وقت کے بڑے صاحب علم و صاحب دل تھے حضرت مولانا قاضي محمد قاسم صاحب مظفر پوری- رحمة الله عليہ* – از قلم :محمد عطاء الله داؤد ریسرچ اسکالر جامعہ ام القری مکہ مکرمہ

وقت کے بڑے صاحب علم و صاحب دل تھے حضرت مولانا قاضي محمد قاسم صاحب مظفر پوری- رحمة الله عليہ –
از قلم :محمد عطاء الله داؤد
ریسرچ اسکالر جامعہ ام القری مکہ مکرمہ
دو روز قبل بروز منگل 13 محرم الحرام1442ھ مطابق یکم سبتمبر 2020م حضرت الأستاذ قاضی القضاة مولانا محمد قاسم صاحب مظفر فوري موت نے بہت صدمہ پہنچایا،
واقعتہ علماء کرام کا اس قدر تیزی سے رخصت ھونا، بھت ڈرسا لگ رھا ھے، اب کس کو اپنا بڑا مانیں کس کو سرپرست سمجھیں. ایک ایک کرکے سب رخصت ھورھے ہیں، اب کون مسائل حل کرینگے ، کون الجھے مسائل کو سلجھائینگے، اب کون قلب وروح کو گرما ئیں گے، اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے مسائل کو چٹکیوں میں حل کرینگے.؟
ایسے موقعے سے سکندر علی وجد کا یہ شعر یاد آتا ھے جو انہوں نے علامہ اقبال کی وفات پر مرثیہ پڑھا تھا،
تونے اے اقبال پائی عاشقِ شیدا کی موت
جاں نثارو غم گسارِ ملتِ بیضا کی موت
موت ہے تری زبان و قوم کی آقا کی موت
سوز و ساز وداغ و عشق بے پروا کی موت
کون اب عقل و جنوں کی گتھیاں سلجھائے گا
کون سوزِ دل سے قلب وروح گرمائے گا
(سكندر على وجد)
نماز فجر کیلئے جیسے بیدار ھوا، واٹس آپ میسیج کا ایک سلسلہ بندھا ھوا تھا، ہر جگہ سے استرجاع کی خبر آرہی تھی، دل میں خیال آیاکوئی بڑا حادثہ ھوا ھے، جیسے میسیج دیکھا زبان پہ انا للہ و انا الیہ وراجعون جاری ھوا،
نماز فجر ادا کرنے کے بعد مسجد ہی میں مولانا کے محبوب بھتیجے ہردل عزیز شخصیت ڈاکٹر نعمت اللہ ناظم سے ملاقات ھوی، تعزیتی کلمات ادا کرکے، انکے ساتھ بھت دیر تک انکے روم پہ آکر تسلی دیتا رہا ، معلوم ھوا سعودی وقت کے حساب سے رات ڈیڑھ بجے ہی یہ سانحہ پیش آیا ھے احباب گرامی قدر جو عزیزیہ میں تھے تشریف لائے تھے. بھت افسوس ھوا ہم اتنے قریب ایک ہی بلڈنگ ایک ہی فلور پہ تھے کیوں نہیں جگائے.؟
صبح سے شام رات دیر تک دوست واحباب ملنے جلنے والے آتے رھے.
