صلیب، ستارہ اور شطرنج: لہو سے لکھی گئی داستان

(اسرائیل کے لیے مغربی حمایت کی وہ اٹل حقیقت، جو تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی ستم ظریفی ہے )
ازقلم: ڈاکٹر محمّد عظیم الدین
(صدر شعبہ اردو، آرٹس کامرس کالج ییودہ ، امراوتی، مہاراشٹر )
تاریخ کی سب سے بڑی ستم ظریفی کیا ہے؟ شاید یہ کہ آپ صدیوں تک جسے اپنا قاتل سمجھتے رہے، ایک دن اسی کے محافظ بن جائیں۔ ذرا آنکھیں بند کر کے تصور کیجیے… دو ہزار سال کا طویل، تاریک عرصہ… آپ ایک قوم کو "قاتلِ مسیح” کا طعنہ دیتے ہیں، انہیں "ملعون” کہہ کر تاریخ کے صفحات سے کھرچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ انہیں گلیوں میں گھسیٹتے ہیں، ان کی بستیاں جلاتے ہیں، انہیں معاشرے سے الگ تھلگ، دیواروں کے پیچھے رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ آپ کی نفرت اتنی گہری ہے کہ آپ کی زبان میں ان کے لیے سب سے حقیر الفاظ ہیں، آپ کے دلوں میں ان کے لیے صرف نفرت ہے… اور پھر، تاریخ ایک ایسی کروٹ لیتی ہے کہ سب کچھ الٹ جاتا ہے۔ ایک صبح آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہی قوم آپ کی آنکھ کا تارا ہے، آپ کے وجود کا اٹوٹ حصّہ ہے۔ آپ اعلان کرتے ہیں کہ اس کی سلامتی آپ کے ایمان کا حصہ ہے، اور اس کی حفاظت کے لیے آپ نہ صرف اپنی دولت کے خزانے لٹا دیں گے، بلکہ اگر ضرورت پڑی تو پوری دنیا کو آگ لگانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
یہ کوئی دیوانے کا خواب نہیں، نہ ہی کسی داستان گو کی خیال آرائی۔ یہ جدید مغرب اور اسرائیل کے رشتے کی ناقابلِ یقین، لہو رنگ، اور روح کو لرزا دینے والی حقیقت ہے۔ یہ ایک ایسا معمہ ہے، ایک ایسا مقدس اور ناپاک گٹھ جوڑ، جسے سمجھنے کے لیے آپ کو سیاست کی موٹی موٹی کتابیں نہیں، بلکہ انسانی ضمیر کے تاریک ترین تہہ خانوں میں اترنا ہوگا، جہاں جرم، خوف، لالچ اور جنون ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔ یہ وہ کہانی ہے جسے سمجھنے کے لیے دماغ سے زیادہ دل پر چوٹ لگتی ہے۔
اس کہانی کا پہلا باب لندن کی سرد، سرمئی دھند میں لکھا گیا۔ تاریخ تھی 2 نومبر 1917۔ ایک طرف یورپ پہلی عالمی جنگ کے بارود اور خون میں لتھڑا ہوا تھا، اور دوسری طرف لندن کے ایک پرسکون دفتر میں، برطانوی وزیرِ خارجہ آرتھر بالفور ایک خط پر اپنے قلم کی نوک جما رہے تھے۔ یہ کوئی عام سرکاری خط نہیں تھا، اس کا مخاطب کوئی بادشاہ ،سفیر یا منصب دار نہیں تھا۔ یہ ایک خفیہ وعدہ تھا، جو یورپ کے سب سے پراسرار اور طاقتور بینکار خاندان، روتھسچائلڈ کے چشم و چراغ "لارڈ والٹر "کے نام بھیجا جا رہا تھا۔ یہ چند سطریں، جو بظاہر بڑی معصومیت سے لکھی گئی تھیں، درحقیقت بیسویں صدی کے سب سے بڑے تاریخی جرم کا اعلان تھیں۔ ایک سامراجی طاقت، جس کا فلسطین پر رائی برابر بھی حق نہیں تھا، ایک عالمی تحریک کو، جس کا اس سرزمین سے صدیوں سے کوئی حقیقی تعلق نہیں تھا، ایک ایسی قوم کی زمین کا تحفہ دے رہی تھی جس کی جڑیں اسی مٹی میں ہزاروں سال سے پیوست تھیں۔ اس دن، قلم سے ٹپکنے والی سیاہی دراصل لاکھوں فلسطینیوں کے آنسوؤں اور ان کے بچوں کے مستقبل کے خون کا پہلا قطرہ تھی۔ وہ خط، جسے آج دنیا "بالفور اعلامیہ” کے نام سے جانتی ہے، محض کاغذ کا ایک ٹکڑا نہیں تھا؛ وہ نفرت اور جنگ کے اس زہریلے درخت کا پہلا بیج تھا، جس کی جڑیں مشرقِ وسطیٰ کے دل میں اترنی تھیں، اور جس کی شاخوں نے ایک دن پوری دنیا کو اپنی سیاہ چھاؤں میں لے لینا تھا۔ اس ایک دستخط نے تاریخ کا دھارا ہمیشہ کے لیے موڑ دیا تھا۔
پھر تاریخ نے اپنے چہرے سے وہ نقاب نوچا، اور دنیا کی آنکھوں نے وہ منظر دیکھا کہ انسانیت نے خود اپنی روح پر ماتم کیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد، جب آشوٹز، داخاؤ اور برجن-بیلسن کے عقوبت خانوں کے آہنی دروازے کھلے، تو اندر سے صرف قیدی نہیں، بلکہ یورپ کا مردہ ضمیر برآمد ہوا۔ چیتھڑوں میں لپٹی زندہ لاشیں، بجھی ہوئی آنکھیں، اور لاکھوں بے گناہ یہودیوں کی منظم نسل کشی… اس ہولناکی نے مغرب کو جڑ سے ہلا دیا، اسے شرم اور جرم کے ایک ایسے اتھاہ سمندر میں غرق کر دیا جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔
ہولوکاسٹ کا یہ گہرا، نہ مٹنے والا داغ، مغرب کی روح پر ایک ایسا زخم بن گیا جس کا مرہم ڈھونڈنا لازمی تھا۔ اور مرہم تجویز ہوا: اسرائیل کا قیام۔ یہ اسی تاریخی جرم کا کفارہ تھا، ایک عظیم مقصد کے نام پر اٹھایا گیاعجیب و غریب قدم، جس کی بنیاد ایک نئے، اتنے ہی عظیم ظلم پر رکھی گئی۔ انصاف کے نام پر انصاف کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ یورپ نے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا…مگر اپنے خون سے نہیں، کسی اور کے خون سے۔ قربانی کا بکرا، فلسطین کے زیتون کے درختوں کے نیچے صدیوں سے بستے پرامن پسند قوم کو بنایا گیا۔ 1948ء کی وہ بہار، جسے دنیا اسرائیل کی پیدائش کے طور پر جانتی ہے، فلسطینیوں کے لیے "النکبہ”(عظیم تباہی) کا پیام لے کر آئی۔ جب تل ابیب کی سڑکوں پر رقص ہو رہا تھا، تب "دیر یاسین "جیسے ان گنت گاؤں میں موت رقص کر رہی تھی۔ جیسا کہ اسرائیلی مورخ ایلان پاپے اپنی کتاب "The Ethnic Cleansing of Palestine” میں ثابت کرتے ہیں، یہ تشدد حادثاتی نہیں بلکہ ایک منظم منصوبے کا حصہ تھا، جس کا مقصد خوف کی ایسی فضا قائم کرنا تھا کہ نسلیں اپنے گھروں کو پلٹنے کا خواب بھی نہ دیکھ سکیں۔ وہ اپنے زیتون کے باغ، مسجدیں،اور خانقاہیں سب کچھ پیچھے چھوڑ کر نکلے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں کچھ تھا تو بس اپنے گھروں کی چابیاں، سینوں سے لگی ہوئیں، اس معصوم امید پر کہ یہ طوفان تھمے گا تو لوٹ آئیں گے۔ وہ چابیاں آج بھی ان کے پوتوں کے پاس ہیں… زنگ آلود، خمیدہ، اور منتظر… مگر ان کے گھروں پر لگے تالے بدل چکے ہیں۔ گھر چھن چکے ہیں۔ اور تاریخ… آگے بڑھ چکی تھی۔
