عذرا چودھری مذہبی رواداری ، بھائی چارے اور اخوت کی عظیم مثال

کالم نویسہ: شاذیہ چودھری
کلر راجوری جموں وکشمیر
[email protected]
معاشرے میں خواتین کی ترقی اُن کی اپنی بڑھتی ہوئی خوداعتمادی اور حقوق و فرائض کے شعورکی بدولت ممکن ہوئی ہے، جس کی ایک اہم وجہ ریاست کے چار ستونوں میں عورت کی موجودگی ہے۔ خواتین نے تمام مشکل حالات میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا ہے۔ ہماری شاعرات و ادیبائوں نے مردوں کی اس دنیا میں انھیں آئینہ دکھایا۔ نسائی تحریروں کی اثر پذیری اور طاقت کے باعث ’غیرت کے نام پر قتل‘ کو غیر اسلامی قرار دیا گیا۔ گزشتہ دہائیوں تک خواتین کی اکثریت گھروں تک محدود تھی، تاہم1990ء کے بعد سے ملازمت پیشہ شادی و غیر شادی شدہ خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مرد اور خواتین گھرچلانے اور ملک کی معاشی ترقی میں یکساں کردار ادا کررہے ہیں۔ آبادی میں اضافے اور مہنگائی کے طوفان نے متوسط طبقے کے لئے یہ مشکل بنادیا ہے کہ گھر کا خرچہ ایک ہی فرد چلائے، ایسے میں باصلاحیت خواتین آگے آکر بھرپور اعتماد سے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کررہی ہیں۔ حقیقی معنوں میں اب میاں بیوی شریکِ حیات کے رُوپ میں ڈھل رہے ہیں، جہاں وہ ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ کے ساجھی ہیں۔ نئے معاشی اشاریئے میں بیوی، خاوند کی اکنامک پارٹنر ہے۔ اور اگر بات کریں صرف مسلم خواتین کی تو آج مسلم خواتین اپنے حقوق و فرائض کو ذمہ داری سے نبھاتے ہوئے جس طرح اپنی خود اعتمادی اور انفرادی کاوشوں سے اپنے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں، اس سے ہم سرِ مو انحراف نہیں کرسکتے۔ ان کے انفرادی کارہائے نمایاں کے باعث اسلام کا روشن چہرہ دنیا پر عیاں ہوا ہے۔ آج کی مسلم خواتین نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سیاست، کھیل، تعلیم اور سائنس سمیت دیگر شعبوں میں اپنی دیرپا شناخت بنائی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حکومت، فوج، عدلیہ اور صحافت جیسے ریاست کے چارستونوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ مسلم خواتین نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ خواتین کسی سے کم نہیں۔ اب دنیا بھر میں خواتین کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج بنتِ حوا مجبور نہیں ہے، وہ اپنے حقوق کے لئے لڑ سکتی ہے اور اپنے حقوق پر قانون سازی بھی کروا سکتی ہیں خود اعتمادی اور حقوق و فرائض کے شعور نے مسلم خواتین کو اپنے خلاف ہونے والے تشددکو طشت ازبام کرنے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آج میں آپ سب قارئین کو جموں وکشمیر کی ایسی ہی ایک خاتون کے روبرو کرنے جا رہی ہوں جنہوں نے مذہبی رواداری، بھائی چارے اور اخوت کی ایک مثال قائم کی ہے۔ جنہوں نے قرآن مجید والفرقان حمید کو ڈوگری زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ جبکہ ان کی اپنی مادری زبان گوجری ہے لیکن علاقائی زبان کو ترجیح دے کر ہندو ڈوگروں کے لئے قرآن مجید کو سمجھنا آسان کر دیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مذہبی بھائی چارے میں یقین رکھتی ہیں ،وہ چاہتی ہیں کہ جموں میں ہندو مسلم آپس میں بھائی چارے اور مذہبی رواداری کو قائم رکھیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب قرآن مجید کی تعلیمات ان لوگوں کو بھی سمجھائی جا سکیں اور اس کا سب سے موثر طریقہ قرآن مجید کو جموں واسیوں کے لئے آسان الفاظ میں پیش کرنا ہے جو کہ جموں کی ان خاتون نے قرآن مجید کو ڈوگری میں ترجمہ کر کے پیش کیا ہے۔ عذرا چودھری ایک ایسی خاتون ہیں جنہوں نے ایک ہندو گھرانے میں مسلم ماں کی کوکھ سے جنم لیا دراصل عذرا چودھری کی ماں رضیہ بیگم چک جعفرجموں کے زمیندار چودھری عبداللہ خان جو کہ اس وقت کے اسمبلی ممبر بھی تھے اور اپنے علاقے کی جانی مانی ہستی تھے، اُن کی بیٹی تھیں جن کی شادی 1946 میں میراں صاحب جموں کے چودھری غلام احمد کے ساتھ ہوئی 1947 کے بٹوارے میں جب جموں میں ہندو مسلم فساد شروع ہوئے تو غلام احمد نے اپنے بہت سارے دوسرے مسلمان ساتھیوں اور خواتین کے ساتھ میراں صاحب جموں میں ایک گلاس فیکٹری میں اپنی حفاظت کے پیش نظر پناہ لے لی لیکن نومبر مہینے میں جموں کے پورے علاقے پہ ہندو انتہا پسندوں کا دبدبہ آ گیا اور انہوں نے مسلم مردوں کے ساتھ لوٹ مار قتل وغارت اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کیں، مردوں کو قتل کرنے کے بعد ان انتہا پسند درندوں نے عورتوں کو بوٹیوں کی طرح آپس میں بانٹ لیا رضیہ بیگم کو ٹھاکر بلوان سنگھ نامی شخص جو کہ تھب جموں کے ذیلدار خاندان سے تعلق رکھتے تھے، انھوں نے اپنے گھر میں پناہ دی کیونکہ ان کو بتایا گیا تھا کہ رضیہ بیگم کا پورا پریوار مارا گیا ہے۔ ایک جوان معصوم لڑکی جس کے ہاتھوں کی مہندی بھی ابھی تک نہیں اُتری تھی جس نے دنیا کو ابھی ٹھیک سے جانا بھی نہیں تھا۔ اس نے اپنے آپ کو بالکل بے یار و مددگار پایا اور بلوان سنگھ کے ساتھ مجبوراً شادی کے بندھن میں بندھ گئیں اور وہ رضیہ بیگم کو لے کے پنجاب چلے گئے وہاں رضیہ نے ایک بیٹے کرن سنگھ اور دو بیٹیوں ریوا رانی اور انجو کو جنم دیا 1965ء میں ٹھاکر بلوان سنگھ کی وفات ہو گئی اور جموں سے ان کے پریوار نے رضیہ کو لا تعلق کر کے نکال دیا لیکن ایک پٹواری جو کہ ٹھاکر بلوان سنگھ کے دوست تھے انہوں نے رضیہ بیگم اور انکے بچوں کو ریہاڑی جموں میں رہنے کے لیے ایک کمرہ دیا اور پھر رضیہ بیگم نے اپنے بچوں کے لئے چھوٹی موٹی نوکری کی اور سلائی کڑھائی کا کام کیا تا کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکے۔ ابھی وہ لوگ اپنے پیر زمین پر مضبوطی سے جما بھی نہیں پائے تھے کہ ان کی زندگی میں ایسا موڑ آیا کہ وہ انگشت بدنداں رہ گئے، جب دسمبر 1974 میں تحصیل آفس جموں میں اچانک رضیہ بیگم کی اپنے سابقہ شوہر (چودھری غلام احمد) کی بہن اور کزن کے ساتھ ملاقات ہو گئی اور وہ یہ جان کر حیران رہ گئیں کہ وہ لوگ جن کے بارے میں انھیں کہا گیا تھا کہ دنگوں میں مارے گئے ہیں وہ زندہ ہیں اور دلپٹیاں جموں میں رہ رہے ہیں۔ یہ ایک جذبات کا ریلا تھا جس میں بہہ کر وہ دونوں گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روئیں اب رضیہ بیگم جان گئی تھیں کہ ان کے بہت سارے رشتے دار زندہ ہیں جن میں انکے شوہر ساس انکے اپنے والدین اور بہنیں شامل تھے اور جموں اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ کچھ مہینوں کے بعد رضیہ بیگم اور انکے بچوں نے اپنی پرانی جائے پناہ کو خیر باد کہہ دیا اور دلپٹیاں میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ آکررہنے کا فیصلہ کیا تب انکو پتہ چلا کہ ان کے سابقہ شوہر زندہ بچ جانے کے بعد سیالکوٹ پاکستان چلے گئے تھے اور پھر کچھ سال بعد واپس آئے لیکن رضیہ بیگم کو نہ پا کر انہوں نے دوسری شادی کرلی۔ 