شہداکی گواہیاں

سمیع اللہ ملک
لفظ بھی بچوں کی طرح ہوتے ہیں،معصوم اوربھولے بھالے بچوں کی طرح،بہت محبت کرنے والے،لاڈوپیارکرنے والے،نازو اداوالے،تنگ کرنے والے،روٹھ جانے والے اورپھربہت مشکل سے ماننیوالییاہمیشہ کیلئیمنہ موڑلینے والے۔کبھی تومعصوم بچوں کی طرح آپ کی گودمیں بیٹھ جائیں گیپھرآپ ان کے بالوں سے کھیلیں،ان کے گال تھپتھپائیں تو وہ کلکاریاں مارتے ہیں، انہیں چومیں چاٹیں بہت خوش ہوتے ہیں وہ۔آپ ان سے کسی کام کاکہیں تووہ آمادہ ہوجاتے ہیں۔محبت فاتح عالم جوہے۔کبھی تنگ کرنے پرآجائیں تو ان کارنگ انوکھاہوجاتاہے۔آپ ان کے پیچھے دوڑدوڑکرتھک جاتے ہیں لیکن وہ ہاتھ نہیں آتے کہیں دم سادھے چھپ کربیٹھ جاتے ہیں اورآپ انہیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ آپ ہلکان ہوں توہوجائیں وہ آپ کوتنگ کرنے پراترے ہوتے ہیں اورجب آپ کی ہمت جواب دے جاتی ہے تووہ دیکھومیں آگیاکہہ کرآپ کے سامنے کھڑے مسکرانے لگتے ہیں۔
بچوں کی طرح لفظوں کے بھی بہت نازنخرے اٹھانے پڑتے ہیں اوراگراللہ نہ کرے وہ روٹھ جائیں اورآپ انہیں منانے کی کوشش بھی نہ کریں تب توقیامت آجاتی ہے۔ایک دم سناٹا،تنہائی اداسی،بے کلی آپ میں رچ بس جاتی ہے،آپ خودسے بھی روٹھ جاتے ہیں۔ہاں ایساہی ہوتاہے۔آپ کاتومیں نہیں جانتا،میرے ساتھ توایساہی ہے۔میں کئی دنوں سے اسی حالت میں ہوں۔کچھ سجھائی نہیں دیتا،بے معنی لگتی ہے زندگی،دوبھرہوگیاہے جینا۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن پھروہی جبرکہ بڑامشکل ہے جینا،جئے جاتے ہیں پھربھی۔
وطنِ عزیزکی طرف نگاہ اٹھتی ہے تودل میں ایک کسک سی پیداہوجاتی ہے کہ آخرہم کہاں جارہے ہیں؟پھرسوچتاہوں کوئی بھی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔جب طاقت ہواس کے پاس ہتھیاربندجتھہ ہو،حکم بجالانے والے خدام ہوں،راگ رنگ کی محفلیں ہوں،جام ہوں،عشوہ طرازی ہو،دل لبھانے کاسامان ہو،واہ جی واہ جی کرنے والے خوشامدی اوربغل بچے ہوں ۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔تو اس کے دیدے شرم وحیا سے عاری ہوجاتے ہیں۔شرم وحیاکااس سے کیالینادینا!چڑھتاسورج اوراس کے پوجنے والے بے شرم پجاری جن میں عزت ِنفس نام کوبھی نہیں ہوتی۔ بس چلتے پھرتے روبوٹ۔۔۔۔۔۔۔۔تب طاقت کانشہ سرچڑھ کربولتاہے۔عدلیہ جن افرادکوملکی دولت لوٹنے کا مجرم ٹھہراتی ہے،انہی کوبلاکروزارت عطاکردی جاتی ہے کہ کرلوجوکچھ کرنا ہے ہم تودھڑلے سے ایسے ہی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے۔
