قدروقیمت میں یہ گڈری میں لال تھے پیارے:حضرت مولاناقاضی محمدقاسم مظفرپوری رحمۃ اللہ علیہ

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
ہردن ہزاروں لوگوں کی جانیں قفس عنصری سے پرواز کرکے ملاء اعلی جا پہنچتی ہیں، ہرجانے والے کے پیچھے آنسوبہانے والے بھی ہوتے ہیں، دنیاکاشایدہی کوئی بدنصیب ہو، جس کے پیچھے آنسوبہانے والاکوئی نہ ہو؛ لیکن کچھ جانے والوں کے پیچھے ان کے اپنے ہی نہیں، پرائے بھی، صرف رشتہ دارہی نہیں، دوروالے بھی، اولاد واحفادہی نہیں، نام سننے اورجاننے والے بھی سیل اشک کوروک نہیں پاتے، وہ اپنے پیچھے ایک جم غفیرکوسوگوارچھوڑجاتے ہیں، ایسے ہی جانے والوں میں حضرت مولانامحمدقاسم مظفرپوری ہیں، جن کے نام کے آگے آج تک دامت برکاتہم اورمدظلہ العالی لکھاجاتارہاہے؛ لیکن آج کے بعد سے رحمہ اللہ اورنوراللہ مرقدہ وغیرہ کے الفاظ لکھے جائیں گے۔
حضرت مولاناسے دیدوشنید کی سعادت پہلے پہل اس وقت نصیب ہوئی، جب میں استاذ گرامی قدرفقیہ عصرحضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی کے قائم کردہ ادارہ المہدالعالی الاسلامی حیدرآبادکے شعبۂ افتاء میں زیرتعلیم تھا، مولاناکے یہاں تعلیم کاایک اہم ذریعہ ’’محاضرہ‘‘کوبھی ماناگیاہے اوراس کے لئے ملک وبیرون ملک کے ماہرین کاورودمسعودہوتارہتاہے، دسیوں بزرگان دین اوراپنے موضوع کے ماہرین، جن میں سے بعض کے نام سے شناسائی تھی اوربعض کے نام سے شناسائی بھی نہیں، یہیں کے زمانہ ٔدرس میں انھیں دیکھنے اورسننے کی سعادت نصیب ہوئی، انھیں بزرگانِ دین میں ہمارے حضرت مولانابھی تھے۔
حضرت مولاناکی تشریف آوری اپنے دواوررفقاء حضرت مولاناقاضی عبدالجلیل صاحب مدظلہ اورجناب قاضی انظارصاحب مدظلہ کے ساتھ ’’تربیت قضاء‘‘ کے تعلق سے ہفتہ بھرکے لئے ہوئی تھی، پہلی ہی مجلس نے دل پرایسے گہرے نقوش ثبت کئے، جوآج تک قائم ہیں، اس پروگرام سے قبل ’’قضاء‘‘ کے نام سے توضرورواقفیت تھی؛ لیکن کام سے نہیں، کارقضاء کے سلسلہ میں اس پروگرام کے بعد اتنی واقفیت ہوگئی کہ جب استاذ گرامی قدرفقیہ عصرحضرت مولانا رحمانی مدظلہ العالی کے ایماء پرجامعہ ضیاء العلوم کنڈلور میں تدریس کے لئے جاناہو، جہاں تدریب افتاء کے شعبہ کاآغاز ہواتھا تو تدریب قضاء کی تدریس کی ذمہ داری بندہ کے سپردہوئی، اسی پروگرام کی برکت سے میں اس ذمہ داری کوقبول کرنے پرراضی ہوسکا، نہج تووہی تھا، جوحاصل کیاگیاتھا؛ البتہ آداب و مسائل فقہ شافعی کی روشنی میں شافعی کتب فقہ سے اخذ کئے گئے کہ تمام طلبہ مسلکی اعتبارسے شافعی تھے، پھراسی کی برکت سے ’’آداب قضاء(شافعی)‘‘ کے نام سے میری پہلی کتاب حضرت مولاناہی کے تقریظ سے مزین ہوکرمنصہ شہود میں آئی، وذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔
حضرت مولاناقاسم صاحب حقیقی معنوں میں علم کا’’سمندر‘‘تھے، مسائل کے استحضار کے ساتھ نصوص وادلہ کابھی استحضارتھا اورسب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ کسی بھی مسئلہ میں اولاً نص سے اعتناء خودبھی کرتے تھے اوراپنے شاگردوں کوبھی اسی کاخوگربناتے تھے، فقہی عبارات ان کے یہاں دلیل کے طورپرنہیں؛ بل کہ تائیدکی نظرسے دیکھی جاتی تھیں، خودہم لوگوں نے قیام معہد کے زمانہ میں اپنے اپنے سندی مقالات کے سلسلہ میں حضرت سے مراجعت کی ، انھوں نے مقالات پرنظرڈالی اورکئی جگہوں پریہ سوال بھی کیاکہ اس پرنص کیاہے؟ خودبھی جب کوئی تقریرکرتے یا محاضرہ دیتے توہربات پر نص پیش کرنے کی کوشش کرتے، حضرت مولاناچوں کہ شیخ الحدیث بھی رہ چکے تھے اوربرسہابرس حدیث کادرس دیتے رہے تھے؛ اس لئے احادیث کااستحضاربھی خوب تھا۔
حضرت مولاناکی دوسری خوبی یہ تھی کہ وہ بہت سادہ تھے، کان بشراً من البشرکی عملی تفسیر، علم کے اعتبارسے بہت بڑے؛ لیکن تواضع اورانکساری کی وجہ سے محسوس ہی نہیں ہوتاتھاکہ وہ اتنے پایہ کے ہیں، سچ ہی کہاگیاہے کہ اصل علم تویہ ہے، جوآدمی کومتواضع بنادے، جوعلم نخوت پیداکردے، اسے معلومات توکہا جاسکتا ہے ؛ لیکن اسے اصل علم نہیں کہا جاسکتا، حضرت اصل علم کے مالک تھے، اورکیوں نہ ہوتے؟ علم کافیض بھی توکشید ایسے لوگوں سے کیاہے، جوایسے ہی تھے، یعنی شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنی، علامہ ابراہیم بلیاوی ، شیخ الادب مولانااعزاز علی اورشیخ التفسیرمولانافخرالدین صاحب رحمہم اللہ جیسے اساطین علم فضل سے ،یہ تواضع اورفروتنی ہرچیز میں نظرآتی، خورش سے لے کرپوشش تک، رفتارسے لے کر گفتار تک، اسی تواضع کانتیجہ تھاکہ پروگراموں اورسیمیناروں میں اپنے چھوٹوں کے ساتھ بھی قیام کرلینے میں کسی قسم کی کوئی خفت محسوس نہیں کرتے تھے، خودکئی موقع سے بندہ کوبھی ساتھ رہنے کی سعادت ملی ہوئی ہے ، ایک مرتبہ تو’’جالے‘‘میں، جو قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ اوراستاذگرامی قدرحضرت مولانارحمانی مدظلہ العالی کاآبائی وطن ہے اورجہاں استاذگرامی قدرکے ساتھ جاناہواتھا، سبیل الفلاح جالے کے ایک کمرے میں ایک معمولی چارپائی پررات بسرکی، جہاں اس وقت تک اعلی قسم کے انتظامات بھی نہیں تھے، حضرت کی سادگی پربس اتناہی کہاجاسکتاہے کہ:
ظاہری سادگی رشک ِجمال تھی پیارے
قدر و قیمت میں یہ گڈری میں لال تھے پیارے
