سوشانت ابھی زندہ ہے، کورونا کی موت۔۔۔؟

عارف شجر
حیدرآباد، تلنگانہ
[email protected]
ملک کا المیہ ہی کہہ لیجئے کہ کورونا کے اس دور میں جس بنیادی مسائل پر ملک کے میڈیا اورحکمران ہند کو بات کرنی چاہئے اور اسے حل کرنے کے لئے کوشاں رہنے چاہئے وہ کہیں سے بھی نظر نہیں آ رہا ہے اور نہ ہی کوئی سرگرمی ہی دکھائی دے رہی ہے ملک کے بنیادی مسائل سے رشتہ دور، دور تک دکھائی نہیں دے رہاہے، ہاں ایک رشتہ میڈیا اور حکمران ہند کے لئے جو سب سے مضبوط اور مستحکم ہے وہ ہے سوشانت سنگھ راجپوت سے رشتہ ،جسکا ذکر کئے بغیر نہ صبح ہو تی ہے اور نہ ہی شام اگر آپ نے ٹی وی اس مقصد سے کھولا ہے یا اخبار اس امیدسے پڑھ رہے ہیں کہ کہیں روزگار ملنے کی بات ہوگی ، کہیں بھوک مری سے نجات کی بات ہوگی ، کہیں سیلاب زدہ لوگوں کو راحت دینے کی بات ہوگی، کہیں ضروری امتحانات دینے سے متعلق نوٹیفیکیشن جاری ہوا ہوگا، کہیں کورونا سے متعلق کوئی راحت کی بات ہوگی یا پھر ملک میں بڑھ رہے جرئم اور تشدد پر قابو پانے کی بات ہوگی تو آپ بھول کر رہے ہیں، آپ یہ بات بھی بھول رہے ہیں کہ اس ملک میں بنیادی مسائل اٹھانے والے یا سوال کرنے والوں پر ’’ دیش دوروھ‘‘ کا الزام بھی لگ جاتا ہے اس لئے شاید لوگ ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں بنیادی مسائل اٹھا نہیں پا رہے ہیں جو میڈیا دیکھا رہی ہے اور جو موجودہ حکومت کہہ رہی ہے اسے ہی مجبوراً سنا اور دیکھا جا رہاہے ۔ جس کا اثر اس ملک پر بہت گہرا پڑا رہا ہے اس ملک کا مستقبل کیا ہے یہ کسی کو پتہ نہیں ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ملک کے سرحدوں پر چین اور نیپال نے سرگرمی بڑھا دی ہے 20جوانوں کی شہادت کے بعد بھی کوئی ٹھوس قدم چین کے تئیں نہیں اٹھایا رہا ہے اور نہ ہی نیپال کی دلیری پر کوئی سنجیدگی دکھائی دے رہی ہے اگر کچھ دکھائی دے رہا ہے تو وہ ہے بالی ووڈ کے جواں سال اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کامعاملہ جسے حل کرنے کے لئے پوری سرکاری مشنری سے لے کر میڈیا تک سرگرم ہے۔ میڈیا سے جانکاری کے مطابق اب ایسی باتیں سامنے آ رہی ہیں کہ اس مبینہ خود کشی کی اصل وجہ جاننے کے لئے سی بی آئی سوشانت سائیکولوجیکل اٹوپسی کرے گی۔اس عمل کو لوگ’ دماغ کا پوسٹ ماٹم‘ بھی کہتے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس سائیکولوجیکل اٹوپسی میں سی بی آئی کی سینٹرل فورنسک سائنس لیباریٹری کی ٹیم سوشانت کی زندگی سے جڑے ہر پہلو کی جانچ کرے گی۔ اس جانچ کے دوران سوشانت کی قریبی رشتہ داروں اور دیگر لوگوں سے بات چیت پر گہرائی سے غور کیا جائے گا۔ ساتھ ہی سوشانت کے سوشل میڈیا پوسٹ کا بھی بغور جائزہ لیا جائے گا۔ اس تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ سوشانت کی ذہنی کیفیت کا صحیح اندازہ کیا جا سکے۔ یہ عمل بہت آسان نہیں ہے اور ملک میں اب تک صرف دو کیسز میں یہ سائیکولوجیکل اٹویسی کیا گیا ۔ کانگریس لیڈر ششی تھرور کی بیوی سنندا پشکر کی موت کامعاملہ سلجھانے میں اور براڑی اجتماعی خودکشی معاملہ کا سبب جاننے میں اس عمل کا استعمال کیا گیا اگر سوشانت کا بھی نفسیاتی باڈی ٹیسٹ ہوا تو یہ تیسرا معاملہ ہوگا جس میں یہ جانچ کی جائے گی۔ اس طرح کی پل پل کی خبریں میڈیا سے ہمیں موصول ہو رہی ہیں تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح، جی ڈی پی کی شرح، کرونا کی شرح کی جانکاری کسی کو بھی نہیں مل پا رہی ہے اور نہ ہی کورونا جیسی جان لیوا وائرس کے بھیانک حالات بتائے جا رہے ہیں ۔آئے ہم آپ کو اس سلسلے میں تھوڑی جانکاری فراہم کردیں۔ تادم تحریر ملک میں ایک ہی دن میں 67 ہزار سے بھی زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں تاہم اسی عرصہ کے دوران 63 ہزار سے زائد مریضوں کے صحت مند ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ بدھ کی صبح مرکزی وزارت صحت و خاندانی بہبود کی طرف سے جاری تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ24 گھنٹوں کے دوران ملک میں متاثرہ افراد کی تعداد67151 نئے مریضوں کے ساتھ مجموعی تعداد 3234475 ہوگئی ہے۔ اسی عرصہ کے دوران63173 مریض شفایاب ہوئے ہیں۔ جس سے صحت مند ہونے والے مریضوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر2467759 ہوگئی ہے ۔ ایکٹیو کیسزمیں2919 مریضوں کا اضافہ ہوا ہے اور صحت مند افراد کی نسبت نئے کیسز کی وجہ سے یہ تعداد707267 ہوگئی ہے۔ یعنی اس جان لیوا وائرس سے 1059 مریضوں کی موت سے ہلاک شدگان کی مجموعی تعداد59449 ہوگئی ۔ ملک میں ایکٹیو کیسز کی شرح 21.87 فیصد، شفایابی کی شرح76.30فیصد جبکہ اموات کی شرح1.84 فیصد ہے۔ اب اس اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو اس بات کا اندازہ لگ جائے گا کہ ملک کی حالات کس بھیانک دور میں ہے۔ کرونا کو لے کر میڈیا کی خاموشی نے پورے ملک کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔
بہر حال! یہ بات مجھے کہہ لینے دیجئے کہ ملک کی بنیادی مسائل اور کرونا جیسی جان لیوا وائرس کو بلائے طاق رکھ کر سوشانت خودکشی معاملے میں جس طرح سے ٹی وی میڈیا دلچسپی دکھا رہی ہے اس سے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سوشانت ابھی زندہ ہے اور کرونا کی موت ہو گئی ہے۔ اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ میڈیا نے اپنی ٹی آر پی بڑھانے کو لے کر جس طرح سے سوشانت معاملے کو ہائی پروفائل بنایا گیا وہ یقیناً افسوس کی بات ہے۔ دوسری جانب یہ بات بھی گشت کر رہی ہے کہ یہ سب آئیندہ بہار میں ہونے والے اسمبلی الیکشن کو دیکھتے ہوئے دلچسپی لیا جا رہا ہے تاکہ سوشانت معاملے کو بہار الیکشن کا مدعا بنایا جائے کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ میڈیا میں سوشانت تب تک زندہ ہے جب تک بہار کا الیکشن ختم نہ ہو جائے بہار کے الیکشن ختم ہوتے ہی اس ہائی پروفائل کی خبر پر کسی بھی گودی میڈیا میں سوشانت کی خبر دن بھر نہیں چلنے والی اور نہ ہی اس کی پل پل کی خبر لوگوں تک پہنچائی جائے گی۔ دوسری جانب یہ بھی بات گشت کر رہی ہے کہ کرونا معاملے میں مسلم اینگل فی الحال ختم ہے یہی وجہ ہے گودی میڈیا اس معاملے میں اپنا وقت ضائع نہیں کر رہی ہے ۔ جس طرح سے شروعاتی دور میں کرونا کو لے کر مسلم اینگل ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکال گیا اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی وہ شاید اب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا کورونا معاملے میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے اور نہ ہی اسے خطرناک وباء بتا رہی ہے۔ گودی میڈیا کے ذریعہ کرونا کو لے کر جس طرح کی خاموشی اختیار کی جا رہی ہے اس سے ایسا معلوم پڑتا ہے کہ ملک میں کرونا کی موت یقیناً ہو گئی ہے اور سب کچھ پہلے جیسا ہو گیا ہے اب کسی کو بھی کورونا وباء چھو نہیں سکتا۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ گودی میڈیا جس طرح سے پی ایم مودی کی ناکامی چھپانے میں لگی ہے وہ یقیناً افسوس ناک ہے۔ گودی میڈیا پی ایم مودی کی مور کو دانا کھلاتے اور اسے پچکارتے ہوئے تو دن بھر دکھاتی ہے لیکن ملک کا غریب بھوک مری، اور بے روزگاری سے جس طرح سے دو چار ہو رہا ہے اسے دکھانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھاتی، اس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ میڈیا پوری طرح جانبداری سے کام لے رہی ہے، اپنی رپورٹ میںسوشانت راجپوت کو توزندہ رکھا ہے لیکن کورونا کو مار ڈالا ہے۔۔۔

Comments are closed.