*احقر کے گھر پہ تعزیتی مجلس* :
مغرب بعد تمام دوست واحباب جمع ھوئے سبھوں نے مولانا سے اپنے اپنے تعلقات و ملاقات کا اظہار کیا ، یہاں حرم مکی میں اکثر ساتھیوں کی کئی ملاقاتیں تھی ان سے برادرم مفتی شمیم اختر قاسمی (ریسرچ اسکالر جامعہ ام القری مکہ مکرمہ ) اور دکتور نعمت اللہ ناظم صاحبان دونوں سالوں سے مع فیملی ایک ہی ساتھ رھتے تھے، اسلئے جب بھی مولانا کا سفر حج وعمرہ پہ یا کسی پروگرام میں آنا ھوا، مفتی شمیم صاحب نے بڑھ چڑھ کر انکی خدمت کی، آج اس موقعے سے انکو بھت غمگین و افسردہ پایا، کافی قلق کا اظہار کر رھے تھے، اور حضرت قاضی صاحب علیہ الرحمہ سے اپنے بے پناہ تعلق وشفقت کا اظھار اور پرانی یادوں کو تازہ کررھے تھے . ساتھ ہی برادر م مفتی کلیم اختر قاسمی(ماجستير) نے بھی ایسے موقعہ سے اپنے دکھ کا اظہار کیا اور بتایا کہ مولانا کا فیض صرف بہار ہی نہیں نیپال کے ان دہی علاقوں تک تھا جہاں لوگ عام طور سے سفر نہیں کرتے ھیں، آپ کہ رھے تھے مولانا ” بے مثال شخص تھے” ، ساتھ ہی ابھرتے نوجوان عالم دیں بے مثال انشاء پرداز ہر دل عزیز دوست مولانا نظام الدین ابن الحاج مولانا محی الدین صاحب نے مولانا کی بے شمار خوبیوں کا تذکرہ کیا، اور مولانا سے بار ہا ملاقات کا تذکرہ کیا،انکا کہنا تھا کہ "اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا نہاہت ہی سادگی پسند، اور بہت ہی ذی علم شخصیت کے مالک تھے، اس موقعے سے انکے رفیق و دوست ہم پیالہ وہم نوالہ سب کے چہیتے خوب رو وخوب سیرت محترم اخلاق احسن رحمانی نے بھی مولانا کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا اور مولانا کی وفات سے جو علمی خلا پیدا ھو گیا ھے اسکے تئیں متفکر نظر آئے، ساتھ ساتھ مولانا فیرز احمد قاسمی (ریسرچ اسکا لر جامعہ ام القری) مولانا عرفان الحق قاسمی(ماجستیر) مولانا نظام الدین مقبول (بكالوريوس) اور سخن آور فاضل نوجوان مولانا انور عبد الغفار (بكالوريوس ) تمام نے اپنے اپنے انداز میں مولانا سے تعلقات کا اظہار کیا اور تعزیتی کلمات کہے. اسی کے ساتھ برادرم حضرت علی ندوی، طاہر بھائی نیپالی، اور عبد القدير سلفی (طالب جامعہ) ، مولانا زبیر عالم سلفی(طالب جامعہ) سب کے سب شامل مجلس تعزیت رہے.
اور ڈاکٹر نعمت اللہ ناظم صاحب نے اپنے تعلیمی وتربیتی سفر میں مولانا کا ایک مشفق باپ سے بڑھکر کردار، اور قاضی صاحب کی تربیت کا انداز، بچوں کے حق میں متفکر رھنا، ان سب چیزوں کے بارے میں بھت دیر تک لب کشائی کرتے رہے. اور رات ڈیرھ بجے تک مجلس یوں ہی جمی رہی. اور برادرم شمیم اختر اور انور ونظام وغیرہ نے سب کی کیلئے عشائیہ کا اھتمام کیا، اور اسی پر دعائیہ کلمات کے ساتھ مجلس کا اختتام ھوا اور یہ طے ھوا، عنقریب ہم لوگ حضرت قاضی صاحب رحمہ اللہ تعالی کی نسبت سے باقاعدہ تمام ساتھی ایک نششت رکھیں گے جس میں حضرت والا کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر مفصل روشنی ڈالی جائیگی ان شاءاللہ.
