اہانت رسولؐ کے واقعات اور مسلمانوں کا طرز عمل

شریعت اور سنت نبوی ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے

مولانا یحییٰ نعمانی ، لکھنؤ
ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ اسلامی شریعت ا ور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ہر قسم کے حالات کے لیے رہنمائی اور نمونہ موجود ہے۔ خصوصاً ایسے اجتماعی مسائل جن کا تعلق مسلمانوں کی پوری امت سے اورمسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلق جیسے نازک مسائل سے ہو، ان میں ہمارا دینی فرض ہے کہ اللہ ورسول کی رہنمائی کے بغیر ایک قدم بھی نہ بڑھائیں۔ موجودہ زمانے میں اسلام اور رسول اللہؐ کے ناموس مبارک کی توہین کے ملعون واقعات بھی اسی زمرہ کی چیز ہیں۔ناممکن ہے کہ رسول اللہؐ کے کارٹون بنائے جائیں، ان کی تضحیک کی جائے، معاذ اللہ ان پر سنگین اور گھناؤنی تہمتیں لگائی جائیں اور مسلمانوں کو سخت برا نہ لگے۔
یقینا برا لگنا، بلکہ شدید تکلیف و اذیت محسوس کرنا ضروری ہے ۔ ایسا نہ ہو تو ایمان نہیں ہے۔ لیکن اس تکلیف اور اذیت کے عالم میں کیا رد عمل ظاہر کرنا ہے، یہ خود اسی رسولؐ سے سیکھنا اور اسی کی سنت سے معلوم کرنا ہے، جس نے صاف کہہ دیا تھا کہ مجھے ایسے ایمان والے مطلوب ہیں جو اپنے دل کی ہر خواہش کو میری ہدایات واحکام کے تابع کر دیں۔رسول اللہؐ کے زمانے میں اہانت اسلام کی حرکتیں بھی واقع ہوتی ہیںا ور توہین رسول کی لعنتیں بھی۔ آپؐ کو گالیاں بھی دی گئیں۔ یہاں تک کہ آپ کی پاکیزہ زوجۂ مطہرہ ام المومنین حضرت عائشہؓ پر ملعون منافقوں نے گھناؤنے الزام بھی لگائے۔ ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ آپؐ نے مختلف موقعوں پر کیا طرز عمل اختیار فرمایا اور قرآن وحدیث نے مسلمانوں کو کیا کرنے کا حکم دیا۔
۱۔ اسلامی شریعت میں مجرم کو قانونی سزا دینے کا اختیار (Authority) باقاعدہ قائم حکومت کو ہے۔ لہٰذا ہانت رسول کی حرکت کا مجرم اگر اسلامی ریاست کا باشندہ ہوا تو آپؐ نے اس کو سخت سزا دی۔ یہ ایک مشہور یہودی مجرم کعب بن الاشرف کا واقعہ ہے(بخاری)۔
۲۔ لیکن اسلامی ریاست کے قلم رو میں ہی رہنے والے عبد اللہ ابن ابی ابن سلول نے جب ایسی ہی حرکت کرتے ہوئے آپ ﷺ کے حرم پاک کو نشانہ بنایا اور آپؐ نے اس کو قانونی سزا دینے کا ارادہ کیا تو اندازہ ہوا کہ اس سے مدینہ میں فتنہ پیدا ہو جائے گا اور حالات بگڑ جائیں گے، تو آپؐ نے اس کو چھوڑ دیا (صحیح مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی حدیث الافک)۔
۳۔ اسی شخص کی اسلامی ریاست کے خلاف ایک ایسی ہی خطرناک سازش اور فتنہ انگیز حرکت پر بعض صحابہ نے مشورہ دیا کہ اس کو قتل کی وہ سزا دی جائے جو ایسے جرائم کے لیے قانونی طور پر مقرر ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ نہیں، اس سے لوگوں کو ہم کو بدنام کرنے اور یہ کہنے کا موقعہ مل جائے گا کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرا دیتے ہیں۔ (سنن ترمذی تفسیر سورۂ منافقون)۔ یہاں بھی آپ نے حالات کی نزاکت کا خیال مقدم رکھا۔آپؐ کے اس طرز عمل سے واضح رہنمائی ملتی ہے کہ اگر کسی مجرم کی سزا قانون میں مقرر ہو، لیکن اس کو سزا دینے سے فتنہ و خونریزی کا خطرہ ہو، یا صورت حال ایسی ہو کہ اعدائے اسلام کو پروپیگنڈہ اور بدنام کرنے کا موقعہ مل جائے گا اور اس پروپیگنڈے کے مؤثر اور کامیاب ہونے کا بھی اندیشہ ہو،… تو پھر ایسی حرکتوں پر مسلمان اپنی ایک خود مختار اسلامی ریاست ہونے کے باوجود (اور قانونی اختیار ہونے کے باوجود) کوئی اقدام نہیں کریں گے۔
۴۔ اور اگر اہانت اسلام یا توہین رسول کے واقعات کا مجرم اسلامی ریاست سے باہر کا ہوتا تھا، یا ہوتا تو اندر کا تھا مگر کسی مجبوری کی وجہ سے اُس کو سزا دینا ممکن نہیں ہوتا تھا، تو ایسی صورت میں آپؐ کا طرز عمل صرف اور صرف نظر انداز کر دینے اور صبر کرنے کا تھا۔ اور یہی قرآن کا حکم تھا۔