6ستمبر65ء کی رات بھی عجیب سی تھی۔بے کلی کم ہونے کانام نہیں لیتی تھی اوربالآخرصبح ہوئی توپتہ چلاکہ مکارہندوبنئے نے پاکستان پرحملہ کردیاہے اورپہلی مرتبہ ساری قوم کوایسایکجا ، مضبوط اورمتحددیکھاکہ پہاڑوں سے ٹکراجانے کاحوصلہ پیداہو گیااورہرشہری محاذپرجانے کیلئے بے چین نظرآرہاتھالیکن مجھے آج کے حالات کے برعکس ان کرداروں کاذکرکرنا ہے کہ جن کاذکرآنکھوں کی ٹھنڈک ،دلوں کاسکون اوراطمینان وفرحت بخش ہے۔ہاں کوئی بھی ہو،کہیں بھی ہو،انکارسنناتواس کی لغت میں ہی نہیں ہوتا۔انکارکیاہوتاہے وہ جانتاہی نہیں ہے لیکن ہوتایہی آیا ہے،ہوتایہی رہے گا۔منکرپیداہوتے رہتے ہیں۔نہیں مانتے کانعرہ مستانہ گونجتارہتاہے،تازیانے برستے رہتے ہیں ،کھال کھنچتی رہتی ہے،خون بہتارہتا ہے لیکن عجیب سی بات ہے،جتنی زیادہ شدت سے نہیں مانتے کی آوازکودبانے کی کوشش کی جاتی ہے،ہرجتن ہرحربہ اپنایاجاتاہے،وہ آوازاسی شدت سے گونجنے لگتی ہے ،چاروں طرف۔نہیں مانتے کارقص ۔۔۔۔۔۔۔۔رقص ہی نہیں رقصِ بسمل،نہیں مانتے نہیں مانتے کانغمہ اورگھومتاہوارقاص۔
کیابات ہے جی،کھولتے ہوئے تیل کے اندرڈالاجاتاہے،تپتے صحرامیں لٹاکر،سینے پرپہاڑجیسی سلیں رکھی جاتی ہیں،برفانی تودوں میں کودجاتے ہیں لیکن نعرہ مستانہ بلندہوتا رہتا ہے۔رقص تھمتاہی نہیں اوریہ توحیدکارقص،جنوں تھمے گابھی نہیں۔زمین کی گردش کوکون روک سکاہے!بجافرمایاآپ نے،بندوں کوتوغلام بنایاجاسکتاہے،ان پررزق روزی کے دروازے بندکیے جاسکتے ہیں،یہ دوسری بات ہے کہ ہم نادان صرف روپے پیسے کوہی رزق سمجھ بیٹھے ہیں۔بندوں کوپابہ زنجیرکیاجاسکتاہے،قیدخانوں میں ٹھونس سکتے ہیں آپ، عقوبت خانوں میں اذیت کاپہاڑان پرتوڑسکتے ہیں۔پنجروں میں بندکرسکتے ہیں،معذورکرسکتے ہیں ،بے دست وپاکرسکتے ہیں،ان کے سامنے ان کے پیاروں راج دلاروں کی توہین کرسکتے ہیں،انہیں گالیاں دے سکتے ہیں،جی جی سب کچھ کرسکتے ہیں۔
صدیوں سے انسان یہ دیکھتاآیاہے،انکارکرنے والوں کوبھوکے کتوں اورشیروں کے آگے ڈال دیاجاتاتھا۔اس جگہ جہاں چاروں طرف خلق خداکاہجوم ہوتااورایک جابرتخت پر براجمان ہوکریہ سب کچھ دیکھتااورقہقہے لگاتااورخلق خداکویہ پیغام دیتاکہ انکار مت کرنا،کیاتوپھریہ دیکھویہ ہوگاتمہارے ساتھ بھی۔ہرفرعونِ وقت اپنی تفریح طبع کیلئے یہ اسٹیج سجاتا ہے، سجاتارہے گا۔ایسا اسٹیج جہاں سب کرداراصل ہوتے ہیں،فلم کی طرح اداکارنہیں۔لال رنگ نہیں،اصل بہتاہواتازہ خون،زندہ سلامت انسان کا،رونا چیخنابھنبھوڑناکاٹناسب کچھ اصل۔۔۔۔۔۔۔۔بالکل اصل۔ہوتارہاہے اورہوتارہے گا،فرعونیت توایک روّیے کانام ہے،ایک بیماری کانام ہے۔ایک برادری ہے فرعونوں کی،فرعونوں کی ہی کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ہامان کی ، شدادکی،قارون کی،ابولہب کی،ابوجہل کی۔یہ برادری کانام ہے جس میں کسی بھی وقت کسی بھی مذہب وملت کے لوگ ہوسکتے ہیں۔بس بچتاوہ ہے جس پررب کی نظرِکرم ہو۔