*قاضی صاحب علیہ الرحمہ کے اوصاف وکمالات* :
اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں کے متعلق قرآن پاک سورہ الفرقان میں جو اوصاف بیان کیا ھے آپ اسکے عملی نمونہ تھے
(وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الأرض هَوْناً وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الجاهلون قَالُواْ سَلاَماً* وَالَّذِينَ يِبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِيَاماً* وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَاماً* إِنَّهَا ساءت مُسْتَقَرّاً وَمُقَاماً* وَالَّذِينَ إذا أَنفَقُواْ لَمْ يُسْرِفُواْ وَلَمْ يَقْتُرُواْ وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَاماً*( الفرقان :٦٣ تا٦٧ )
مولانا بلا شک و شبہ ان نیک بندوں میں شامل اور ان اوصاف کے حامل انسان تھے، طبعیت میں اتنی سادگی اور مزاج میں اسقدر تواضع تھا کہ کبھی کسی پروگرام، مجلس، جلسہ وجلوس میں اپنے آپ کو اپنے قول وعمل سے لوگوں کو اس کا احساس نہیں ھونے دیا کہ” ہم چنیں دیگرے نیست ” جہاں جگہ ملی بیٹھ گئے، بلا تکلف ہر ایک سے اپنائیت ساتھ ملتے جلتے، ہر چھوٹے بڑے کی قدر دل سے کرتے جہاں تربیت محسوس کرتے بلاں چوں چراں ٹوکتے،
اتنے بڑے صاحب فضل کمال ھوتے ھوے آپکی مکنسر المزاجی اور سادگی کا عالم دیکھر فقیہ وقت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی فرماتے تھے : "اگر کسی کو زمین پر چلتا پھرتا جنتی دیکھنا ھو تو مولانا قاسم مظفر پوری صاحب کو دیکھے "اللہ اکبر.
رتبہ جسے دنیاں میں خدا دیتا ھے
وہ دل میں فروتنی کو جَا دیتا ھے
نہ دنیائے دَنی کی ہوس نہ جاہ و منصب کا لالچ ، نہ مال ودولت کی فکر، بلکہ پوری زندگی علم کی شاہ راہ پر کھپادی اور اپنے علم وفضل، فقہ وفتاوی، قضاء وافتاء، تعلیم وتربیت، درس وتدریس، زہد وتقوی، قناعت وصبر، حلم وبردباری، اور زاہدانہ و خرقہ پوشی کی زندگی سے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد 63 سال تک بہار ، جھارکھنڈ اڑیسہ و نیپال کو فیض پہنچاتے رہے، متھلا آنچل کا کوئی خطہ کوئی علاقہ کوئ قصبہ کوئی گاؤں ایسا نہ ھوگا جہاں پر آپکا فیض بالواسطہ یا بلا واسطہ نہ پہنچا ھو.
آپ سماجی مسائل کے حل کیلئے گاؤں گاؤں جاتے جہاں بھی کوئی اختلافی مسائل درپیش ھوتا آپ بطور حکم جاتے اور سبھوں کے مسائل کو بحسن وخوبی حل فرماتے.
*عمر گزری ھے اسی دشت کی سیاحی میں*
*پانچویں پشت ھے شبیر کی مداحی میں*
(میر انیس)
*مولانا کا علمی مقام ومرتبہ* :
آپ کا خانوادہ شروع سے ایک علمی خانواده رہا ھے پڑھنے لکھنے کا شوق آپکو بچپن سے تھا، ابتدا ء ہی سے بڑے ذہین وفطین تھے. آپ کی پیدائش 1937م کی ھے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں مدرسہ امدادیہ مادھوپورمیں حاصل کی اور سلسلہ بڑھتا گیا، تا آنکہ 1957م میں دارالعلوم دیوبند سے بڑے بڑے اساطین علم وفن سے آپ نے کسب فیض کیا، آپ نے دورہ حدیث میں بخار ی شریف حریت آزادی کے علمبردار زمانہ سناش محدث کبیر شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی – رحمه الله – ، اور مولانا فخرالدین صاحب – رحمہ اللہ – سے پڑھی- اور حدیث کی دیگر کتابیں ان ہیستیون سے پڑھی. جیسے :
علامہ ابراہیم بلیاوی،-رحمہ اللہ-
مولانا فخر الحسن مرادآبادي،- رحمہ الله –
مولانا اعزار علی – رحمه الله –
مولانا محمد حسين صاحب بہاری – رحمہ اللہ –
مولانا معراج الحق دیوبندی صاحب – رحمہ اللہ –
اور حکیم الاسلام قاری طیب صاحب – رحمہ اللہ –
آپ دورہ حدیث میں امتیازی نمبرات سے کامیاب ھوئے.
مولانا سے میری پہلی ملاقات اور استفادہ کا موقع :
مولانا کے متعلق بھت پہلے سے سن رکھا تھا، لیکن پہلی ملاقات 2011م میں مولانا خالد سيف اللہ رحمانی صاحب کے یہاں المعھد العالی الإسلامي – حیدر آباد میں ھوی.