1974کے مشکل دور میں رضیہ اور انکے پریوار نے ایک بہت بڑا اورعظیم فیصلہ لیا اور واپس اسلام میں داخل ہو گئے کرن سنگھ کرن ہی رہے لیکن انجو زرینہ چودھری میں اور بڑی بہن ریوا رانی عذرا چودھری میں بدل گئیں ایک مقامی قاری صاحب نے عذرا کو نماز اور قرآن پڑھایا 1979 میں رضیہ بیگم چھوٹی بیٹی زرینہ کو لے کر پاکستان اپنی والدین اور بہنوں کے ساتھ ملنے گئیں اور پھر ان کے مائیکے والوں نے واپس وطن لوٹنے نہ دیا جسکی وجہ سے ان کو پاکستان میں ہی ٹھہرنا پڑا۔ عذرا چونکہ بالغ تھیں اور زیر تعلیم تھیں پاسپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے ان کے ساتھ نہ جا سکیں،کیونکہ اسکول کے ریکارڈ میں انکا نام ریوا تھا جو کہ جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن میں درج ہو چکا تھا جسکی وجہ سے انکو پاسپورٹ نہ مل سکا ۔ تقدیر کو عذرا چودھری کے لئے کچھ اور ہی منظور تھا وہ جموں میں ہی رہائش پذیر رہیں تعلیم حاصل کی شادی ہوئی ملازمت ملی اور آخر کار ڈوگری زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ انکی والدہ رضیہ بیگم 1999میں سیالکوٹ میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں۔ اور بہن زرینہ چودھری اب امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔ تعلیم کے میدان میں عذرا کی والدہ ہی تھیں جنہوں نے انکی ہر قدم پہ حوصلہ افزائی کی وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی تھیں خاص کر بیٹیوں کی تعلیم کے لئے ہر وقت کوشاں رہیں۔ انہوں نے کبھی بھی اپنی بیٹیوں کو تعلیم سے الگ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کود میں بھی وہ بچیوں کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ عذرا چودھری نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی 1978میں ہندی میں ماسٹرس ڈگری حاصل کی ۔ 1985میں بی ایڈ کیا اور پھر1987 میں ڈوگری میں ماسٹرس ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ سرکاری استانی کے طور پہ تعینات ہو گئیں، سات برسوں تک انہوں نے بحیثیت استانی کام کیا۔ پھر جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز کی طرف سے ایک اشتہار ریسرچ اسسٹنٹ ڈوگری ڈکشنری کی پوسٹ کے لئے دیا گیا۔ جس میں امیدوار کی کارکردگی میں ہندی اور ڈوگری میں ماسٹرس ہونا لازمی تھا جو کہ عذرا چودھری کے پاس تھی اور انہوں نے باآسانی انٹرویو پاس کر لیا، اور کلچرل اکیڈمی میں تعینات ہو گئیں اور اپنی صلاحیت کے باعث آج وہ قرآن مجید کی مترجم بن گئیں۔2017 میں عذرا چودھری جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز کی ڈکشنری سیکشن میں چیف ایڈیٹر کے عہدے سے سبکدوش ہو گئیں اور پھر ترجمے کا کام تندہی سے کرنے لگیں ۔عذرا چودھری نے محسوس کیا کہ آج تک ان کی زندگی میں جو بھی اتار چڑھاؤ آئے ہیں ان کی وجہ سے وہ زندگی میں بہت کچھ اچھا اور بہتر کر سکتی ہیں۔ جیسا کہ وہ مذہب کے پیروکار تھیں اسلام کو ماننے والی تھیں اور اب انہیں قرآن مجید کو سمجھنے کا موقعہ ملا تھا۔ قرآن مجید کے الفاظ کا مفہوم سمجھ میں آنے لگا تھا انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ ڈوگری ترجمہ کے دوران میں نے قرآن مجید کو نئی روشنی میں دیکھا اور سمجھا۔ جیسا کہ ڈوگری زبان کو ہندوستانی آئین کے آٹھویں شیڈول میں شامل کیا گیا ہے اور اسکے بولنے والوں کی کثیر تعداد جموں اور ہماچل پردیش میں پائی جاتی ہے اسلئے ضلع راجوری میں ایک مذہبی اور سماجی تنظیم شاہ ہمدان سوسائٹی نے یہ محسوس کیا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ قرآن مجید والفرقان حمید کا ڈوگری میں ترجمہ کیا جائے تا کہ امن بھائی چارے اور اخوت و محبت کا پیغام اتنی بڑی ڈوگر برادری تک بھی پہنچے اس سے پہلے قرآن مجید کا دنیا کی سو بڑی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے لیکن ڈوگری میں ابھی تک نہیں ہوا تھا۔ اور اسی کارِ خیر کو انجام تک پہنچانے کے لئے سوسائٹی کے ممبر عبدالقیوم ندوی جو کہ ایک اسکول پرنسپل بھی ہیں، انھوں نے عذرا چودھری سے2014 میں اس کام کے لئے رابطہ کیا ۔وہ جانتے تھے کہ اگر یہ کام کوئی کر سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف عذرا چودھری ہیں، کیونکہ عبدالقیوم ندوی صاحب نے ایک بار اپنی ہمسفر شمیمہ جی جو کہ جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز میں ایڈیشنل سیکریٹری کے عہدے پہ فائز تھیں اور شاہ ہمدان ٹرسٹ کی ممبر بھی تھیں اُن سے پوچھا کہ قرآن مجید کے ڈوگری ترجمے کے لئے کون صحیح رہے گا، تب شمیمہ جی نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے عذرا چودھری کا نام لیا اور کہا کہ صرف وہی اس کام کو بااحسن طریقے سے انجام دے سکتی ہیں۔ عذرا چودھری ابھی اپنے دماغ میں سوچ وچار ہی کر رہی تھیں کہ آیا اتنا بڑا اور نازک کام وہ کر سکتی ہیں یا نہیں کہ قیوم صاحب نے کہا کہ آپ ہی یہ کام کر سکتی ہیں اور کوئی نہیں۔ اپنا دفتری کام ہونے کے باوجود عذرا چودھری نے یہ کام بخوبی انجام دیا وہ اتوار اور چھٹی والے دن ترجمہ کا کام کرتی تھیں قیوم صاحب نے انہیں مشورہ دیا کہ سب سے پہلے تیسویں پارے کا ترجمہ شروع کریں کیونکہ اسمیں سورۃ چھوٹی ہیں ۔ترجمہ کرتے وقت خاص کر قرآن مجید کا ترجمہ کرتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ایک لفظ کا مطلب بھی آگے پیچھے ہو جانے کا مطلب ہے قرآن مجید کے معنی ہی بدل دینا۔ اس لئے عذرا چودھری نے پہلے پہل جو ترجمہ کیا اسکو پہلے اچھے سے چیک کیا چھان بین کی اور پھر ان کو اس کام کے لئے ہری جھنڈی ملی۔ تیسواں سپارہ الگ سے مولانا وحیدالدین خان نے دہلی میں چھاپا اور شائع کیا ۔اسکے بعد عذرا چودھری نے باقی پاروں کا ترجمہ شروع کیا جو کہ پانچ سال میں مکمل ہوا۔ عذرا چودھری نے 2017 میں اکیڈمی سے چیف ایڈیٹر ڈکشنری سیکشن کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد پورا وقت قرآن مجید کے ترجمہ میں صرف کیا، اور الحمداللہ مئی ،2019 میں عذرا چودھری کا ڈوگری زبان میں ترجمہ کیا ہوا قرآن مجید منظر عام پر آیا۔(ختم شُد)
(نوٹ: کالم نویسہ ہفتہ وار گوجری اخبار رودادِقوم کی معاون مدیرہ ہیں۔)
Comments are closed.