سب کچھ قیدکیاجاسکتاہے،سب کچھ لیکن ایک عجیب سی بات ہے،اسے قیدنہیں کیاجاسکتا،بالکل بھی نہیں،مشکل کیاممکن ہی نہیں ہے۔عجلت نہ دکھائیں،خوشبوکوقیدنہیں کرسکتے آپ ! اورپھرخوشبوبھی توکوئی ایک رنگ ایک مقام نہیں رکھتی ناں،بدلتے رہتے ہیں اس کے رنگ،خوشبوکے رنگ ہزار۔۔۔۔۔۔۔۔بات کی خوشبو،جذبات کی خوشبو،ایثارووفاکی خوشبو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اب آپ چلتے رہئے اوران تمام خوشبوؤں کی رانی ہے عقائدکی خوشبو،دین کی خوشبو،نظریات کی خوشبو۔یہ خوشبوقیدنہیں کی جاسکتی۔جب بھی دبائیں، ابھرتی ہے۔وہ کیایادآگیا :’’جتنے بھی توکرلے ستم،ہنس ہنس کے سہیں گے ہم‘‘۔جتناخون بہتاہے اتنی ہی خوشبوپھیلتی ہے۔پھرایک وقت ایسابھی آتاہے جب دردخودہی مداوابن جاتاہے دردکا۔ دیکھئے پھر مجھے یادآگیا:’’رنگ باتیں کریں اورباتوں سے خوشبوآئے،دردپھولوں کی طرح مہکے اگرتوآئے‘‘۔
یہ سب کچھ میں آپ سے اس لیے کہہ رہاہوں کہ چندبرس قبل میں نے(نیویارک آن لائن)میں یہ خبرپڑھی تھی کہ امریکی آرمی کاایک اسپیشلسٹ میٹری ہولڈبروکس گوانتاناموبے کے عقویت خانے میں کلمہ شہادت پڑھ کرحلقہ بگوشِ اسلام ہوگیاتھا۔نوجوان فوجی افسرہولڈبروکس نے جس کی ڈیوٹی صرف چھ ماہ تک کیوباکے عقوبت خانے میں مسلمان قیدیوں کی نگرانی اوربعض اوقات انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجاتے وقت رہنمائی کرناتھی،مسلمان قیدیوں کے اخلاق اورعبادات سے متاثرہوکراسلام قبول کرلیا۔ہولڈبروکس نے ایک مختصرسی ای میل میں تسلیم کیاکہ مراکشی اوردیگرمسلمان قیدیوں کے حسنِ اخلاق اورتلاوتِ قرآن جووہ عقوبت خانے کی سخت ترین جالیوں کے عقب میں کرتے تھے،کی مانیٹرنگ کرتے ہوئے وہ بے حدمتاثرہواتھااور آج وہ امریکامیں دین اسلام کی حقانیت کاپیغام پہنچانے میں مصروف ہے۔کیابات باقی رہ گئی جناب۔
دیکھئے!چراغ کوتوپھونک مارکربجھایاجاسکتاہے،نورکوکون بجھاسکتاہے!جی جناب نورکوتوپھونک مارکرنہیں بجھایاجاسکتا۔ اسلام نورہے،قرآن حکیم نورہے،روشنی ہی روشنی،صراط مستقیم ،کھراسودا۔۔۔۔۔۔۔۔اسی قرآن کونافذکرنے کیلئے توپاکستان جیسی معجزاتی ریاست عطاہوئی تھی جس نے یہ سکھایاکہ اس ملک کیلئے جان قربان کردیناسب سے بڑااعزازہے اور ماں باپ،بیوی بچے اورپوری قوم کے علاوہ ملائکہ بھی استقبال کیلئے جمع ہوجاتے ہیں کہ بندے نے اپنے رب سے وفاداری کاجوحلف اٹھایا تھااس میں یہ کامیاب ہوگیا۔
