جموں و کشمیر میں گجر بکروال خواتین میں تعلیمی پسماندگی اور اِس کاحل

کالم نویسہ: شاذیہ چودھری
کلر راجوری جموں و کشمیر

عورت کئی نسلوں کی امین ہوتی ہے۔عورت کا وجود باعث رونق ہے عورت نہ ہوتی تو یہ کائنات بھی نہ ہوتی بقولِ شاعر ”وجود زَن سے ہے کائنات میں رنگ و بو“ یعنی دنیا کی رنگینی عورت کے وجود سے ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ اگر اماں حواؑ کا وجود نہ ہوتا تو آج انسانی نسل کا بھی وجود نہ ہوتا۔ عورت جو کہ انسانی نسل کی امین ہوتی ہے ،اس کا تعلیم یافتہ ہونا اشد ضروری ہے۔ اس بات کا اظہار بے شمار مفکروں اور فلاسفروں نے بھی کیا ہے، کہ ایک مرد کے تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب ہے کہ صرف اسی ایک فرد کا صاحب کردار بننا، لیکن ایک عورت کا تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب ہے دو خاندانوں کے ساتھ ساتھ پوری نسل کا تعلیم یافتہ ہونا۔قرآن کریم میں بھی 500 سے زائد آیات ہیں جن میں تعلیم کی اہمیت اور افادیت کو کُھلے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پہ اگر ہم دھیان دیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ انھوں نے خواتین کی تعلیم پہ بہت زور دِیا ہے۔ خواتین کو برابری کا حق ہر مذہب نے دیا ہے۔ لیکن اس پہ عمل بہت کم ہو رہا ہے۔ یہ بات پوری دنیا میں عیاں ہے کہ مرد حضرات کے مقابلے میں خواتین تعلیمی لحاظ سے آج کے اس اکیسویں صدی کے دور میں بھی پسماندہ ہیں، پچھڑی ہوئی ہیں اور خواتین میں بھی سب سے زیادہ تعلیمی پسماندگی اور پچھڑا پن گجر بکروال خواتین میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ 2011 میں کروائی گئی مردم شماری کے مطابق گجر بکروال طبقے کے ہر دس افراد میں سے 7 افراد نا خواندگی کا شکار ہیں، اور اس طبقے کی 82.2 فیصد خواتین نا خواندگی کا شکار ہیں یعنی 18فیصد خواتین ہی خواندہ ہیں۔ ایک دوسرے تخمینے کے مطابق پورے ملک میں 50.35 فیصد خواتین ہی پڑھی لکھی ہیں اور ریاستی سطح پہ جموں کشمیر یوٹی میں 68.02 فیصد خانہ بدوش خواتین ہی پڑھی لکھی ہیں اور ان خانہ بدوش خواتین میں بھی گجر بکروال خواتین سب سے زیادہ انپڑھ ہیں۔جموں و کشمیر اور لداخ میں مختلف نسلوں اور قبیلوں کے لوگ رہتے ہیں جن میں گجر بکروال قبیلے کے لوگ اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔عام طور پہ یہ لوگ اُونچے اُونچے پہاڑوں، جنگلوں اور ڈھوکوں بہکوں میں رہتے ہیں، یہ لوگ سختی جھیلنے اور جدوجہد کرنے والے لوگ ہیں ۔حکومتیں ان کی فلاح و بہبود کے راگ تو بہت الاپتی ہیں لیکن عملی طور پہ اس پسماندہ آبادی کی بگڑتی حالت بدلتی ہوئی نہیں دِکھتی۔ گجر بکروال قوم تعلیمی میدان میں بہت زیادہ پیچھے ہے، خاص کر اس طبقے کی خواتین تعلیم سے بالکل پچھڑی ہوئی ہیں۔گجر بکروال خواتین میں تعلیمی پسماندگی کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں کچھ ایک کا ذکر اسطرح ہے۔1:۔خانہ بدوشی اور ہجرت۔2:۔مالی تنگدستی۔3:۔چھوٹی عمر میں شادی اور وٹے سٹے کا رواج۔4:۔لڑکیوں کو پرایا دھن سمجھنے کی فرسودہ روایت۔5:۔پردے کی آڑمیں گھر سے باہر تعلیم کے لئے نہ بھیجنا۔6:۔ بیٹیوں اور بیٹوں میں تفرقہ ۔7:۔ والدین کا بذات خود انپڑھ ہونا۔8:۔ موبائل اور موسمی اسکولوں کا ذمہ داری کے ساتھ کام نہ کرنا۔وغیرہ شامل ہیں جن کی وجہ سے اِس طبقے کی خواتین تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔ گجر بکروال خواتین کی زندگی جدو جہد اورجفاکشی سے بھری ہوئی زندگی ہے۔ خانہ بدوشی اور ہجرت کی لمبی مسافت ان کی تعلیمی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ گرمائی اور سرمائی ہجرت میں ان خواتین کو کئی ہزار میل کی مسافت طے کرنی پڑتی ہے۔ چھ مہینے سرمائی جگہوں پہ اور چھ مہینے گرمائی علاقوں میں بسیرا کرنے کی وجہ سے خواتین مستقل اسکول نہیں جا سکتیں ،کئی بیچاریاں تو سرے سے ہی اسکول میں داخلے سے محروم رہتی ہیں۔کئی خواتین تو میلوں کے پُر خطر مسافت طے کرتے راستے میں کبھی بیمار ہو کر اس دنیا سے ہی رخصت ہو جاتی ہیں ۔اور کئی بیچاریاں ہجرت کی مسافت میں پہاڑیوں سے گر کر ،ندی نالوں اور دریاؤں میں بہہ کر یا تو اپاہج ہو جاتی ہیں یا پھر جان سے ہی چلی جاتی ہیں۔کئی خواتین مال مویشیوں کے چارے کے لئے ڈھوکوں میں اونچے اور خاردار پہاڑوں اور جنگلوں میں سے گھاس کاٹتے ہوئے گر کر اللہ کے حوالے ہو جاتی ہیں۔ اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ کئی بیچاریاں تو جنگلی جانوراں کا لقمہ بن جاتی ہیں۔اور جو بیچاری اس ہجرت کی مسافت میں زندہ سالم بچ بھی جاتی ہیں تب بھی تعلیم ان کا مقدر نہیں ہوتی۔ مالی تنگدستی کی وجہ سے بھی گجر بکروال خواتین تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔زیادہ تر گجر بکروال طبقے کا دارومدار کھیتی باڑی ، مال مویشی اور بھیڑ بکریوں پہ ہی ہوتا ہے۔ گھر کو چلانے کے لئے ان کے پاس کوئی دوسرا ذریعہ معاش نہیں جس کی وجہ سے آمدنی کم اور خرچہ زیادہ ہوتا ہے اور خواتین اور بچیوں کو بھی زیادہ تر مردوں کا ہاتھ بٹانا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اسکول نہیں جا سکتی ہیںاور پھر تعلیمی اخراجات بھی پورے نہ ہونے کی وجہ سے بھی خواتین کو تعلیم سے نا بلد رہنا پڑتا ہے۔بیٹیوں کی چھوٹی عمر میں شادی کا رواج بھی خانہ بدوش گجر بکروال طبقے میں عام ہے، جس کی وجہ سے خواتین تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں اور چھوٹی عمر میں ہی اگلے گھر گی ذمہ داری سنبھالنی پڑتی ہے۔ کئی بار وٹے سٹے جیسے رواج کی وجہ سے بھی کئی خواتین کو اپنی تعلیم آدھے راستے میں ہی چھوڑنی پڑتی ہے ۔ایک بیٹی کے سُکھ کی ضمانت میں دوسری کو قربان ہونا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے تعلیم جیسے سُکھ سے محرومی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔بیٹیوں کو پرایا دھن تو ہر طبقے میں سمجھا جاتا ہے، لیکن گجر بکروال طبقے میں ان بیٹیوں کو اس لئے بھی تعلیم سے محروم رکھا جاتاہے ،کہ انھوں نے پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے ہمیں کیا دینا ہے ،جانا تو انہوں نے دوسرے گھر ہی ہے۔ اور دوسرے کے گھرکو سنبھالنا ہے۔اس لئے گجر بکروال طبقے میں بیٹیوں سے زیادہ بیٹوں کی پڑھائی پر زور دیا جاتا ہے کیونکہ بیٹوں نے انکا گھر سنبھالنا ہے۔ لیکن اِس بات کو سمجھتے ہوئے بھی معاشرہ پتہ نہیں کیوں آنکھیں موند لیتا ہے کہ’بیٹے وراثت بانٹتے ہیں تو بیٹیاں درد بانٹتی ہیں‘۔پہلے والدین کے گھر خدمت کرتے ہوئے اپنے حقوق کی قربانی دیتی ہیں، پھر سسرال کو اپنا گھر سمجھ کر درد بانٹتی ہیں، اور یہ سب کچھ کرنے میں وہ اَپنا مقام بھول جاتی ہے کہ سماج میں اُس کے بھی کچھ حقوق ہیں وہ بھی سماج میں اُتنا ہی اہم مقام رکھتی ہے جتنا بیٹے رکھتے ہےں، لیکن جب اُس کو تعلیمی شعور سے ہی محرومی رکھا جاتا ہے ، تو وہ کیسے اَپنے حقوق کو پہچانے گی۔پردے کے رواج کی آڑ بھی خواتین کی تعلیم میں رکاوٹ کی ایک بڑی وجہ ہے۔ گجر بکروال طبقے میں سادگی اور کم علمی کی وجہ سے زیادہ تر والدین اپنی بچیوں کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتے ان کے نزدیک خواتین کا تعلیم کے لئے باہر نکلنا یا دور دراز جانا گناہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ خواتین کو دنیاوی علم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن دوسری طرف مال مویشیوں کو چرانے اور خانہ بدوشی ہجرت کے دوران ان بیچاریوں کو کئی میلوں کا سفر گھر سے باہر نکل کر کرنا پڑتا ہے۔ گجر بکروال طبقے کے لوک بیٹیوں اور بیٹوں میں تفرقہ کرتے ہیں ،اور بیٹوں کو بیٹیوں پہ فوقیت دیتے ہیں جس کی وجہ سے بیٹیوں کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ انھیں پڑھایا لکھایا جائے ،بلکہ ان کو یہ کہہ کر گھربٹھا لیا جاتا ہے کہ تمہیں گھرکا کام کاج سنبھالنا ہے۔ بیٹی کبھی بھی والدین پر بوجھ نہیں ہوتی ،بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت ہوتی ہے، وہ اَپنی قسمت کے ساتھ ساتھ مائکے اور سسرال کی قسمت سنوارنے کی ضامن بھی ہوتی ہے۔گجر بکروال طبقے میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر والدین خود ان پڑھ ہیں، اور ان کو تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی بچیوں کو بھی تعلیم کی طرف نہیں لاتے بس موسمی ہجرت میں مصروف ایک جگہ سے دوسری جگہ چلتے رہتے ہیں۔ ان کی نظر میں مال مویشی ، بھیڑ بکریاں ہی سب کچھ ہیں۔ ان کو ہی سب سے بڑی دولت سمجھتے ہیں اور تعلیم جیسی دولت سے خود بھی محروم ہیں اور اپنی بچیوں کو بھی محروم رکھا ہوا ہے۔ سرکار نے خانہ بدوش گجر بکروالوں کے لئے موبائل اسکولوں اور موسمی اسکولوں کی سہولت بھی مہیا کرنے کی کوشش کی ہے ،لیکن یا تو یہ اسکول صرف کاغذوں میں ہی ہیں یا پھر اگر اِکا دُکا ہیں بھی تو وہ اپنا کام ذمہ داری کے ساتھ نہیں کر رہے ہیں،صرف خانہ پُری کی جا رہی ہے۔اساتذہ کی بھی شکایت ہے کہ ان سے مفت میں کام لیا جا رہا ہے اوران کو تنخواہ نہیں دی جا رہی جس کی وجہ سے ان اسکولوں کا کام کاج نہ کے برابر ہے۔ ان حالات میں خواتین کی ہجرت کے دوران تعلیم کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ سرکار نے کئی اِیسی اسکیمیں شروع کی ہیں جن سے فائدہ اٹھاکے بچیوں کے مستقبل کو سنوارا جاسکتا ہے۔بچیوں کے لئے ڈھائی لاکھ تک لائف انشورنس اسکیم متعارف کرائی گئی ہے جس کے تحت خدا نخواستہ بیمار ہونے پر سرکار ڈھائی لاکھ تک سرکاری خرچے پر بچیوں کا علاج کراوتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھی اچھی خاصی رقم دِی جاتی ہے تاکہ بچیوں کو بوجھ سمجھ کے کوئی ان کو تعلیم سے محروم نہ رکھے۔ سرکاری ہوسٹلوں میں مفت کھانے پینے رہنے سہنے کے علاوہ تعلیم کا بھی اچھا بندو بست ہے۔ تاکہ گجربکروال طبقے کی بچیاں بھی دوسری قوموں کی بچیوں کے ساتھ فخر سے سِر اٹھا کر اَپنا حق لے سکیں۔اِس وقت اگر ضرورت ہے تو وہ صرف گجربکروال طبقے کے اُن اَنپڑھ لوگوں میں بیداری کی تاکہ وہ اَپنی بچیوں کو اُن کے حقوق سے محروم نہ رکھیں۔آؤ سبھی مل کر یہ عہد کریں کہ جس کا جِہاں بس چلے اپنے سماج میں اِیسی بچیوں کی نشاندہی کریں اور ان کے والدین کو اپنی بچیوں کی تعلیم کے لئے واقفیت کرائیں، ان کو اُن کے فرائض کی پہچان کروائیں تا کہ ان کے ہاتھوں ان کی لاڈلیوں کی حق تلفی نہ ہو۔والدین اپنی بچیوں کو اگر سماج میں بااختیار بنانا چاہتے ہیں،ان کو فخر کے ساتھ سر اُٹھا کر جیتے دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے سے پیچھے کیوں؟رب کرے میرے دِل سے نکلے ان حروف کی یہ چار سطریں سماج کے ان باشعور لوگوں کے دِلوں میں اترتے ہوئے ایسا اثر چھوڑیں کہ ہم سب مل کر اپنی اِس قوم کے نام کے ساتھ سماجی، اقتصادی،اور تعلیمی طور پر جُڑے لفظ ” پسماندہ“ کو مٹانے میں کامیاب ہو جائیں۔
(نوٹ: کالم نویسہ ہفتہ وار گوجری اخبار رودادِقوم کی معاون مدیرہ ہیں۔)

Comments are closed.