ولتسمعن من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم ومن الذین أشرکوا أذی کثیرا، وان تصبروا وتتقوا فان ذلک من عزم الأمور۔ (آل عمران: ۱۸۶)
تم ان لوگوں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرکین سے بھی بہت سی دل دکھانے والی باتیں سنوگے۔ لیکن اگر تم صبر کروگے اور تقویٰ پر قائم رہوگے تو یہ ہوگی مضبوطی اور ہمت کی بات۔
یہ اہل کتاب مدینہ کی اسلامی ریاست میں رہتے تھے۔ مسلمان اس ریاست کا طاقتور اور مضبوط حصہ تھے اور رسول اللہ ﷺ اس کے بلا شرکت غیر حاکم۔ مگر دیکھیے قرآن کہہ رہا ہے کہ ایسی دل آزار حرکتوں کا جواب ہمت و دانش کے ساتھ اختیار کیا گیا صبر کا رویہ ہے۔ اور اس کے ساتھ تقوی والی زندگی اور اس کی جد و جہد مسلمانوں کا اصل مشن ہے۔ رسول اللہؐ کا رد عمل ایسے وقعات پر اسی کے مطابق تھا۔ نہ اشتعال نہ بے صبری، نہ ادھم کود۔یہ تو ہوئیں قرآن وسنت کی واضح ہدایات۔ اب آئیے ذرا عقل عام کی رو سے اہانت رسول کے موجودہ واقعات پر غور کیجیے۔ان واقعات کے کیا مقاصد، ہیں یہ جاننے کے لئے زیادہ ذہانت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب ان شاطر تنظیموں اور لابیوں کی کارستانی ہے جو اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی عام فضا پیدا کرنا چاہتی ہیں۔
اب سوچیے کہ اہانت رسول کی حرکتوں پر کیا کرنا چاہیے؟؟ اس کے لیے ہندی مسلمانوں کو اپنی حیثیت اور ملکی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے راستہ چننا ہوگا۔ اور اس انتخاب میں ہمت وحوصلہ اور حکمت وحقیقت پسندی دونوں پہلووں کی رعایت کرنی ہوگی۔ہم ہندی مسلمان ایک مجبور ومحکوم قوم کی طرح رہنے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم اپنے ہم ملکوں کے لیے نہایت ہمدرد، خیر خواہ لیکن ایک باعزت قوم کی طرح رہیں گے۔ اپنی اس حیثیت وعزت کے لیے ہم کو ہر ممکن جدوجہد کرنی چاہیے۔ اپنے ہم وطنوں، حکومتوں اور انتظامیہ کے حلقوں کے لیے یہ صاف ہونا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات کی توہین پر ہم کبھی خاموش نہیں رہ سکتے۔ ملک کے شہریوں کا حکومت اور ریاست پر حق ہے کہ وہ ان کے احساسات اور دینی جذبات کی رعایت اور ان کے تحفظ کو اپنی ذمہ داری سمجھے۔ یہ ان پرآئینی اور قانونی اور ہمارا انسانی حق ہے۔ اب اگر اس حق کو کوئی پامال کرتا ہے، اور حکومتیں تساہل یا نفرت پرستانہ بدنیتی کی وجہ سے اس مجرم کی دار وگیر کرنے میںآنا کانی کرتی ہیں تو ان کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے پر مجبور کرنے کی پوری کوشش کرنا ہمارا دینی اور ملکی فریضہ ہے، جس میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے۔
لیکن اس جدوجہد کا انداز وطرز کیا ہوگا اس کا تمام دارومدار رسول اللہ ﷺ کے اسوے اور نمونے کے مطابق ہونا شرعی حکم ہے۔ ابھی بنگلور میں ایک ملعون وشقی مجرم نے جو حرکت کی، اس پر مسلمانوں کا یہ رد عمل کہ انہوں نے انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر قانونی کارروائی کروانی چاہی اور اس میں بھر پور ہمت وجوش کا ثبوت دیا، یقینا قابل ستائش ہے۔ پُرامن قانونی جد وجہد سے حکمت ومصلحت کے نام پر روکنے کی تعلیم اس ملک میں مسلمانوں کے دینی وقومی مستقبل کو تاریکی کی طرف لے جائے گی۔ لیکن اس سے زیادہ تباہ کن چیز یہ ہے کہ ہماری جدوجہد پر تشدد ہو جائے۔ بنگلور کے مظاہروں میں جو توڑ پھوڑ ہوئی ذرا غور کیجیے! کیا آپ اس سے بے خبر ہیں کہ اس سے ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کو کیسا تازہ عنوان اور بہانہ مل گیا؟؟