آج کل لوگوں کے اندر’’برداشت‘‘کامادہ نہیں پایاجاتا، اپنے خلاف ، اپنے مسلک کے خلاف اوراس نظریہ کے خلاف ، جس پروہ قائم ہیں، کچھ سنتے نہیں کہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں؛ حتی کہ علمی مباحثہ سے آگے نکل کردشنام طرازی پراترآتے ہیں، ایسے دورمیں حضرت مولاناکی ایک بڑی خوبی ’’بردباری‘‘ اور’’تحمل مزاجی‘‘ بھی تھی، یہ ایسی صفت ہے، جس کی وجہ سے دشمن بھی مات کھاجاتاہے، اسی لئے مناظرہ کے ایک اہم اصول کے طورپراسے جاناجاتاہے، ہمارے حضرت میں بھی یہ خوبی اتم درجہ میں پائی جاتی تھی، جب بھی کوئی کچھ پوچھنے کے لئے جاتا، تحمل مزاجی کے ساتھ سنتے اورحسن خوبی کے ساتھ جواب دیتے،سوالات اور اشکالات کے جواب دینے میں بھی اور معاملات کے فیصلے میں بھی یہ چیزدیکھنے کوملتی، زمانہ بدل گیااورزمانہ کے ساتھ لوگ بدل گئے؛ لیکن حضرت نہیں بدلے، جس طرح آپ حق شناس تھے، اسی طرح عزم بردباری بھی اپنے اندررکھتے تھے:
وہی جوش حق شناسی، وہی عزم برد باری
نہ بدل سکا زمانہ مری خوئے وضع داری
موجودہ زمانہ میں لوگ جب ’’بڑے‘‘بن جاتے ہیں توچھوٹوں کی طرف توجہ کم ہوجاتی ہے؛ بل کہ بعض تونگاہ شفقت کے بجائے نظرحقارت ڈالنے سے بھی نہیں چوکتے، چہ جائیکہ ان سے مشورہ وغیرہ کرنے اوران کے مشورہ کوماننے کے روادار ہوں، حضرت اس مزاج سے کافی دورتھے، بڑوں کے سامنے بالکل مؤدب اورمہذب، جب کہ جھوٹوں کے سامنے جھوٹے بن جاتے تھے، نہ گفتگومیں بڑپن کااظہار، نہ رہن سہن میں اس کادکھاوا، کھانے پینے میں بھی ہم نوالہ، گفتگومیں بھی ہم نوااور مزاح ومذاق میں بھی ہم شریک، یہ تھی خوردنوازی کی اعلی ترین مثال؛ لیکن تربیت سے غافل بھی نہیں ہوتے تھے، حضرت کی جگہ اگردوسراکوئی اورہوتاتونہ جانے دنیاکے کس اسٹیج پرہوتا؛ لیکن حضرت کی فروتنی ہراسٹیج سے مانع رہی، یہ توکچھ مخلص لوگ تھے، جنھوں نے حضرت کواسٹیج کی زینت بناکر سواد اعظم کو مستفید کرنے کی سعی کی اوراس میں وہ کامیاب بھی رہے، اللہ انھیں بہتراجرسے نوازے، آمین!
’’بڑی خوبیوں کامالک تھا، وہ جانے والا‘‘، جن کواس مختصرمضمون میں بیان نہیں کیا جاسکتا، اختصارکے ساتھ اگرکچھ کہناہے توبقول استاذگرامی قدرحضرت مولانا رحمانی مدظلہ العالی: ’’دنیامیں چلتے پھرتے کسی جنتی کودیکھناہوتووہ حضرت مولانا قاسم صاحب مظفرپوری کودیکھ لے‘‘، اس ایک مختصرجملے میں حضرت کی ساری وہ خوبیاں سمٹ آئی ہیں، جو’’عبادالرحمن‘‘ کی ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ ان کے زلات کوبخش دے، ان کی اچھائیوں کوقبول کرے ، ان کے پسماندگان کوصبریعقوب عطاکرے اورہم اخلاف کوان کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق عطافرمائے، آمین!!!
[email protected] / Mob:8292017888

Comments are closed.