اب آپ ذرادل تھام کرسنئے:66ستمبر1965کی ایک تاریک شب کومکاروبزدل دشمن کشمیرمیں جب بازی ہاررہاتھااوراس نے رات کی تاریکی میں اسلحے اورعددی برتری کے گھمنڈمیں بیک وقت بری،بحری اورہوائی حملوں کی آڑمیں لاہوراوردیگرشہروں پرقبضہ کرنے کیلئے پاکستان پرحملہ کردیاتوہمارے انہی نوجوانوں نے اپنے اسلاف کی سرفروشی کی ان تمام داستانوں کی یادتازہ کردی جن کاتذکرہ خوددشمن جرنیل اپنی یاداشتوں میں کرنے پرمجبورہوگئے۔کیا کسی کوہمارے نوجوانوںکی وہ قربانی یادہے جس نے چونڈہ سیالکوٹ کواس صدی کی سب سے بڑی دشمن ٹینکوں کی جنگ کاقبرستان بنادیاتھا۔
سرگودھاکوشاہینوں کاشہرقرار دیا گیا کہ 65کی جنگ میں اپنی جرأت مندانہ صلاحیتوں سے پوری قوم کاسرفخرسے بلندکرنے والے ایم ایم عالم نے تاریخ رقم کی۔محمدمحمودعالم(جنہیں ایم ایم عالم بھی کہاجاتاہے) پاکستان کے وہ جنگی ہوابازتھے جن کی وجہ شہرت گنیزبک ورلڈریکارڈمیں ایک منٹ میں سب سے زیادہ طیارے مارگرانیکاریکارڈہے۔65کی جنگ میں سکوارڈن لیڈرایم ایم عالم کانہ بھلایاجانے والاکارنامہ،چھ ستمبرکوایف86صابری جیٹ میں اڑان بھری اوردشمن کی سرحدکوچیرتے ہوئے دشمن پرکاری ضرب لگاکرسنبھلنے کاموقع نہ دیااورپھردیکھتے ہی دیکھتے کچھ ہی لمحوں میں دشمن کے9جہازوں کے پرخچے اڑادیئے۔
اللہ کی دی ہوئی توفیق سے ایم ایم عالم نے پاکستان کے دفاع میں جرأت وبہادری کی وہ مثال قائم کی جورہتی دنیاتک یادرکھی جائے گی۔آج بھی ایم ایم عالم کی زندگی کی کچھ جھلکیاں پی اے ایف میوزیم میں بھی قیدہیں۔پی اے ایف میوزیم میں ایم ایم عالم کامجسمہ اوران کاوہ جہازکھڑاہے جس نے دشمن کی فضائی طاقت کونیست ونابودکیا۔میوزیم میں ایم ایم عالم کے نام سے ایک کارنربھی مختص کیاگیاہے۔ایم ایم عالم ایک بہادرجنگجو،ہوابازاورقومی فخرہیں۔راقم نے اپنی کئی ملاقاتوں میں خودان کی زبانی ان کے کارنامے سنے ہیں اوراس کم گوراسخ العقیدہ مسلمان کاجذبہ حب الوطنی رہتی دنیا تک لوگوں کے ذہنوں میں اپناگھر کر گیاہے۔
واضح رہے کہ سکواڈرن لیڈرمحمدمحمودعالم کویہ اعزازحاصل ہے کہ انہوں نے1965کی پاک بھارت جنگ میں سرگودھا کے محاذپرپانچ انڈین ہنٹرجنگی طیاروں کوایک منٹ کے اندر اندرمارگرایاجن میں سے چارتیس سیکنڈکے اندرمارگرائے گئے تھے۔یہ ایک عالمی ریکارڈتھا۔اس مہم میں عالم صاحب ایف86سیبرطیارہ اڑارہے تھے جواس زمانے میں ہنٹر طیارے سے تینکی اعتبارسے فروترتھا۔مجموعی طورپرآپ نے نوطیارے مارگرائے اوردوکونقصان پہنچایاہے جن میں چھ ہاک ہنٹرطیارے تھے۔
