اٹھ گئی ہے سامنے سے کیسی کیسی صورتیں:مولاناامین عثمانی مرحوم

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
ابھی قاضی قاسم صاحب مظفرپوری اورمولاناشاہ ہلال احمدقادری صاحب کے غم کااثرچھٹنے نہ پایاتھا،سوگواروں کی آنکھوں میں اشک ہائے غم جھلملاہی رہے تھے، دلوں میں گھٹن کی کیفیت محسوس ہی کی جارہی تھی، ابھی توٹھیک سے غم زدوں کوتعزیت بھی پیش نہیں کی جاسکی تھی، ان کی تربتوں کی مٹیاں خشک بھی نہیں ہوپائی تھیں اور سرہانے لگائی جانے والی ٹہنیوں کی تازگی پژمردگی کاشکاربھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک اورحادثۂ جانکاہ نے جھنجھوڑکررکھ دیا، یہ حادثہ بھی ذاتی سے بڑھ کرملی تھا، خصوصیت کے ساتھ جماعت ِعلماء کے لئے بڑاجاں گزا:
اٹھ گئی ہے سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
رویئے کس کے لئے، کس کس کاماتم کیجئے؟
یہ حادثہ تھااس شخص کا، جوجاننے کے باجودانجان بنارہتاتھا، جومخدوم ہونے کے بعدبھی ہمیشہ خادم بنارہا، جوایک اچھے عالم ہونے کے باوجودہمیشہ طالب ہی رہا، وہ مفکرتھا، امت مسلمہ کے تعلق سے ہمیشہ فکرمندرہنے والا، ملکوں کی سرحدیں اس کے لئے مانع نہیں تھیں، وہ خودبھی فکرمندرہتااوردوسروں کوبھی سوچنے پرمجبورکرتا، وہ خاموش مزاج تھا؛ لیکن جب امت کے مسائل زیربحث ہوتے توصرف وہی بولتا، باقی سب خاموش رہتے،مسجد اقصیٰ کی آزادی کے تعلق سے وہ خودبھی کڑھتااوردوسروں کوبھی کڑھنے پرابھارتا، وہ ہندوستانی علماء اوربیرون ممالک کے علماء کے لئے ایک پل کی حیثیت رکھتا تھا، وہ پڑھتاتھا؛ لیکن کسی کے سامنے جتاتانہیں تھا،صورت کے اعتبار سے بھی وہ حسین تھا اورسیرت کے لحاظ سے توحسین تر، وہ دماغ تھا، وہ آنکھ تھا، وہ کان تھا، وہ ہاتھ تھا، وہ پیرتھا، جس کے سہارے اسلامک فقہ اکیڈمی کاجسم متحرک رہتا تھا، وہ خوردنواز تھا، وہ مہمان نواز بھی تھا، وہ حلقۂ یاراں کے لئے بریشم کی طرح نرم تھااور وہ سوچ وفکراورعزم وارادہ کے اعتبارسے فولادبھی ۔
استاذ گرامی قدرفقیہ عصرحضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے ان کے اوصاف شمارکراتے ہوئے صحیح لکھاہے کہ : ’’اللہ تعالیٰ نے ان کواخاذ ذہن، دوررس فکر، جدوجہدکاغیرمعمولی جذبہ، مختلف حلقوں سے تعلقات کی استواری کاملکہ، ملی اورقومی مسائل کاشعور، اوربے پناہ صلاحیتوں سے نوازاتھا، وہ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کے نہایت معتمدرفیق تھے اوراکیڈمی کی تاسیس کے وقت سے ہی قاضی صاحبؒ کے شریک کاررہے، اپنی ہمہ جہت صلاحیت اورمزاج میں اعتدال وتوازن کی وجہ سے مختلف تنظیموں سے ان کاتعلق تھا، وہ اسلامک فقہ اکیڈمی کے سکریٹری برائے انتظامی اموراورمنصوبہ بندی تھے اوراکیڈمی کی تمام سرگرمیوں میں دماغ کی حیثیت رکھتے تھے، وہ آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ، المعہدالعالی پھلواری شریف، پٹنہ اورانسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیواسٹڈیزکے رکن رکین تھے‘‘۔
بندہ کی پہلی ملاقات اسلامک فقہ اکیڈمی کے سولہویں سیمینارمنعقدہ: جامعہ اسلامیہ دارالعلوم، مہذب پور، اعظم گڑھ میں ہوئی، اس وقت بس نام سے واقفیت ہوئی، کام کاپتہ تواس وقت چلا، جب استاذ گرامی قدرمولانارحمانی مد ظلہ العالی کے ساتھ دہلی کاسفراوراکیڈمی میں قیام ہوا، پھران تمام سیمیناروں میں ملاقات ہوتی رہی، جن میں بندہ کوحاضری کی سعادت ملی، ہمیشہ مسکراکرملتے، ہمیشہ اسٹیج سے ان کودورہی پایا، وہ اکیڈمی کے سکریٹری تھے؛ لیکن اسٹیج میں جانے سے محترز رہاکرتے ، وہ ایسے چلتے پھرتے نظرآتے ، جیسے ایک عام آدمی، اپنی کتاب’’اصول فقہ- ایک تعارف‘‘جب انھیں پیش کیاتوڈھیروں حوصلہ افزاکلمات سے نوازا۔
یہ تمام اوصاف ان صاحب کے ہیں، جنھیں دنیا’’امین عثمانی‘‘ کے نام سے جانتی ہے، وہ پرانے ندوی تھے اورندوی صفات ’’دل دردمند، فکرارجمند، زبان ہوش مند‘‘کے حامل تھے، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلیم حاصل کرکے ’’قدیم صالح، جدیدنافع‘‘ کانمونہ بھی بنے، انھیں پنجاب یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسری کاعہدہ بھی پیش کیاگیا؛ لیکن ملی ودینی خدمات کی انجام دہی کوترجیح دی، وہ بہت سادہ اورسادگی پسندتھے، خورش سے لے کرپوشش تک ہرچیز میں سادگی تھی، متواضع تھے، انھیں نہ علم کاغرہ تھا، نہ عہدہ کانخرہ، نفیس طبیعت کے مالک تھے، جوبھی ملتااوربات چیت کرتا، متاثرہوئے بغیرنہیں رہتا۔
ان کے جانے سے یقینا ملت کابڑاخسارہ ہواہے؛ لیکن جانے والے کوکوئی روک بھی تونہیں سکتا، جس خالق نے تخلیق کیا، اس نے اپنے پاس بلالیا، یہ تواس کااٹل اورمحکم اصول ہے کہ جوبھی آیاہے، جانے کے لئے آیاہے، دنیاجب فانی ہے تواس میں آباد مخلوقات باقی کیسے ہوسکتی ہیں؟’’موت سے کس کورستگاری ہے؟‘‘، باقی توبس وہی ہے، جوازل سے ہے، ابد؛ بل کہ ابدالأبادتک رہنے والاہے، کل من علیہافان، ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔
اے اللہ! تیرے دربارمیں وہ بندہ حاضرہے، جسے تونے غیرمعمولی صلاحیتوں سے نوازاتھا، اس نے خیرکے بہت سارے کاموں میں حصہ لیا، اس کے ان کاموں کو قبول فرما، انسان ہونے کی ناطے جولغزشیں سرزدہوئی ہیں، انھیں درگزرفرما، تمام سوگواران کوصبرجمیل عطافرما،قوم کو ان کانعم البدل عطافرمااورانھیں جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرما، آمین

Comments are closed.