کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور! (حضرت مولانا قاضی محمد قاسم صاحب رحمہ اللہ کی وفات پر تعزیتی بیان )

کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور!
(حضرت مولانا قاضی محمد قاسم صاحب رحمہ اللہ کی وفات پر تعزیتی بیان )
*حضرت مولانا محمد صفی الرحمن قاسمی دامت برکاتہ*
مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ، دربھنگہ
حضرت قاضی محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان نابغہ روزگار شخصیتوں میں ایک تھے، جن کا انتقال نہ صرف ایک خاندان، یا ایک علاقے اور خطے کا نقصان ہے؛ بلکہ پوری امت مسلمہ کا نقصان ہے، اور ایسے وقت میں میں جب کہ اسلام کی فکری سرحدوں پر دشمنوں کی مسلسل اور شدت کے ساتھ یلغار ہے، ایسے نابغہ روزگار شخصیت کا ہم سے جدا ہو جانا امت مسلمہ کے لیے اور بالخصوص ملت اسلامیہ ہند کے لیے عظیم ترین نقصان ہے۔
میں جنازہ میں شرکت کے لیے اپنے گھر سے مظفر پور کی طرف رواں دواں تھا اور ذہن و دماغ میں میں خیالات اور یادوں کا ایک سلسلہ چل رہا تھا، تعلق بھی تو چند دن یا چند مہینے کا نہیں ہے، بلکہ اس کو تقریبا چالیس سال کے آس پاس ہو گیا ہے، اور اس میں بھی ادھر تقریبا بیس پچیس سالوں سے مستقل ایسا ہوتا رہا ہے کہ دو تین مہینہ بھی کبھی ایسا نہیں گزرا کہ جس میں ان سے مختصر یا مفصل ملاقات نہ ہوئی ہو۔
جنازہ میں شرکت کے لیے جا رہا تھا لیکن پھر بھی یہ خیال آرہا تھا کہ شاید ابھی فون آ جائے کہ یہ جو خبر ملی تھی "کہ *حضرت مولانا قاضی محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس دنیا سے پردہ فرما کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ہیں*،” یہ خبر غلط ہے؛ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
بالآخر ہم مظفر پور پہنچے مولانا قاضی محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جسد خاکی کو دیکھا، پھر ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا، آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، اور دل سے دعائیں نکلنے لگی کہ رب کریم اپنے اس بندے کی – جس نے پوری زندگی امت مسلمہ کی کئی نسل کی تعلیم و تربیت، سماج اور معاشرہ کی اصلاح، شرعی احکام کے مطابق لوگوں کے بیچ فیصلہ کرنے اور اسلام کی فکری سرحدوں کی حفاظت میں لگایا ہے – ساری خدمات کو قبول فرما لیجئے اور قبر میں کروٹ کروٹ سکون نصیب فرمائیے اور جنت میں اعلی مقام عطا فرمائیے ۔
اللہ عزوجل تو قادر مطلق ذات ہے؛ لیکن ظاہری طور پر یہ صاف نظر آرہا ہے کہ ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے، شاید وہ پورا نہ ہوسکے، ان کی شخصیت میں جو تنوع تھا، وہ موجودہ عہد میں بہت کم ہی نظر آتا ہے، وہ ایک اچھے استاذ اور مربی تھے، کہنہ مشق اور تجربہ کار قاضی تھے، اچھے مصنف تھے، پر اثر خطیب تھے، اور بہت ہی قریبی اور گھریلو تعلقات کی بنیاد پر، اپنے تجربہ کی روشنی میں مجھے یہ کہنے کا حق ہے کہ وہ ایک نہایت ہی سادہ،متوازن اور متواضع فرد تھے اور حقیقی معنوں میں اچھے اور مثالی انسان بھی تھے۔
اس دکھ کی گھڑی میں جو کہ میرے لیے بھی حد درجہ تکلیف دہ ہے، اپنے معزز اور دیرینہ رفیق حافظ ناظم صاحب(مولانا رحمہ اللہ کے برادر خورد)، مولانا عبداللہ مبارک (مولانا محترم رحمہ اللہ کے فرزند)، مولانا رحمت اللہ ندوی (مولانا محترم رحمہ اللہ کے بھتیجے اور ان کے خصوصی تربیت یافتہ)، عزیزم مولانا نعمت اللہ و عزیزی حافظ منت اللہ (مولانا رحمہ اللہ کے بھتیجے ) اور تقی سلمہ(مولانا رحمہ اللہ کے نواسے)، تمام اہل خانہ و متعلقین و منتسبین کو تعزیت مسنون پیش کرتا ہوں۔ اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ عزوجل مولانا محترم رحمہ اللہ کو اعلی علیین میں جگہ نصیب کرے، ان کے متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور متعلقین و منتسبین کو ان کا بہترین جانشین بنائے۔
والله الموفق وهو المعين.
Comments are closed.