وہاں سنہ2010م2011م میں شعبہ افتاء و تدریب میں زیر تعلیم تھا، میرا وہاں دوسرا سال تھا، اسی موقعے سے فقہ اکیڈمی انڈیا کا دو روزہ سیمنار معھد کے اشتراک سے بعنوان "خاندانی نظام اور عورتوں کے حقوق” منعقد ھوا، اسی موقعے سے حضرت قاضی صاحب علیہ الرحمہ کی سیمینار میں شرکت ھوی تھی، پروگرام کے بعد مولانا خالد سيف اللہ رحمانی صاحب نے حضرت سے فقہ سال دوم کے طلبہ کےلئے "تدریب قضاء ” کے عنوان سے کچھ وقت قربان کرنے کی درخواست کی ، حضرت نے اسے بخوشی قبول فرماکر ھم طلباء سال دوم کو استفادہ کا زریں موقع عنایت کیا. مسلسل ایک ھفتہ "دورہ تدریب قضاء” کا پروگرام تھا، محاضر صرف قاضی صاحب تھے دوران محاضرہ قاضی صاحب بڑے صاحب عزم واستقلال نظر آئے، صبح ناشتہ کے بعد 8 بجے بیٹھتے اور 12 بجے تک انکا محاضرہ چلتا رہتا. نہ کبھی اکتاہٹ نہ تھکاوٹ نہ الجھن، بڑی دقت سے فسخ وتفریق کے مسائل کھول کھول کر سمجھائے اور فرماتے کہ آجکل دار القضاء میں 95 فیصد مسائل کا تعلق ان ہی سب سے ھوتا ھے، آپ چونکہ اس وقت امارت شرعیہ کے سینیر قاضی تھے، قضاء کے مسائل میں آپ حد درجہ مہارت رکھتے تھے، بلکہ ان کے مقابل میں پورے ہندوستان میں اس طرح کے مجھے ھوے قاضی کوئی نظر نہیں آرھا تھا .
آپ دوران درس ایک ممتاز فقیہ بھترین قاضی، اچھے مدرس ایک کامیاب مربی، قرآنی آیات کا استحضار، احادیث سے لگاؤ بات بات میں احادیث سے استنباط کا ذوق، ادب و بلاغت کے رمز سناش، صرف ونحو کی تعلیل و تصریف کے ماہر،گویا دوران محاضرہ ہر پہلو پر حسب ضرورت روشنی ڈالتے اور سیر حاصل بحث کرتے نظر آئے . مولانا کے متعلق پہلے سے تفصیل معلوم نہیں تھا، لیکن جب مولانا رحمانی صاحب نے تعارف کرایا، اس سے کہیں زیادہ انکو پایا.
انہیں کے ایک ہفتہ تربیتی کورس کا نتیجہ تھا کہ اس موضوع پر تخصص فی الفقہ سال دوم میں کچھ لکھنے کا موقع ملا اور "المسائل التي يجب فيها قضاء القاضي” میرا عنوان طے ھوا، اور تقریبا فسخ وتفریق کے سولہ مسائل پر مکمل بحث کرنے اورعلمي مواد جمع کرنے کا الحمد لله موقع ملا،
*انکا حافظہ بلا کا تھا* :
قاضی صاحب علیہ الرحمہ بہار ونیپال کے ہر علاقے سے واقف تھے، جب میرا معھد میں ان سے تعارف ھوا اور جیسے میں نے اپنی بستی تماسوئيا کا نام لیا فورا بتانے لگے سنہ 2001 م میں میں چھراپٹی کے ایک پروگرام میں مدعو تھا اس موقعے سے واپسی میں تماسوئیا بھی جانا ھوا تھا، حافظ شاکر صاحب کے گھر پہ ناشتہ کا انتظام تھا، میں نے کہا جی حضرت اس پروگرام میں مَیں بھی شریک تھا لیکن اس وقت بچپنا تھا چلپاپور میں عربی اول میں پڑھتا تھا، آپکو دیکھا تو ضرور لیکن اتنا شعور نہیں تھا کہ کون مولانا تشریف لائے ہیں.
