محرم الحرام کا پیغام: سنت کی روشنی، بدعت سے اجتناب

 

تحریر: مولانا ارشد کبیر خاقان مظاہری

ناظم: مدرسہ نورالمعارف،مولانا علی میاں نگر،دیا گنج،ضلع ارریہ

جنرل سکریٹری:ابو الحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ

 

اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ یہ دین ہمیں ہر معاملے میں اعتدال، سچائی اور شعور کی راہ دکھاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات جذباتی غلو کو پسند کرتی ہیں نہ رسمی جمود کو۔ دین اسلام میں کسی نئی بات کو شامل کرنا سخت منع ہے، چاہے وہ کسی نیک جذبے کے تحت ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن و سنت میں ہمیں واضح طور پر تاکید کی گئی ہے کہ دین مکمل ہو چکا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی زیادتی یا کمی، گمراہی کا سبب ہے۔

 

ماہِ محرم الحرام کی آمد پر مسلمانوں کے مختلف طبقات میں جذبات اور عقیدت کے اظہار کے مختلف انداز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ مہینہ اسلامی تاریخ میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اسی ماہ کی دسویں تاریخ کو واقع کربلا پیش آیا، جو صبر، قربانی، استقامت اور حق پرستی کی عظیم مثال ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ اس عظیم پیغام کو چھوڑ کر آج کے دور میں محرم کو صرف غم، ماتم اور خود ساختہ رسومات کا مہینہ بنا دیا گیا ہے، اور نوجوان طبقہ ان بدعات میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔”(سورۃ التوبہ، آیت 36)یہ حرمت والے مہینے: ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب ہیں۔ ان مہینوں میں عبادت کا اہتمام اور گناہوں سے اجتناب زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے محرم کو ”اللہ کا مہینہ” فرمایا، جو اس کی فضیلت کی دلیل ہے۔

 

رسول اللہ ﷺ نے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کی ترغیب دی اور فرمایا:”مجھے امید ہے کہ عاشورہ کا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔”(صحیح مسلم)نبی ﷺ نے یہ روزہ اس دن کی نسبت سے رکھا، جب حضرت موسیٰؑ کو فرعون سے نجات ملی۔ آپ ﷺ نے اس میں یہود سے مشابہت سے بچنے کے لیے ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھنے کی تلقین فرمائی۔

 

اسلام ایک مکمل دین ہے، جس میں ہر بات واضح اور مکمل طور پر بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی، اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند فرمایا۔”(سورۃ المائدہ، آیت 3)تاہم بدقسمتی سے آج کے دور میں محرم الحرام کے مہینے میں کئی ایسی رسومات اور بدعات دین کا حصہ سمجھ لی گئی ہیں، جن کی نہ قرآن میں بنیاد ہے، نہ نبی ﷺ اور صحابہؓ کی سیرت میں۔

 

چند معروف خرافات یہ ہیں:

 

(1)خود کو پیٹنا، زنجیر زنی کرنا، یا خون نکالنا، حالانکہ دین اسلام میں غم کے موقع پر اپنے جسم کو نقصان پہنچانا سخت منع ہے۔(2) مخصوص دنوں میں حلیم یا کھچڑا پکاکر اسے“نیاز”کے طور پر تقسیم کرنا، اور اس عمل کو دینی فریضہ سمجھنا۔(3)گلیوں میں تعزیے نکالنا، ان پر چادریں چڑھانا یا ان کے گرد طواف کرنا۔(4)نوحے اور مرثیے جن میں مبالغہ آرائی، شرکیہ کلمات یا غیر اسلامی تصورات شامل ہوں۔(5)جلوس نکال کر راستے بند کرنا، شور و غل، اور عام شہریوں کی زندگی کو مشکل بنانا۔

 

یہ سب ایسے افعال ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں، اور ان کی بنیاد محض رسم و رواج اور جذباتی وابستگی پر رکھی گئی ہے۔ دین میں کسی نئی بات کو شامل کرنا رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق مردود ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات شامل کی جو اس میں سے نہیں ہے، وہ مردود ہے۔”(صحیح بخاری و مسلم)ایک اور روایت میں فرمایا:”ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔”(سنن نسائی)

 

حضرت حسینؓ اور ان کے اہل بیتؓ کی قربانی تاریخ اسلام کا وہ درخشاں باب ہے جو ہمیں سکھاتا ہے کہ باطل کے سامنے سر نہ جھکایا جائے، حق پر قائم رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔ مگر اسلام ہمیں صرف تاریخ پر رونے کا نہیں، بلکہ اس سے سبق لینے کا درس دیتا ہے۔

 

کربلا کا پیغام ہے:

 

(1) باطل کے خلاف ڈٹ جانا۔(2) عدل و حق پر ثابت قدم رہنا۔(3) صبر، قربانی اور اللہ پر توکل اختیار کرنا۔اسلام کا یہ پیغام کسی جذباتی مظاہرے یا خود کو زخمی کرنے سے نہیں، بلکہ سنت پر عمل پیرا ہونے سے پھیلتا ہے۔

نوجوان وہ طبقہ ہے جو امت کا مستقبل ہے، اور بدعات کا سب سے زیادہ شکار بھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں ان کی صحیح رہنمائی ازحد ضروری ہے۔ انہیں جذباتیت سے نکال کر علم، تحقیق اور اعتدال کی راہ پر ڈالنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ قرآن و سنت کا علم حاصل کریں۔ سچے اور اہل علم علماء کی صحبت اختیار کریں۔ دینی رسومات کی حقیقت کو سمجھیں اور ہر عمل کی بنیاد کتاب و سنت پر رکھیں۔ معاشرتی اصلاح کے لیے کردار ادا کریں اور اپنے عمل سے سنت کا پیغام عام کریں۔

 

محرم الحرام ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ ہر دور میں رہی ہے، اور سچا مسلمان وہی ہے جو ہر حال میں حق کا ساتھ دے، صبر اختیار کرے اور سنتِ نبوی پر عمل کرے۔ دین کی اصل روح رسومات میں نہیں، بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں ہے۔

Comments are closed.