دنیا میں اپنے معلمین کی قدر شناس قومیں ہی کامرانی و کامیابیوں سے ہمکنار ہوتی ہیں
یوم اساتذہ ‘‘۵؍ستمبر کے ضمن میں ایک خصوصی پیشکش

عباس دھالیوال
مالیر کوٹلہ.پنجاب
رابطہ 9855259650
ﷲ رب العزت نے الگ الگ زمانوں جتنے بھی پیغمبر دنیا کے لوگوں کی اصلاح کرنے کے لیے بھیجے دراصل وہ سب معلم تھے۔ ایک معلم کا سب سے بڑا منصب درس و تدریس ہے. آخری پیغمبر حضورؐ نے فرمایا کہ ’’مجھے معلم اخلاق بناکر بھیجا گیا ہے۔‘‘
تعلیم محض نصابی کتب پڑھانے اور طالب علموں کے ذہنوں میں معلومات ذخیرہ کرنے ہی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تخلیقی عمل ہے جس میں استاد کی شخصیت، وقار، علمیت اور اس کا اپنے پیشے سے آزادانہ و منصفانہ شغف مرکزی اہمیت رکھتا ہے.
ہندوستان میں یوم اساتذہ آنجہانی صدرِ جمہوریہ ڈاکٹر رادھا کرشنن کے یومِ پیدائش کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے. اس سے قبل ڈاکٹر رادھا کرشنن کے کچھ شاگردوں اور دوستوں نے ان سے درخواست کی کہ انہیں ان یوم پیدائش منانے کی اجازت دی جائے۔ اس ضمن میں انہوں نے اس کے جوابا لکھا کہ ” میرے یوم پیدائش منانے کے بجائے اگر 5 ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جائے تو مجھے زیادہ فخر ہوگا “ اس کے بعد سے رادھاکرشنن کا یوم پیدائش بھارت میں یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے بر عکس دنیا کے دیگر ممالک میں عالمی ٹیچرز ڈے ہر پانچ اکتوبر کو منایا جاتا ہے
امریکہ کی طرف سے جب جاپان کے ہیرو شیما اور ناگہ ساکی پر بم گرائے گئے جس کے نتیجے میں جاپان پوری طرح تباہ و برباد ہو گیا تھا اس تباہی کے بعد جن لوگوں نے جاپان کو از سر نو کھڑے کرتے ہوئے دنیا میں ٹیکنالوجی کے شعبے سب سے آگے کھڑا کیا اس کے پیچھے جاپان کے فعال معلمین کی کاوشوں کو خاص دخل حاصل تھا .
جب معلمین کے مقام مرتبہ کے ضمن میں ہم لوگ بات کرتے ہیں تو اس سلسلے میں ہم سب سے پہلے
اسلام کے آخری پیغمبر حضور صلی اللہ علیہِ وسلم کیا رائے رکھتے ہیں اس کو جاننا چاہیں گے. حضور اکرم صلہ علیہ والہ سلام نے ایک جگہ استاد کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ ” تمہارے تین باپ ہیں‘‘ ایک وہ جو تمہیں اس دنیا میں لا یا، دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی، اور تیسرا وہ جس نے تمہیں علم دیا۔ اور فرمایا کہ ان سب میں سے افضل تمہارے لیے وہ ہے جس نے تم کو علم دیا۔ میرے خیال میں استاد کا مقام ومرتبہ اور استاد کی عظمت اس سے زیادہ کوئی بیان نہیں کرسکتا۔
جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ’’ جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میرا استاد ہواــ‘‘
استاد کسی قوم یا معاشرے کا اصل میں معمار ہوتا ہے. قوم کو تہذیب وتمدن،اخلاقیات اور معاشرتی اتار چڑھاؤ سے واقف کرواتا ایک فعال استاد کی ذمہ داری ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ استاد کا مقام کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
دنیا کے عظیم بادشاہوں میں سے ایک سکندرِ اعظم یونانی جس نے آدھی سے زیادہ دنیا اپنی تلوار کی دھار کے زور پر فتح کی تھی ’’ ارسطو ‘‘جیسے معلم کا شاگرد تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مجلسِ یونان ہو، یا ایوانِ قیصرو کسریٰ، یا خلافتِ بنو عباس ہو یا محمود غزنوی کا دربار یا ہندوستان کے شہنشاہ’’ جلال الدین محمد اکبر” ہوں سبھی استاد کی قدر منزلت سے بخوبی آگاہ و واقف تھے.