ہمارا ملک اس وقت مسلم دشمن نفسیات میں غرق ہے، ایسا غرق، کہ اس کی کوئی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ یہ ماحول ایک حقیقت ہے، اس سے ہم کیسے انکار کرسکتے ہیں؟ اور اکثریت میں نفرت کی آگ جلتی رہے تو کوئی کمزور اقلیت کیسے اپنی عزت وبقا کی حفاظت کرسکتی ہے؟ ؟یہاں آکر ہم دیکھتے ہیں کہ توہین اسلام کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کی سیرت اور آپ کا طریقۂ کار ہمارے لیے بالکل مناسب اور مطابق حال رہنمائی کا سامان فراہم کرتا ہے۔ اس مقالہ کے شروع میںہم نے اس سلسلے میں آپ ﷺ کی شریعت کا خلاصہ چار نقاط میں بیان کردیا تھا، آپ اس پر ذرا ایک نظر پھر سے ڈال لیجیے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے طرز عمل کا حاصل یہ ہے کہ آپ ﷺ ایسے مجرموں کے معاملہ میں کوئی اقدام اسلام اور مسلمانوں کی مصلحتوں اور حالات کی رعایت کرتے ہوئے ہی کرتے تھے۔ آپ کی شریعت وسنت میں، غصہ یا رنج وتکلیف کے ساتھ، اصل اور سب سے بڑی فیصلہ کن چیز یہ تھی کہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی نقصان دہ صورت حال یا ظالموں کے لیے کامیابی کا موقع نہ پیدا ہوجائے۔
ہماری موجودہ پوزیشن اور ملکی حالات کے لحاظ سے اس کی اصولی رہنمائی یہ ہے کہ ایسی حرکتوں پر ہمارا رد عمل پورے عزم کے ساتھ یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان مجرموں کو سزا دلوانے کی جان توڑ محنت کریں۔ لیکن ہردم یہ خیال رہے کہ ہمارا دشمن نفرت کا بازیگر ہے، ذرا سی بے احتیاطی کو وہ ہتھیار بنا کر اپنا کام بنا لے گا۔ اور پھر یہی نہیں کہ ہم نقصان اٹھائیں گے، بلکہ کچھ مزید ملعونوں میں (معاذ اللہ) ناموس رسول اللہ ﷺ کی توہین کا ارادہ پیدا کردیں گے۔ اس لیے ہمیں اس کی بھی آخری حد تک محنت کرنی ہوگی کہ ہم قانونی اور اخلاقی اصولوں کا ایسا بھرپور خیال رکھیں کہ کسی بے گناہ کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ ہماری ایسی تحریکیں عزم وہمت، اتحاد وتعاون اور سرگرمی وجوش کے ساتھ تہذیب کے اعلیٰ معیار کا بھی نمونہ ہوں۔ جب ہی وہ مؤثر اور مفید ہوسکیں گی۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو یقینا گناہ گار اور اسی رسول کے نا فرمان ہوں گے جس کی اہانت سے ہم رنجیدہ ہیں۔اور گناہ بھی معمولی نہیں۔ وہ گناہ جس سے ملک میں اسلام اور مسلمانوں کو اور ان کے مستقبل کو نقصان پہنچ جائے سنگین گناہ ہے۔
دنیا کے جو فتنہ انگیز مسلمانوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں وہ بظاہر اپنی ان ملعون حرکتوں سے باز آنے والے نہیں۔ اس لیے ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والوں کو اپنی قوم کی اس سلسلے میں ذہنی تربیت کرنی ہوگی۔ یہ ان کا دینی وملی فریضہ ہے۔
ابھی حال میں CA اور NRC کے خلاف ہم نے ایسی ہی ایک تاریخی تحریک چلائی تھی۔ اس کی تاثیر اور قوت کے راز دو تھے۔ پہلا یہ کہ اس میں ہم نے اپنے کیس کو اس معقول انداز میں پیش کیا تھا کہ شریف غیر مسلم بھی اس کے خلاف نہیں ہوسکتے تھے۔ ذرا سوچیے کہ کیا اہانت رسول کے واقعات میں ہم اپنی تکلیف کا ایسے انداز میں اظہار کرنے کا اہتمام کرتے ہیں؟ کیا اپنے مطالبے کو ایسے معقول طرز میں رکھنے کی ہم کوشش کرتے ہیں کہ فتنہ پروروں اور ظلم پسندوں کے علاوہ ہر غیر مسلم ہمارا ہم نوا ہو، یا کم ازکم ہمارے مطالبہ کو ناجائز نہ سمجھے؟ اُس تحریک کی قوت وتاثیر کا دوسرا راز یہ تھا کہ وہ جمہوری انداز میں قانون کی پابندی کے ساتھ اور مکمل پرامن جدوجہد تھی۔ کیسی کیسی کوششیں کی گئیں اس تحریک کو امن وقانون کے راستے سے ہٹانے کی، مگر نوجوانوں نے ہمت وجگر داری کے ساتھ ہوش ودانائی کا وہ ثبوت دیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔
اس کا مطلب ہے کہ ہم ایسا کرسکتے ہیں۔ اور ان شاء اللہ آئندہ ایسا کریں گے اورحق وانصاف اور انسانیت وشرافت کا بول بالا کریں گے۔
٭٭٭
رابطہ:9839512596

Comments are closed.