2012 کے حج کے موقعے سے ام القری میں داخلہ ھوا اسکے اسکے ایک سال بعد 2013 م جب آپ ایام حج میں ضیوف رابطة العالم الإسلامي مکہ مكرمہ میں شامل تھے، اس مبارک موقعے آپ اپنے بھتیجے کے گھر رات میں” الخنساء” تشریف لائے .وہیں دوبارا حضرت سے ملاقات ھوی، پھر حیدر آباد کی یاد تازہ ھوگئی، اس موقعے سے بھی کافی کچھ سیکھنے کو ملا.
صبح ھوکر 5 ذی الحجہ 1434ھ کو رابطہ کے پروگرام میں آپکو شریک ھونا تھا، نعمت اللہ بھائی ایام حج میں کا فی مشغول تھے، انہوں نے مجھے حضرت کے سا تھ جانے کو کہا، میں قاضی صاحب کو لیکر "الخنساء” سے رابطہ کے مقر "منی” پہنچ کر پھر وہاں سے بس کے ذریعے مکہ کے چودھواں سہ روزہ عالمی سیمنار کے پہلے افتتاحی پروگرام میں شریک ھوا، انٹرنیشنل سیمینار کا انعقاد ایام حج میں کرنا، مملکت سعودی عرب کی ایک بھترین پالیسی ھے اسی بہانے ملک وبیرون ملک کے سیکڑوں کی تعداد میں علماء و مفکرین حج کی سعادت سے بہرہ ور ھوتے ہیں ساتھ ساتھ پروگرام بھی کامیاب ھوتا ھے ، عالمی طور پر بڑے بڑے مفکرین ، دانشوروں کو دیکھ کر دل خوشی سے جھوم گیا.
میں نے جگہ جگہ تصویر لینے کی کوشش کی، سامنے اسٹیج پہ امیر منطقہ مکہ مکرمہ صاحب المعالي خالد الفيصل، حفظه الله تشريف فرما تھے، دوسری طرف مفتی مملکة العربیة السعودية صاحب المعالي /عبد العزيز عبدالله آل شيخ جلوہ افروز تھے، اور دیگر مشایخ و دکاترہ کے کہکشاؤں میں امام حرم مکی فضیلة الشیخ عبد الرحمن السدیس صاحب بھی موجود تھے،
پروگرام کا عنوان "حقوق الإنسان بين الشريعة الإسلامية والقوانين الوضعية”تھا. استقبالیہ پروگرا میں امیر منطقہ نے سب کا شکریہ ادا کیا اور ایک بینر تلے جمع ھونے کی پرزور دعوت دی، پھر اسکے بعد مفتی مملکہ کا خطاب ھوا، ایک دوگھنٹے میں پروگرام اختتام کو پہنچا.
اسکے چند سال بعد پھر ایک بار قاضی عمرہ پہ تشریف لائے اسوقت نعمت اللہ بھائی کا قیام عزیزیہ میں تھا، ہند ونیپال کے تمام احباب جامعہ جمع ھوے اور سبھی لوگ حضرت قاضی صاحب سے مستفید ھوے. اس موقعے سے میں نے اپنے حیدرآباد مین جمع شدہ مقالہ المسائل التي يجب فيها قضاء القاضي "پہ کچھ مشورہ اور نظر ثانی کرنے کو طلب کیا حضرت اسے بخوشی قبول کرلیے اور دوتین گھنٹہ بیٹھکر ایک ایک مسئلہ کو دیکھتے رھے، کافی جگہ انہوں نے حذف واضافہ کیا. یہ انکی تربیتی پہلو کا واقعہ میرے ساتھ تھا،
یہ چند یادگار ملاقاتیں تھی ان سے.آج ہم سے جدا ھوگئے لیکن جب تک ہماری سانسوں میں سانس ھیں انکی شفقتیں قیمتی باتیں یاد رھے گی.