مگر یہ مت سمجھئے گا کہ اس رشتے کی بنیاد صرف آنسوؤں اور ضمیر کے بوجھ پر رکھی گئی تھی۔ تاریخ جب ایک آنکھ سے روتی ہے تو دوسری آنکھ سے اپنے مفاد کا حساب بھی لگاتی ہے۔ سرد جنگ کی عالمی شطرنج بچھ چکی تھی، اور اس بساط پر مشرقِ وسطیٰ صرف ایک خطہ نہیں، بلکہ بادشاہ کو شہ دینے والا سب سے قیمتی خانہ تھا۔ جب سوویت یونین کے سرخ ریچھ نے عرب قوم پرستی کی گرم ریت پر اپنے قدم جمانے شروع کیے، تو امریکی عقاب کو اس خطے کے تپتے دل میں اپنے فولادی پنجے گاڑنے کے لیے ایک ٹھکانے کی ضرورت پڑی۔
اسرائیل وہ ٹھکانہ بنا۔ وہ صرف ایک ملک نہیں تھا، بلکہ صحرا کے بیچ مغرب کا ایک ناقابلِ تسخیر قلعہ تھا؛ ایک ایسا "طیارہ بردار بحری جہاز جو کبھی ڈوب نہیں سکتا”، جس کے عرشے سے پورے خطے کی نگرانی کی جا سکتی تھی۔ وہ امریکہ کی آنکھیں، اس کے کان، اور اس کی تلوار بن گیا۔ اس وفاداری کی قیمت بھی وصول کی۔ ہر سال اسے نہ صرف اربوں ڈالر کے جدید ترین ہتھیاروں کا تحفہ ملا، بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک ایسا "ویٹو” کا لائسنس بھی، جو اس کے ہر جنگی جرم پر تقدس کی چادر ڈال دیتا تھا۔ اور اس ناپاک اتحاد کی پائیداری کو یقینی بنانے کے لیے واشنگٹن کی راہداریوں میں AIPAC جیسی طاقتور لابیاں ہر دم چوکس رہتی ہیں، جن کے اثر کا جال اتنا مضبوط ہے کہ کوئی بھی امریکی صدر، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اس مقدس رشتے پر آنچ لانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، جیسا کہ جان میئرشائمر اور اسٹیفن والٹ اپنی تہلکہ خیز کتاب "The Israel Lobby” میں تفصیل سے بے نقاب کرتے ہیں۔
لیکن ٹھہریئے، اس کہانی کا سب سے پراسرار اور لرزہ خیز باب ابھی باقی ہے۔ یہ وہ باب ہے جو سیاست کی دنیا سے نہیں، بلکہ آسمانی پیشین گوئیوں اور مذہبی جنون سے تعلق رکھتا ہے۔ امریکہ کے گرجوں میں، لاکھوں ایوینجلیکل عیسائی ہر اتوار کو ایک ایسی دعا مانگتے ہیں جو آپ کو دہلا دے گی۔ یہ "کرسچن صیہونیت” کا وہ خطرناک عقیدہ ہے، جو دنیا کے خاتمے کا ایک خونی اسکرپٹ لکھ چکا ہے۔ اس اسکرپٹ کے مطابق، قیامت سے پہلے آخری عظیم جنگ یعنی "آرمیگڈن” ہونا لازم ہے، اور اس کا میدان یروشلم بنے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہودی پوری دنیا سے آکر اسرائیل میں بسیں، مسجدِ اقصیٰ کی جگہ تیسرا ہیکل تعمیر کیا جائے، اور پھر دجال (Antichrist) آئے جو دنیا کو تباہی کے دہانے پر لے جائے۔ اسی تباہی کے عروج پر حضرت عیسیٰؑ واپس آئیں گے۔ ذرا اس جنون کی گہرائی کو محسوس کیجیے! یہ لوگ مشرقِ وسطیٰ میں لگی آگ پر پٹرول اس لیے چھڑک رہے ہیں تاکہ بائبل کی پیشین گوئیاں پوری ہوں، بھلے ہی اس کی قیمت لاکھوں انسانوں کا خون ہو۔ یہ حمایت نہیں، یہ تو انسانیت کی قربان گاہ سجانے کی تیاری ہے۔ تاہم، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ نظریہ تمام مسیحیت کا عکاس نہیں؛ کیتھولک چرچ، مشرقی آرتھوڈوکس کلیسا اور خود یورپ کے کئی ممالک اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔
اور اس سب کے پیچھے، اگر آپ سرگوشیوں پر کان دھرنے کی ہمت رکھتے ہیں، تو ایک اور کہانی پوشیدہ ہے: سازش کی، منفعت کی، اور عالمی کنٹرول کی۔ یہ داستان کہتی ہے کہ اصل کھلاڑی نہ تو وائٹ ہاؤس میں بیٹھے ہیں اور نہ ہی کلیسا میں، بلکہ ان بینکوں کے خفیہ کمروں میں ہیں جو دنیا کی دولت کنٹرول کرتے ہیں۔ وہی جنہوں نے بالفور سے خط لکھوایا، جنہوں نے صیہونی تحریک کو سینچا، اور جنہوں نے اسرائیل کو ایک ایسی "کارپوریشن” کے طور پر بنایا جس کا مقصد دنیا کو ہمیشہ جنگ اور بحران میں مبتلا رکھنا ہے، تاکہ کوئی ان کی عالمی بادشاہت کو چیلنج نہ کر سکے۔ یہ تنقید ریاست کی صیہونی پالیسیوں پر ہے، نہ کہ مذہبِ یہودیت یا یہودی عوام پر، جن میں سے ہزاروں، جیسے "نیٹوری کارٹا” جیسے گروہ، خود صیہونیت کے سب سے بڑے ناقدین میں شامل ہیں۔
تو آخر یہ رشتہ ہے کیا؟ یہ محبت ہے، یا مجبوری؟ یہ اتحاد ہے، یا ایک عالمی سازش؟ سچ تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہے۔ یہ ایک ایسا بھنور ہے جس میں تاریخ کا جرم، سیاست کی بے رحم شطرنج، اور مذہب کا اندھا جنون گھل مل کر ایک ناقابلِ فہم طوفان بن چکے ہیں۔ یہ بیک وقت ایک کفارہ بھی ہے اور ایک نیا گناہ بھی۔ ایک ایسا مرہم جسے بنانے کے لیے کسی اور کا زخم کریدا گیا۔ یہ ایک سرد جنگ کی تزویراتی ضرورت بھی تھا اور بائبل کی پیشین گوئیوں پر مبنی ایک روحانی جنون بھی۔ یہ ایک ایسا گہرا، پیچیدہ اور خطرناک عشق ہے جو معشوق کی حفاظت کے لیے پوری دنیا کو آگ لگانے پر تلا ہے۔ ایک ایسی آگ جو نصف صدی سے بھڑک رہی ہے اور بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی۔
یہ داستان ماضی کا قصہ نہیں، یہ آج کی حقیقت ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جو ہر روز، ہر لمحہ لکھی جا رہی ہے…غزہ کی بمباری میں اٹھتے دھوئیں سے، مغربی کنارے پر گرائے گئے زیتون کے ہر درخت کے ساتھ، اور مہاجر کیمپوں میں پلنے والے ہر بچے کی آنکھوں میں تیرتے سوال سے۔ یہ کہانی لہو سے، آنسوؤں سے، اور ان معصوموں کی چیخوں سے لکھی جا رہی ہے جن کی آواز طاقت کے شور میں دب جاتی ہے۔ یہ صرف ایک سیاسی تجزیہ نہیں، یہ انسانی روح کے زوال کا ایک مرثیہ ہے۔
Comments are closed.