1965کی جنگ کے بعد1967میں آپ کاتبادلہ بہ طوراسکوارڈن کمانڈربرائے اسکوارڈن اوّل کے طورپرڈسالٹ میراج سوم لڑاکاطیارہ کیلئے ہواجوپاکستان ایئرفورس نے بنایا تھا۔1969میں ان کواسٹاف کالج کے عہدے سے ہٹادیاگیا۔1972میں انہوں نے 26ویں اسکوارڈن کی قیادت دومہینوں کیلئے کی۔بنگالی ہونے کی وجہ سے71کی جنگ میں آپ کوہوائی جہازاڑانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
یہی وہ جذبہ صادق ہی توہے کہ آج بھی ہماری بہادرسپاہ پچھلی چاردہائیوں سے دنیاکے بلنداورسردترین محاذسیاچن گلیشیئرپر جاری جنگ میں جہاں انسانوں کامقابلہ انسانوں سے کم
اورقدرت سے زیادہ ہے۔سردی کے موسم میں درجہ حرارت منفی 60 ڈگری تک گرجاتاہے اور200کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتارسے برفانی طوفان اورہواؤں کے جھکڑاوسط 40 فٹ برفباری لاتے ہیں۔ جہاں8ماہ برفباری ہوتی ہے اوراونچائی کی وجہ سے صرف30فیصد تک آکسیجن رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہاں سانس لینادشوارترہو جاتاہے،ارض وطن کی حفاظت کیلئے موجودہیں۔ہم توآج تک سِکس این ایل آئی بٹالین ہیڈکوارٹرکے135/نوجوان شہدا کونہیں بھول پائے جوارضِ وطن کیلئے6اور7اپریل2012کی درمیانی شب کو20ہزاربلندگیاری سیکٹرمیں ایک کلو میٹرطویل اور300فٹ گہرے برف کے پہاڑوں میں زندہ دفن ہوگئے تھے اوریہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہواکہ اب تک آٹھ ہزارسے زائد نوجوان ان سردترین وادیوں کارزق بن گئے ہیں کہ انہوں نے یہ حلف اٹھایاتھاکہ اس ملک کی سرحدوں کی ہرحالت میں حفاظت کریں گے۔
آپ نے سنابھی ہے اورباربارسناہے،میرے رب کافرمان ہے:
جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کومرے ہوئے نہ سمجھنا(وہ مرے ہوئے نہیں ہیں)بلکہ اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اوران کو رزق مل رہا ہے۔(العمران:169)
جب بدترین طوفانی موسموں اورایسے جاںگسل حالات میں وطن کی حفاظت کرنے والے نوجوان مسکرارہے ہوں تووہ کون سی طاقت ہوتی ہے جس سے ان کے پائے استقلال میں ذرہ بھربھی جنبش نہیں ہوتی،کیاایساتونہیں کہ کوئی شہید اسے تحسین کی نظرسے دیکھ رہاہو۔۔۔۔۔۔۔۔بدری شہیدیامیدان احدکے شہدا۔ہم نے اپنے رب سے وعدہ کیاتھاکہ ہم ارضِ وطن میں مکمل قرآن کانفاذکریں گے۔آپ سن لیجیے کہ ان شہدا کی گواہیاں اورقرآن کے مکمل نفاذسے ہی پاکستان بھی نورسے روشن ہوگا۔

Comments are closed.