زندگی کی ہر چیز پر ’’بازار‘‘ کا قبضہ ہوتا جارہا ہے؟

خصوصی پیش کش :سعید پٹیل جلگاؤں
زندگی میں پاکیزگی ، طہارت ، حسن سلوک ،اعتماد ،علم ، سکھ چین یہ سب زندگی جینے کے اعلی کردار و اخلاق تعلیم سے آتے ہیں۔لیکن علم اور تعلیم کے جوں جوں نۓ نۓ دروازے کھلتے گۓ ،دنیا گلوبل ایک گاؤں کی مانند بنتی چلی گئ۔انسان علم کے خزانے حاصل کرنے کے بعد ظاہری طور پر ایک دوسرے کے بہت قریب آگیا۔لیکن اس کے نتائیج اب ایک بھیانک اور خوف میں مبتلا کردینے والی صورت میں رونما ہورہے ہیں۔زندگی کی ہر چیز جسے انسان مسلسل یا کبھی کبھی استعمال کرتا ہے۔وہ اب بازار کے قبضے میں جارہی ہیں۔آج انسانی سماج سیاسی اور سماجی غلامی سے آزادی پانے کی بجاۓ نۓ طرز زندگی کے طور پر غلامی کی جانب رواں دواں ہے۔پہلے غریب کو غریب رکھا جاتا تھا۔اب غریب کو غریب کے ساتھ ساتھ لاچار ،مجبور بنایا جارہا ہے۔انسانی ھمدردی کے یوں تو بہت سے شعبے ہیں۔لیکن اس میں چند بہت ہی اہم اور خاص مقام پر ہے۔جن میں تعلیم اور علم طب ایک کا تعلق زندگی سنوارنے اور جذبہ انسانیت کی ایثار و قربانی سے ہے۔اور دوسرے کا تعلق زندگی کی بقاء سےہے۔ایک اچھے معاشرے کےلۓ انسان کا صحت مند ہونا ضروری ہوتا ہے۔لیکن کیا طبی مراکز اپنے اس فرض کو ادا کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔؟ اگر ایسا نہیں ہے تو بہت اچھی اور قابل ستائش خدمت ہے۔لیکن جو سنا اور دیکھا جارہا ہے۔اس کی حالت نازک ہے۔تعلیم کے زیور سے انسان نے سماجی ،سیاسی ،مذہبی ،امیری ،غریبی ، اعلیٰ اور ادنیٰ کے بھید بھاؤ سے اوپر اٹھ کر انسان کو سنوار اور ایک قابل مہارت عطا کی۔لیکن مادہ پرستی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام نے دولت کے خزانوں کو اپنے قبضے میں کرنے کےلۓ انسان سے انسانیت چھین لینے کے تمام حربوں پر مشق کرنا شروع کردیا ہے۔ایک مرض میں مبتلا مریض اپنی مالی طاقت صرف کرنے کے باوجود جان بھی کھو دینے کےلۓ مجبور اور لاچار بنا ہوا۔علم تو وہ خزانہ ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے حسن سلوک کے برتاؤ سے معزز ہونے کا درجہ پاتا ہے۔دنیا کے انسانوں کا اصلی سرمایہ ان کی زندگی کی بقاء اور دو وقت کی روٹی کھانے کے بعد سکون کے چند لمحات ۔لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے ایسا حربہ استعمال کیا کہ اب آئندہ کئ دہائیوں تک عام انسانوں کو غلامی کی زندگی جینے کےلۓ تیار رہینا ہوگا۔پہلے ہمارے بزرگوں اور صوفی سنتوں کے پاس حسن اخلاق اور اعلیٰ کردار کا وہ عظیم سرمایہ ہوا کرتا تھا کہ لوگ اپنی بھوک پیاس بھول جایا کرتے تھے۔ جن کے کرداروں سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا کرتا تھا۔آج سماج ، سیاست ،معیشت ،تعلیم ، علم وہنر کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھوں میں چلی گئ۔جنھیں صرف اقتدار اور اختیارات اور اپنے مفاد سے پیار ہے۔اس لۓ یہ سب جس پر ایک عام انسان بھی غریب ہوتے ہوۓ بھی انسانیت کے برگد نما ساۓ میں سکون و چین کی زندگی گذار سکتا تھا۔لیکن اب ایک متوسط طبقے کا ذمدار شخص اپنی زندگی کو بازار کے حوالے کرنے پر مجبور نظر آتا ہے۔؟ ہر ذمہ دار اور عہددار کو اپنے اندر کی نفرت و منفی نظریات کو بدلنا ہوگا۔تاکہ ملک وقوم کا کچھ بھلا ہوجائےورنہ شاید آنے والی نسل گھن گھور اندھیرے کی نذر ہوجائیں گی۔کیونکہ زندگی کی ہر چیز پر بازار کا قبضہ ہوتا جارہا ہے۔؟ ہمیں انسانیت کے تمام اسباق پر کام کرنا پڑےگا۔

Comments are closed.