ممبئی کا PoKسے موازنہ کوئی مسلم ایکٹر کرتا تو ۔۔۔۔؟

عارف شجر
حیدرآباد، تلنگانہ
[email protected]
ملک کی سیاست آج کس سمت جارہی ہے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ آج جس بنیادی مسئلوں پر بات ہونی چاہئے تھی وہ نہ ہو کر محض ایک اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی خود کشی پر صبح و شام بات کی جا رہی ہے جسکا ساتھ پوری طرح گودی میڈیا دے ر ہی ہے ،بات آگے بڑھتے بڑھتے یہاں تک بڑھ گئی کہ ممبئی کو PoKیعنی پاکستان مقبوضہ کشمیر سے موازنہ کر دیا گیا۔ اس طرح کے متنازعہ بیان کسی اور نے نہیں بلکہ بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت نے دیا ہے۔ جب سے سوشانت سنگھ کی موت ہوئی ہے تب سے وہ اپنے متنازعہ بیانوں کے ذریعہ جانی اور پہچانی جا رہی ہیں، کبھی بالی ووڈ کو بھائی بھتیجا واد کہہ کر نشانہ بنایا تو کبھی ممبئی پولیس کی ایمانداری اور کارگذاریوں پر سوال اٹھا کر انکے حوصلے کو پست کرنے کی ناپاک کوشش کرنا انکا واحدمقصد بن گیا ہے۔کنگنا رناوت کے ذریعہ ممبئی شہر کو مقبوضہ کشمیر سے موازنہ کرنا انتہائی افسوس کی بات ہے۔ ان کے اس بیان سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ بی جے پی نے ان پر اپنی شفقت کی نگاہ رکھی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کنگنا رناوت نے بے خوف وخطر اس طرح کے متنازعہ بیان دے کر فرقہ پرست ذہنیت کے لوگوں سے واہ واہی لوٹ رہی ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کنگنا رناوت کے اس متنازعہ بیان پر گودی میڈیا شعبے میں پوری طرح خاموشی پھیلی ہوئی ہے اس معاملے میں نہ تو اپنے چینلوں میںگرما گرم بحث کی جا رہی ہے اور نہ ہی صبح و شام کنگنا رناوت کے خلاف قصیدے پڑھے جا رہے ہیں۔ فرض کیجئے اگر یہی متنازعہ ٹوئٹ کوئی مسلم اداکار یا اداکارہ کر دیتے تو آج یہی میڈیا اب تک ا نہیں’’ دیش دورھ‘‘ کا لیبل لگا کر انہیں ملک سے باہر یعنی پاکستان بھیجنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی۔ گودی میڈیا کے انیکر چیخ چیخ کر اور اپنی کرسی سے اچھل اچھل کر ملک کا ماحول بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے۔ جیسا کے قبل میں کیا جا چکا ہے لیکن تعجب اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ کنگنا رناوت کے اس متنازعہ ٹوئٹ پر کسی بھی گودی میڈیا کے حلق سے کوئی آ واز نہیں نکل رہی ہے بلکہ اس کے اس متنازعہ ٹوئٹ کی حمایت کی جا رہی ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں جب ملک میں ماب لینچنگ کا سلسلہ چل پڑا تھا جس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا متعدد مسلمانوں کو ماب لینچنگ کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا جس میں، اخلاق، پہلو خاں اور جنید خان کانام شامل ہے مسلمانوں کے کھانے پر بھی پابند ی لگا دی گئی تھی ملک کی زہریلی فضا کو دیکھتے ہوئے بالی ووڈ فلم کے مشہور و معروف اداکار و پروڈیوسر عامر خان نے’’ انٹولرنس‘‘ کی بات کی تھی انہوں نے صرف اتنا کہا تھا کہ یہاں مجھے ڈر لگنے لگا ہے، اتر پردیش میں انسپیکٹر سبودھ کانت کی ماب لینچنگ میں قتل کئے جانے کو لے کر فلم اداکار نصیر الدین شاہ نے اپنے بچوں کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے ماب لینچنگ پر سوال اٹھائے تھے۔اس وقت دونوں مسلم اداکار کے خلاف جس طرح سے فرقہ پرست تنظمیموں کے کارکنان اور گودی میڈیا نے مہم چلائی تھی اسے بھلایا نہیں جا سکتا ایک طرف عامر خان کو پاکستان جانے کی بات کہی جا رہی تھی وہیں نصیر الدین شاہ کو ایک بی جے پی قائد نے انہیں پاکستان کا ٹکٹ بھی بنوا کر بھیج دیا تھا۔پورے ملک میں ان مسلم اداکاروں کے خلاف مورچہ کھول دیا گیا تھا دوسری جانب گودی میڈیا بھی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ انہیں ’’ دیش دروھی‘‘ کا بھی خطاب مل گیا تھا۔ دونوں مسلم اداکاروں نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی جس سے انہیں پاکستان بھیجنے اور دیش دروھ کا تمغہ دیا جا تا انہوں نے مودی حکومت کو صرف آئینہ دکھانے کی بات کی تھی انہوں نے ملک میں ہو رہے ماب لینچگ کو روکنے کی بات کی تھی لیکن انکی یہ بات فرقہ پرست تنظیموں اور گودی میڈیا کو راس نہیں آئی اور انکی زبان بند کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی۔ مجھے کہہ لینے دیجئے کہ ملک میں نفرت پھیلانے کی بات بی جے پی اور انکی اتحادی پارٹی کے رہنما کریں تو وہ دیش دروھ کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ انکی باتوں پر تالیاں بجائی جاتی ہیں۔2014 میں جب ملک کی باگ ڈور نریندر مودی نے سنبھالی تھی اس وقت وزیر گریراج سنگھ نے متنازعہ بیان دیا تھا انہوں نے کہا تھا کہ جو لوگ پی ایم نریندر مودی کی مخالفت کرتے ہیں وہ پاکستان چلیں جائیں انکی یہاں کوئی جگہ نہیں اس طرح کے بھڑکائو بیان پر کوئی کاروائی نہیں کی جاتی یہی نہیں2015 میں بہار اسمبلی الیکشن کے دوران ایک عوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سابق بی جے پی صدر امیت شاہ نے بھڑکائو بھاشن دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کانگریس جیت گئی تو پاکستان میں پٹاخے پھوٹیںگے لیکن افسوس ان پر کوئی کاروائی نہیں کی جاتی ہے اس کے علاوہ حالیہ دہلی اسمبلی انتخاب کے دوران امیت شاہ اور وزیرانوراگ ٹھاکر نے جس طرح کے بھڑکائو بھاشن دئے اس سے سبھی واقف ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس وقت بھی ان پر نہ کوئی کاروائی ہوتی ہے او نہ ہی ان پر دیش دروھ کا مقدمہ چلتا ہے۔یہی نہیں ریاست جھارکھنڈ میں ماب لینچنگ کرنے والوں کو بی جے پی قائد جینت سنہا انکی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انکی گل پوشی کرتے ہیں اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ان پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی بلکہ ماب لینچنگ کرنے والے شہر میں آرام سے گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
بہر حال! کنگنا رناوت نے جو ممبئی کے پولیس کے تئیں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور مہاراشٹر حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے 9ستمبر کو ممبئی آنے کی بات کہی ہے وہ کہیں سے بھی قابل قبول نہیں ہے انکے اس غیر ذمہ دارانہ ٹوئٹ سے انکے خلاف مظاہرہ پھوٹ پڑا ہے۔کنگنا رناوت نے اپنے تبصروں میں پال گھر میں سادھوں کا قتل کے بشمول ممبئی کو ’’ خون کا عادی‘‘ قرار دیا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان تبصروں کے بعد انکی حمایتی بی جے پی نے بھی جو کل تک ان کے ساتھ تھی وہ بھی اپنی حمایت سے اپنے ہاتھ کھینچ لئے ہیں ۔عام طور پر پر سکون رہنے والے ریاست کے وزیر داخلہ انیل دیشمکھ نے بھی کنگنا رناوت کے بیانات کی سخت مذمت کی ہے انہوں نے واضح کیا کہ مہاراشٹر پولیس بہادر اور اپنے فرائض کی انجام دہی اور ریاست بھر میں امن و مان بر قرار رکھنے کے قابل ہے۔ دریں اسناء ممبئی پولیس کے بارے میں بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت کے بیان سے ہر طرف غم و غصہ پایا جا رہا ہے اور فی الحال یہ معاملہ مہاراشٹر کے سیاسی ماحول کو گرما رہا ہے۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ مودی حکومت نے اپنی ناکامی چھپانے کے لئے کنگنا رناوت کا سہارا لیا ہے ۔ ملک کا دھیان بنیادی مسائل سے بھٹکانے کانیا طریقہ اپنا یا گیا ہے۔چونکہ سشانت خودکشی معاملے کو لے کر جس طرح سے گودی میڈیا میںکہانی چل رہی ہے اس سے تو یہ بات صاف ظاہر ہو رہی ہے کہ مودی حکومت ملک کو چلانے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ ملک میںبنیادی مسائل کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن نہ تو مسائل کو دور کرنے کوشش کی جا رہی ہے اور نہ ہی ملک میں امن و چین برقرار رکھنے کی بات ہو رہی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ممبئی کو مقبوضہ کشمیر کسی مسلم اداکار یا اداکارہ نے قرارنہیں دیا ورنہ آج ممبئی کی صورت بدلی ہوئی تھی اور گودی میڈیا میں زہریلے ڈیبٹ چل رہے ہوتے۔
Comments are closed.