یوم اساتذہ : معذرت کے ساتھ

از قلم : مرزا عادل بیگ پوسد(9823870717)
ہمارے ملک کے پہلے نائب صدر جمہوریہ جناب ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کا جنم 5 ستمبر 1988 کو تیرو تنی گاؤں تامل ناڈو میں ہوا تھا ، ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن 1962 سے 1967 تک ملک کے صدر جمہوریہ رہے ، انھوں نے بطور مدرس پریسینڈنسی کالج سے شروعات کی ۔ آگے جاکر وہ میسور یونیورسیٹی میں پروفیسر بن گئے ۔ اس کے بعد بنارس ہندو ویش و ودھالیہ (BHU) 1939 سے 1948 تک کل گرو بھی رہے ۔ وہ ہندوستانی تہذیب ، کلچرل اور ہندو ریتی رواج کے کٹر ویچارک تھے۔ بچپن ہی سے سوامی ویویکانند اور ویر ساورکر کے نظریات کے حامی تھے۔ ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کی ابتدائی تعلیم کرسچن مشنری لوتھن اسکول میں ہوئی اور آگے کی پڑھائی مدراس کرسچن کالج میں پوری کی ۔ انھیں مختلف اسکولر شپ فراہم کی گئی تھی ۔ جس کی بنا پر اپنی پڑھائی پوری کی ۔ ملک کی آزادی کے بعد یونسکو میں ملک کی طرف سے حصہ لیا ۔
1949سے 1952 تک رادھا کرشنن سویت یونین سنگھ کے بھارت کی طرف سے ایمبسٹرس رہے ۔ 1954 میں انھیں بھارت رتن سے نوازا گیا ۔ 1967 میں ریٹائر ہونے کے بعد وہ مدراس جاکر بس گئے ، جہاں 17 اپریل 1975 کو لمبی بیماری کے بعد ان موت ہو گئی ۔ فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے انھیں وافر مواقع فراہم کیے گئے اور مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ابولکلام آزاداور جناب ذاکر حسین صاحب کے مد مقابل لا کھڑا کیا گیا۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن سروپلی نے اپنی زندگی کی ابتداء ایک مدرس سے کی تھی ۔ پھر وہ اس عظیم جمہوری ملک کے نائب صدر جمہوریہ اور صدر جمہوریہ رہیں ۔ تعلیمی میدان میں نمایا ں رول ادا کرنے کی وجہ سے ان کے طلبا و طالبات ان کی پیدائش کو یوم اساتذہ کے طور پر یاد کرتے ہے ۔ ہر سال اس دن اسکولوں میں مختلف پروگرام منعقد کیے جاتے ہے ۔ اس سال کرونا وبائی مرض کی وجہ سے اسے منانے سے قاصر ہے مگر ریاستی اور ملکی سطح اس دوران مختلف حکومتوں کی طرف سے مثالی معلم ، مثالی اساتذہ کاایوارڈ دیا جاتا ہے ۔ یقیناً اس ملک کی ترقی کا دارومدار یہاں کے محنت کش اساتذہ اکرام کے کندھوں پر ہیں ۔ ملک کا مسقبل ان کی مٹھی میں بندھ ہے ایک استاد ، معلم ، مدرس، اپنے درس سے اپنے طلبہ و طالبات کو ایک انمول علم سے نوازتا ہے جوان کی زندگی سوارنے کا کام کرتا ہے اساتذہ اکرام ، معلمین ، مدرسین ، اپنے درس و تدریس کے عمل سے طلبا و طالبات ، شاگردوں کو ایک نئی بلندی پر لے جانے کا کام کرتے ہے ۔
آج اس عظیم ملت کی باگ ڈور دو طرح کے افراد پر منحصر ہے ایک اس عظیم ملت کے علمائے اکرام ، ایمائے دین ، عالم اور فاضل اصحاب ، حضرات اور دوسرے اس عظیم ملت کے اساتذہ اکرام جو دنیوی علم و فنون سے آراستہ کراتے ہے ۔ یقیناً ہمارے علمائے دین ، ایمائے دین ، عالم اور فاضل اصحاب حضرات اپنی ذمہ داری الحمداللہ پوری طرح سے انجام دے رہے ہے ، مگر ہمارے اساتذہ اکرام ، معلیمین و مدرسین کی کوتاہی کا اثرہے جو آج یہ ملت علمی تنزلی کا شکار ہوچکی ہے ۔ یقیناً سب کے سب اساتذہ اکرام اس ملت کی تنزولی کی وجہ نہیں ہے ، مگر اساتذہ اکرام ، معلیمین اور مدرسین کا بڑا گروہ اس سے منسوب ہیں ۔ آج درس و تدریس کا عمل ایک پیشہ کی راہ اختیار کر چکا ہے آج اس پیشہ کو اختیار کرنے کے لیے لاکھوں روپئے کاڈونیشن فراہم کرنا پڑتا ہے ۔ کئی موقع پرست حضرات کو صرف اس پیشے سے ملنے والی تنخواہ کے لالچ نے استاد ، معلم بننے پر مجبور کر دیا ہے ۔ وہی اقلیتی اداروں میں تعلیمی قابیلیت سے زیادہ دیے جانے والے ڈونیشن کو اہمیت دی جاتی ہے ۔
ایک دور تھا جب رشوت دینے اور لینے کو معیوب سمجھا جاتا تھا ، لیکن آج اس عظیم معاشر ے میں رشوت سے زیادہ سے زیادہ دے کر نوکری حاصل کرنے کو باعث فکر سمجھا جاتا ہے ۔ آج تعلیمی لیاقت کو روپئوں کے ترازوں میں تولا جاتا ہے ۔ آج ہزاروں اساتذہ اکرام ، ٹیچر حضرات کو لاکھوں روپئوں میں نوکری خرید تے دیکھا جاتا ہے ۔ نوکری خریدنا بھی ایک تجارت بن گیا ہے ۔ جس طرح گھر خریدا جاتا ہے جس طرح کھیت خریدا جاتا ہے ۔ اسی طرح صحیح دام دے کر ٹیچر کی نوکری خریدی جاتی ہے ۔ جب لاکھوں روپئوں کی رشوت دے کر نوکری خریدی جاتی ہے اس ہی طرح نوکری کے پیسے وصولے جاتے ہے ۔ جہیز کی شکل میں وغیرہ ۔ یہ عظیم ملت دو طرح کے ٹیچر حضرات کے کندھوں پر سوار ہے ۔ ایک گرانٹیڈ ٹیچر حضرات اور دوسرے نان گرانٹیڈٹیچر حضرات ، پیشہ وہی بس تنخواہ میں فرق گرانٹیڈ ٹیچر حضرات معقول تنخواہ پانے والے اور نان گرانٹیڈ ٹیچر حضرات جنھوں کا تنخواہ کا سواد نہ چکا ہو ں ۔ دونوں فریق کے درمیان زمین اور آسمان کا فرق ہے ۔ دونوں کے مسائل الگ ، ضروریا ت الگ ، مجبوری اور پریشانیاں الگ ، طور طریقے الگ، تعلیمی مسائل اور وسائل الگی وہی زندگی کے مسائل الگ۔
ہمیں تو اس نان گرانٹیڈ ٹیچر حضرات پر ترس آتا ہے جو تنخواہ کے انتظار میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہے ۔ وہ ایک ایسا مظلوم انسان ہے جس کا دکھ درد کوئی نہیں بانٹتا ہے اسکول اور ادارے اس کے ساتھ نا انصافی اور ظلم کا رویہ اپناتے ہے ، نان گرانٹیڈ ٹیچر حضرات کو گرینڈ کا انتظار کرتے کرتے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوتا ہوا دیکھا جاتا ہے ، اس کے چہرے کی جھریا ں اس کے مظلومیت کی داستان بیان کرتے ہے ، ہم نے تو اس کرونا وائرس کے دور میں مسلسل لاک ڈاؤن میں ان بے چارے ٹیچر حضرات کے گھر فاقہ کشی ، مفلسی ، تنگی و پریشانی کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ گرانٹیڈ ٹیچر حضرات انہیں کسی کا ڈر نہیں یہ ادارے اور سرکار کے باپ بن بیٹھے ہے تکبر و گھمنڈ اتنا کہ ٹیچر بن کر اس سماج پر احسان کیا ہو جیسے ۔ انہیں تو خود کا گھر ، اپنی اولاد اور تنخواہ کی فکر ہے ، ملت کس سمت جا رہی ہے اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ گرانٹیڈٹیچر حضرات اسکول ختم ہوجانے کے بعد ، پان ٹپریوں ، ہوٹلوں ، دکانوں میں بیٹھ کر اپنا قیمتی وقت فالتوں کامو ں میں ضائع کرتےنظر آتے ہے ۔ انہیں سماج میں پھیلی ہوئی برائیاں ، نوجوان نسل کی تباہ بربادی ، ملت کے خستہ حالی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ ان کی ساری صلاحتیں بحث و مباحثہ ، چغلی و غیبت ، ہنسی مذاق میں ضائع ہو رہی ہے ۔ دینی تنظیموں کے اقلیتی اداروں سے جڑے ہوئے ٹیچر حضرات کی بات نہ کی جائے تو بہت نا انصافی ہوگی ۔ ان کی تمام صلاحیتیں طاقت و قوت سماج کے کام آنا چاہیے تھا مگر یہ محدود جماعتوں تک گروہ تک بندھے ہوئے ہے ۔ اب تو زیادہ تر دینی اقلیتی اداروں کے ٹیچر حضرات صرف اور صرف تھیلی لیکر پیپر بانٹتے نظر آتے ہے یہ وقت گزاری صرف اسلئے ہے کہ تنظیمی کام ہو رہا ہے نظر آجائے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ویسے بھی گرانٹیڈ نوکری مل جانے کے بعد تنظیم کے کام کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔ان گرانٹیڈٹیچر حضرات انہیں نئے تعلیمی وسائل ، جدید ٹیکنک ، جدید درسی عمل سے کوسوں دور نظر آتے دیکھا گیا ہے ۔ ایک دور تھا جب دو اساتذہ اکرام کی ملاقات ہوتی تو علم بانٹا جاتا تھا ، غریب مستحق ، ہوشیار طلبہ کے تعلق سے اہم مشورے لیے اور دیے جاتے تھے ، مگر آج جب دو ٹیچر حضرات کی ملاقات ہوتی ہے تو وہ ساتواں پےا سکیل ، ٹی اے ،ڈی اے کے بارے میں بات کرتے ہے ۔ وہی ہیڈ ماسٹر کی برائی کرنے کو اہم فریضہ سمجھتے ہے اب اساتذہ اکرام بہت مارڈرن ہو چکے ہے ، معلم کی ملازمت کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرا اور بھی کاروبار کرتے ہے ، جیسے پلاٹ خریدنا اور بیچنا ، کھیتی کرنا ، گاڑیاں لینا اور بیچنا ۔ آج اساتذہ اکرام اتنے مصروف ہو چکے ہے کہ انہیں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات ، خیر و عافیت پوچھنے کو تک وقت نہیں رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ رشتہ داروں سے دور ہو تا چلا گیا ہے ۔
ویسے بھی ٹیچر حضرات کو اپنی تنخواہ اور دوسری اسکول اور دوسرا میڈیم بڑا اچھا ہے ، اس لیے اپنی اولاد کا ایڈمیشن دوسری اسکول اور دوسرے میڈیم میں کراتے ہے ، جیسے اردو میڈیم اور اردو اسکول کے معلم صاحب کا لڑکا آپ کو اکثر انگلش میڈیم اور انگلش اسکول میں پڑھائی کرتا ہو ا نظر آئے گا ۔ ویسے بھی آج کل ہم جیسے غریب تعلیمی مزدور کی اولاد کے لیے میسر اور مفید اردو اسکول اور اردو میڈیم ہی ہے ۔ این ۔ ای۔ پی 2020 میں مادری زبان اردو کو غائب کر دیا گیا ہے ، تو ہمیں کوئی حیرت کی بات نہیں لگتی کیونکہ ہزاروں اردو اسکولوں کے ٹیچر حضرات کی اولادیں آج انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے ۔ میں اردو زبان کو ختم کرنے کے لیے اہم ذمہ دار ان ٹیچر حضرات کو ٹھراتا ہو اور اردو اخبارات ، اردو رسالے جو اردو کو فروغ دے سکتے ہے یہ تمام ٹیچر حضرات اس سے بہت دوری بنائے ہوئے ہے ۔ آج اردو رسالے ، میگزین ، اخبارات وہ ادنیٰ طبقہ خریدتا ہے جو کسی طرح کے ادارے سے منسلک نہ ہو ۔ہم ان معلیمین ٹیچر حضرات ، اساتذہ اکرام کی بے عزتی اور ان کے شان میں گستاخی کرنا نہیں چاہتے ہے مگر اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے ، لہٰذا آج یوم اساتذہ کے موقع سے تمام ٹیچر س حضرات کو سوچنا ہوگا کہ وہ اس پیشہ سے کتنا انصاف کر رہے ہیں ، اسکا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب اس ملت کی تنزلی اور بے حسی اور جاہلیت کا ٹھیکرا اس کے سر پر پھوڑا جائے گا ۔

Comments are closed.