شاعر مشرق علامہ اقبال کے حوالے سے ایک واقع مشہور ہے کہ جب انگریز حکومت نے اقبال ؒ کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو علامہ اقبال کو وقت کے گورنر نے اپنےدفتر بلایا تو اقبال نے خطاب لینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ “ میں صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میرحسنؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا جائے‘‘۔
یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا "ڈاکٹر صاحب! آپ کو تو’’سر‘‘کا خطاب اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں۔ آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے مقالات تخلیق کیے ہیں۔ بڑے بڑے نظریات تخلیق کیے ہیں۔ لیکن آپ کے استاد مولوی میر حسنؒ صاحب نے کیا تخلیق کیا ہے…؟‘‘
یہ سن کر اقبالؒ نے یہ کہتے ہوئے لاجواب کر دیا کہ "مولوی میر حسن نے اقبال تخلیق کیا ہے‘‘
ایک استاد کو ہمیشہ باوقار و ہمہ جہت شخصیت کا مالک ہونا چاہیے یعنی وہ بیک وقت اپنے طالب علموں کی نفسیاتی،اخلاقی و روحانی تربیت کرنے والا ہو. معلم کی ہمہ جہت شخصیت کو موثر و فعال بنانے کے لیے بعض اہم اقدار و صلاحیتوں کا ہونا اشد ضروری ہے.
ان سب سے ہم ایک معلم کے عملی کردار کو زیر بحث لانا چاہیں گے. یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ طلباء اپنے اپنے آپ میں ایک بڑے جج ہوتے ہیں وہ اپنے اساتذہ کا بہت باریک بینی سے نہ صرف مشاہدہ کر تے ہیں بلکہ وہ ضمن میں ایک استاد کی چال ڈھال،عادات و اطواراور اخلاق و کردار کا لاشعوری طور پر اثر مقبول کرنے لگتے ہیں۔ اس کو واضح لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ طالب علم ،معلم کا عکس ہوتے ہیں۔اس لیے درس و تدریس سے متعلقہ ہر معلم کو چاہیے کہ وہ اپنے کردار کو ویسا بنائیں کہ جیسا بننے کی تلقین وہ اپنے شاگردوں کو کرتے ہیں۔
معلم کی ایک اور بڑی صفت جس کا ہونا اس میں لازمی تصور کیا جاتا ہے وہ خصوصیت ہے ایک استاد کا اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہونا.
ایک معلم اپنے پیشے سے جس قدر زیادہ دلچسپی سے جڑا ہوگا وہ اتنا ہی کامیاب و کامران ہوگا.
اسی طرح ایک معلم کا خود جدید ترین رکھنے کے لیے مطالعہ کے شوق کو پالنا بے حد ضروری ہے. کیونکہ وسعتِ مطالعہ کی وجہ سے اس کو اپنے مضمون پر عبور حاصل ہوتا رہے گا ۔جب تک ایک معلم کو اپنے مضمون پر ملکہ حاصل نہیں ہوگا ، تب تک ، وہ شاگردوں کو اپنی بات پر قائل کرنے سے قاصر رہے گا.
ایک کامیاب استاد کے لیےضروری ہےکہ وہ ذمے دارہو ،اس طرح پوری باقاعدگی اور یکسوئی کے ساتھ کلاس لینے والے معلم فقط لائق، فائق بچوں کو پڑھائی میں نہ صرف آگے لے جاتے ہیں بلکہ وہ کمزور طالب علموں پر ل توجہ مرکوز فرماتے ہوئے انھیں بھی ان کے نصب العین تک پہنچا نے معاون و مددگار ثابت ہو تے ہیں. دے۔
تعلیم ایک ایسا شعبہ جات ہے جس میں صبرو تحمل کی بہت اہمیت ہے. کیونکہ تعلیم کا میدان ایک یہ ایسا فیلڈ ہے جس میں ضروری نہیں کہ ہر طالب علم ہی ذہین و پڑھنے کا شوقین ہو ۔
عمدہ معلم وہ ہوتا ہے جو پڑھائی میں کمزور یا پیچھے رہ جانے والے طلباء کو بھی بآسانی اپنی بات سمجھاتے ہوئے انہیں پڑھائی کی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہو ۔
معلم ہمیشہ اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پہ فائز رہتا ہے۔جب تک اپنی تمام منفی عادتوں پر قابو نہیں پا لیتا، سکون سے نہیں بیٹھتا۔یہ ہی باتیں، ایک معلم کو باقی افراد سے منفرد بناتی ہیں۔ ایک معلم کے قول اور فعل میں کبھی بھی تضاد نہیں ہونا چاہیے ، اگر کسی معلم کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ایسے اساتذہ کو طلباء عزت دیتے ہیں ۔
طلباء کو ایسا معلم کبھی نہیں بھاتا جو اس کی ہر چھوٹی سے چھوٹی غلطی پہ تنقید کرتا رہے یقیناً ہر شاگرد میں ایک خود اعتمادی کا جذبہ ہوتا ہے. اس لیے جو معلم بھی طلباء کی انا کو ٹھیس پہچاتا وہ انھیں کبھی نہیں بھاتا.
لیکن آج جس ماحول و سماج میں ہم لوگ جی رہے ہیں اس میں جو اساتذہ کی ستم ظریفی والی حالت دکھائی دیتی ہے یقیناً اسے دیکھ کر بے حد تشویش ہوتی ہے. معلمین و شاگرد کے موجودہ عہد کے رشتوں کی ایک شاعر نے کچھ اس طرح سے منظر کشی کی ہے کہ :
اب تو شاگردوں کا استاد ادب کرتے ہیں
سنتے ہیں ہم کبھی شاگرد ادب کرتے تھے
Comments are closed.