ہم تو چاہتے ہیں کفیل خان سیاست میں آئیں مگر….

شکیل رشید
کیا ڈاکٹر کفیل خان اس ملک کے نوجوانوں بالخصوص مسلم نوجوانوں کے لیے رول ماڈل بن سکتے ہیں؟
اس سوال کا جواب چاہے ہاں میں ہو یا نہ میں ڈاکٹر کفیل خان پر نظر ڈالیں تو ان کی ایک ایسی صفت عیاں ہو کر سامنے آتی ہے جو آج شاید ہی کسی مسلم لیڈر میں پائی جاتی ہو… سنجیدگی سے حالات پر نظر ڈالنے اور سوچ سمجھ کر بات کرنے کی صفت ۔ جن پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے ہوں عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ طیش میں آکر کچھ بھی کہہ دیں گے، کچھ بھی بول دیں گے، اور ایسا ہوتا بھی ہے ۔ بغیر سوچے سمجھے بولنے یا طیش میں زبان کھولنے کا نتیجہ خراب ہی نکلتا ہے ۔ ڈاکٹر کفیل، ایسا قطعی نہیں ہے کہ غصہ نہیں ہیں یا انہیں طیش نہیں آیا ہے ، ان کی باتوں میں غصہ محسوس کیا جا سکتا ہے، لیکن ضبط کے ساتھ ۔ مثال لیں، انہوں نے اپنی گرفتاری کو ہندو مسلم مسئلہ نہیں بنایا ۔ اور نہ ہی اسے ہندو مسلم مسئلہ بننے دیا ۔ وہ جب متھرا جیل سے باہر نکلے تو انہوں نے ملک کی عدلیہ کا، ملک کے باشندگان کا اور تمام دوستوں اور تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا جن کی دعاؤں نے بقول ان کے، ان کی رہائی کو ممکن بنایا تھا ۔ انہوں نے سارے ملک کے سر پر اپنی رہائی کا سہرا باندھ دیا، کیا مسلمان، کیا ہندو اور کیا دلت ۔ اور یہ سچ بھی ہے کہ ان کے لیے آواز اٹھانے والوں میں غیر مسلم پیچھے نہیں تھے بلکہ کہیں زیادہ متحرک تھے ۔ عدالت سے کئی بار ان کی ضمانت کی درخواست آگے بڑھی مگر انہوں نے اس پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی، عدلیہ پر مکمل بھروسہ جتایا ۔ یہ سنجیدگی سے معاملے اور حالات پر غور کرنے کی صفت ہی ہے کہ ڈاکٹر کفیل خان کے لیے سب ہی کھڑے ہوئے ہیں ۔
ڈاکٹر کفیل خان کی میڈیا سے گفتگو آنکھیں کھولنے والی ہے ۔ جو باتیں انہوں نے کیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دور اندیش ہیں ۔ مثلاً یوپی ایس ٹی ایف کے سلسلے میں ان کا یہ کہنا کہ وہ اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ اس نے انہیں زندہ رکھا ورنہ ممبئی سے متھرا تک کا سفر لمبا ہے اور لوگ جانتے ہیں کہ ایس ٹی ایف کی گاڑی سڑک پر کس طرح پلٹتی ہے ۔ انہوں نے یہ تو کہا کہ انہیں ابتدائی طور پر زدوکوب کیا گیا لیکن اب وہ ٹھیک ہیں ۔ اپنی بات کو جذبات میں آیے بغیر کسی کے سامنے پیش کرنے کا اس سے بہتر انداز کیا ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے وکاس دوبے کے انکاؤنٹر کا نام لیے بغیر یوگی سرکار پر طنز کس دیا ۔ انہوں نے رام راجیہ کا بھی ذکر کیا کہ یوپی میں رام راجیہ کی مدت کار جو کوئی ساڑھے تین سال ہوئی ہے (یہ یوگی سرکار کی مدت کار ہے) اسی کے دو سال انہوں نے جیل میں گزارے ۔ اپنی بات کو دلیل اور سنجیدگی سے رکھنا اور بغیر ڈرے ہوئے رکھنا یہ ڈاکٹر کفیل خان کی ایک اہم صفت ہے ۔ ڈاکٹر کفیل خان نے یوگی کی ذات پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی ہاں ان سے یہ مطالبہ، جو کہ جائز بھی تھا، کیا کہ وزیراعلیٰ ان کی تقرری دوبارہ بی آر ڈی میڈیکل کالج میں کروائیں تاکہ وہ لوگوں کی خدمت کر سکیں ۔ یہ اپیل یوگی کو دو طرح کے پیغام دے گی، ایک تو یہ کہ وہ آج بھی گورکھپور کو اپنا گھر اور کالج کو اپنی نوکری کی جگہ مانتے ہیں اور واپسی کے لیے تیار ہیں ۔ اس اپیل سے شہر میں ان کی ساکھ بہتر ہی ہوئی ہوگی، ویسے بھی وہ گورکھپور کے ان ڈاکٹروں میں سرفہرست ہیں جن کی ہر مذہب کے ماننے والے عزت اور قدر کرتے ہیں ۔
ڈاکٹر کفیل خان سے ایک اہم سوال یہ تھا کہ کیا وہ سیاست میں آنا چاہیں گے؟ چونکہ ان کی رہائی کے لیے یوپی کانگریس نے ایک طویل مہم چلائی ہے لہذا بہت سے لوگ یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ وہ شاید کانگریس میں شامل ہو جائیں ۔ ڈاکٹر کفیل خان نے کانگریس کا شکریہ ادا کیا لیکن ساتھ ہی سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی کا بھی شکریہ ادا کیا کیونکہ یہ سیاسی پارٹیاں بھی ان کی رہائی کے لیے آواز اٹھا رہی تھیں، انہوں نے یہ تو کہا کہ سسٹم کی برائیوں کو دور کرنے کے لیے سسٹم میں اترنا ضروری ہے مگر وہ سیاست میں اتریں گے یا نہیں اور اگر اترے تو کس سیاسی جماعت سے، اس کا کوئی جواب نہیں دیا، صرف اتنا کہا… میں ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا… ہم چاہیں گے کہ وہ سسٹم میں اتریں تاکہ ایک دور اندیش، سنجیدہ اور نڈر قائد ہمیں ملے لیکن بہت سوچ سمجھ کر کیونکہ کشمیر کے آئی اے ایس فیصل بھی سیاست میں حصہ لینے آئے تھے مایوس ہو کر واپس چلے گئے ۔ لوگ ساتھ دیتے نہیں ہیں اور پرانی قیادت جو لوگوں کے استحصال پر یقین رکھتی ہے نئے، اچھے، صاف ستھرے قائد کو جمنے نہیں دیتی، ٹانگیں کھینچ لیتی ہے ۔
Comments are closed.