زمینی سطح پر کچھ نہ کچھ طاقت وقوت ہے،کیوں کہ انتخاب کا ایک ایک ووٹ قیمتی ہے،اگر جامع اور مضبوط اتحاد ہو تو یقینا اس کا بہتر نتیجہ ہوگا۔
۵۔سیکولر اتحاد کے قیام کے وقت مسلم قیادت کا اپنا ایک الگ منشور بھی ہو ،انتخاب میں کامیاب ہونے کی صورت میں ان پر عمل پیرا ہونے کا مطالبہ اور عزم بھی کیا جائے،تاکہ اس عظیم جدو جہد کا ثمرہ بھی مسلم قوم کو مل سکے ،یہ سیاست ہے یہاں اپنا اپنا مفاد ہر جماعت کو عزیز ہے،تو پھر اس سے زہد وبے اعتنائی کیسی؟واضح رہے کہ اس کا کامیاب تجربہ جنوبی ہند کی بعض ریاستوں میں کیا جا چکا ہے،یہ ملحوظ رہے کہ اس موقع پر ریزرویشن جیسے الفاظ سے کنارہ کشی کرتے ہوئے دوسرے با معنی مطالبات رکھے جائیں جن سے ملت اسلامیہ کے لئے تعلیمی ومعاشی ترقی کے مواقع پیدا ہو سکیں۔ (بصیرت فیچرس)
Comments are closed.