*مولانا کا علمی مقام و منصب* :
آپ فراغت کے بعد مدرسہ امدایہ سپول میں ایک سال پھر اسکے بعد مسلسل چالیس سال تک مدرسہ رحمانی سپول میں درس وتدریس کے خدامات انجام دیتے رھے، تقریبا 30 سال آپ شیخ الحدیث رہے. یہ انکی زندگی کا وہ روشن باب ھے جو کبھی نہیں بھلایا جائیگا، اس عرصہ مں اپنے ھزاروں کی تعداد مین شاگرد تیار کئے اور اپنی قیمتی نصیحتوں تقریروں سے لاکھوں بندگان خدا کو چیک پہنچایا عرصہ دراز تک دار القضاء کے سینیر قاضی رھے، جو صرف مرافعہ کی فائلیں دیکھتے تھے، اسکے علاوہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن، فقہ اکیڈمی انڈیا کے نائب صدر، اور بے شمار مدارس و مکاتب کے سرپرست تھے.
اسی دوران آپ نے چند علمی نقوش چھوڑے ہیں جو یقینا ہم سب کیلئے ایک عظیم علمی سرمایہ ھے.
آپ کی تصانیف میں سب سے نمایاں کتاب محمد عبد اللہ مسلم البھلوي کی تصنیف "أدلة الحنفية من الأحاديث النبوية على المسائل الفقهية” کی تکمیل دو جلدوں میں ھے، اسکے علاوہ مكاتب رحماني ( مولانا منت الله رحماني صاحب – کے خطوط کامجموعہ،
رہمنائے قاضی،
مساجد آداب واحکام،
رشتہ داروں کا احترام کیجیے اور یتیموں کا اکرام کیجیے، بینک کےمتعلق معلومات اور انٹرسٹ کامصرف،
اور دیگر قیمتی علمی وفقہی مقالات ھیں.
آپکی وفات پر ملک کے بڑے بڑے علماء کرام نے اظھار افسوس کیا اور تعزیتی خطوط جاری کئے،
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا محمد الرابع حسني ناظم دار العلوم ندوة العلماء، ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمي مهتمم دار العلوم ندوة العلماء مولانا خالد صديقي جنرل سكريٹری جمعیت علمائے نیپال، اور مولانا انیس الرحمن صاحب، سابق ناظم امارت شرعیہ پٹنہ بہار ، اور مفتی سہراب صاحب ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ، اور امیر شریعت حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے اظھار افسوس کیا اور آپکی وفات کو ملت کیلئے بڑا علمی نقصان بتایا.
قاضی صاحب کے انتقال پر خلق خدا کا ایک ہجوم ٹوٹ پڑا، اور سب کی آنکھیں آبدیدہ ھوگئیں. بروز منگل مولانا اشتیاق صاحب رکن شوری دارالعلوم دیوبند نے آپکی وصیت کے مطابق نماز جنازہ پڑھایا، سیکڑوں کی تعداد میں لاک ڈان کے باوجود ایک جم غفیر نے شرکت کی.
اللہ آپکو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، آپکی تربیت میں ایسے ایسے لعل وگہر نکلے ھیں، جو آپکے لئے باعث صد افتخار تھا اور رھیگا، جیسے آپ کے دونوں بھتیجے مولانا رحمت اللہ صاحب ندوی مدنی مقیم قطر، ڈاکٹر نعمت اللہ ناظم صاحب، اور آپکے لخت جگر مولانا عبد اللہ مبارک ندوی صاحب یہ آپکے آگن کے وہ سایہ دار شجر ہیں ہمہ لمحہ آپکے لئے دست دعا دراز کرنے والے ھیں.” أو ولد صالح يدعو له” کے زمرے میں شامل ھیں.
اسکے علاوہ سیکڑوں کی تعداد میں شاگرد، آپ سے فیض یافتہ علماء کرام ھیں. جو آپ لیے صدقہ جاریہ ثابت ھوگا – ان شاءاللہ.
دعاگو ھوں اللہ تعالی حضرت والا کی بال بال مغفرت فرمائے. اور انکے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
محمد عطا ء الله داؤد
ریسرچ اسکالر
جامعة أم القرى مكة المكرمة
٣/ ستمبر٢٠٢٠َ م
+٩٦٦٥٥١٢٠٧٤٦٣
Comments are closed.