ماسٹر ضیاء الہدی ضیا : اچھے معلم، بہترین انسان:ایک تاثر

کامران غنی صباؔ
شعبۂ اردو نتیشورکالج، مظفرپور
میری نفسیات کا منفی پہلو کہہ لیجیے کہ میں مذہبی شناخت کے حامل افراد سے جلد متاثر نہیں ہو پا تا ہوں۔ خاص طور پر جو لوگ حد سے زیادہ مذہب، شریعت، کتاب و سنت، وعظ و نصیحت کی باتیں کرتے ہیں، ان سے قربت کے بعد جب ان سے عقیدت کا بت ٹوٹ کر پاش پاش ہو جاتا ہے تو میں انتہائی متنفر ہو جاتا ہوں۔ وہ تو بھلا ہو کہ مجھے گھر میں بھی کسی حد تک مذہبی ماحول میسر ہوا، ورنہ بعید نہیں کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی جیسے ادارے میں جانے کے بعد میں بھی اشتراکی ہو جاتا اور قشقہ کھینچ کر کب کا ترک اسلام کر چکا ہوتا۔ میری اس نفسیات کی وجہ مذہبی شناخت رکھنے والے افراد کا دوہرا رویہ اور ان کی جلوت و خلوت کا فرق ہو سکتا ہے۔میرے کچھ بے تکلف دوست اکثر مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کی شاعری ہو یا نثر آخر صاحبانِ جبہ و دستار ہی آپ کی زد پر کیوں آتے ہیں؟ میں بس ایک ہی جواب دیتا ہوں، ’اپنے یونیورفارم کی وجہ سے‘۔ اگر ایک شخص پولیس آفیسر نہیں ہے تو وہ ہر طرح کا جرم کرسکتا ہے، یہ بات کسی بھی قیمت پر درست نہیں کہی جا سکتی۔جرم خواہ کوئی بھی کرے اسے سزا ملنی چاہیے لیکن اگر ایک پولیس آفیسر کسی جرم میں ملوث پایا جائے تو اس کی وجہ سے پوری ’پولیس برادری‘‘ معتوب ہو جاتی ہے۔ چند پولیس والوں کی بدعنوانیوں کی وجہ سے پورا محکمہ شک و شبہ کی زد میں آ جاتا ہے۔ بس یہی میرا مسئلہ ہے کہ ’’قال اللہ ‘‘ اور ’’قال الرسول‘‘ کا ورد کرنے والا، پندو نصیحت سے زمانے میں انقلاب لانے کے خواب دیکھنے والا کوئی شخص جب عملی زندگی میں مذہب اور اخلاقیات کے تمام اصول بھول بیٹھتا ہے تو میرے اندر بغاوت کی چنگاری شعلہ بننے لگتی ہے۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص اخلاقیات کا درس دیتا ہو اور اس کے بیوی بال بچے ہی اس کے مزاج سے نالاں ہوں؟ ایک شخص سیرت رسولﷺ کے مختلف حوالوں سے گفتگو کرتا ہو اور اس کے خاندانی و معاشرتی معاملات بالکل برعکس ہوں؟
ایسے گھٹن بھرے ماحول میں جو احباب یا افراد خواہ ان کا تعلق اندرونِ خانہ سے ہو یا بیرونِ خانہ سے ، اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ ساتھ ، مذہب کے معاشرتی اور اخلاقی اصول سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں، میں ان کی دل سے عزت کرتا ہوں۔ ان کے لیے میری آنکھیں فرطِ عقیدت سے جھک جاتی ہیں۔ لائق تکریم ہیں وہ افراد اور خاندان جو دینی و دنیاوی معاملات کے درمیان توازن برقرار رکھتے ہیں۔ جن کے ظاہر و باطن میں یکسانیت ہوتی ہے۔ ’’ہدی‘‘ خاندان کے تمام افراد میرے نزدیک اسی لیے قدر و منزلت کے حقدار ہیں کہ اس خاندان کے افراد نہ صرف یہ کہ دین کا گہرا علم و شعور رکھتے ہیں بلکہ دنیاوی معاملات میں بھی ان کے یہاں زبردست توازن پایا جاتا ہے۔ ’ہدی‘ خاندان سے میری قربت میرے عزیز ترین دوست نوجوان عالم دین مولانا نظر الہدی قاسمی کے ذریعہ سے ہوئی۔ ان کے والد مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کا نام گرچہ بچپن سے سنتا اور پڑھتا آیا تھا لیکن سچی بات یہی ہے کہ مفتی صاحب سے میری قربت کا ذریعہ مولانا نظر الہدی قاسمی ہی بنے۔ پھر میں نے اس خاندان کے افراد کو قریب سے دیکھا۔ ان کے درمیان کی محبت اور افراد خانہ کے اتحاد کو بہت قریب سے محسوس کیا۔ آج کے زمانہ میں کہ جب قریبی رشتے شکست و ریخت کا شکار ہیں، اگر کوئی خاندان محبت اور اتحاد کی ڈور سے بندھا ہوا ہے تو ایسا خاندان ہمارے لیے آئڈیل اور قابل تقلید ہے۔ اس خاندان کے تعلق سے اللہ میرے حسن ظن کو قائم رکھے۔
مفتی محمد سراج الہدی ندوی ازہری اسی معزز خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کے بھتیجے اور داماد بھی ہیں۔ دو سال قبل 28جنوری 2018 کو آپ کے والد ماسٹر محمد ضیاء الہدی ضیاء کا اچانک انتقال ہو گیا۔ضیاء الہدی ضیاء صاحب سے میری کوئی ملاقات نہیں تھی یا ہوگی بھی تو مجھے یاد نہیں لیکن اتنا ضرور ہے ماسٹرضیاء الہدی صاحب کے تعلق سے ہمیشہ اچھے تاثرات ہی سننے کو ملے۔ یقینا زبانِ خلق نقارۂ خدا ہوتی ہے۔ اگر کسی شخص کے اخلاق و کردار کے تعلق سے ایک بڑی جماعت حسن ظن رکھتی ہے تو یقیناوہ شخص اوروں سے مختلف ہوگا۔ ماسٹر محمد ضیاء الہدی صاحب نہ کوئی شاعر و ادیب تھے، نہ صحافی اور نہ کوئی سیاسی رہنما ۔ وہ ایک اسکول ٹیچر تھے۔ قلم سے ان کا رشتہ ضرور تھا لیکن کوئی ایسا نہیں کہ قلم ان کی شناخت ہو۔ سماج میں ان کی قدر و منزلت کی وجہ صرف اور صرف ان کااعلیٰ اخلاق و کردار تھا۔ زیر نظر کتاب ’’ماسٹر محمد ضیاء الہدی ضیا اچھے معلم، بہترین انسان‘‘ ان کے لائق و فائق فرزند مفتی محمد سراج الہدی ندوی ازہری کی ترتیب دی ہوئی کتاب ہے ۔ جس میں زیادہ تر مضامین شخصی نوعیت کے ہیں۔جن کے مطالعہ سے ماسٹر ضیا مرحوم کی زندگی کے خدو قال اچھی طرح ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ کتاب کا ایک بڑا حصہ افرادِ خانہ کی تحریروں پر مشتمل ہے۔ اس حصے کو مرتب نے فوقیت دی ہے اور اسے پہلے شامل کیا ہے۔ اہلِ قلم حضرات کے مضامین کو بعد میں جگہ دی گئی ہے۔یہاں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ کسی شخص کے تعلق سے افراد خانہ کی رائے کیوں کر قابلِ اعتنا سمجھی جائے؟ کیا کوئی انسان اپنے گھر کے کسی فرد کے تعلق سے سرعام اس کے منفی پہلوئوں کو ظاہر کر سکتا ہے؟ اس تعلق سے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے فنی کمالات پر گفتگو ہوگی تو ماہرین فن کی رائے کو اہمیت دی جائے گی۔ اس کے برعکس اگر کسی شخص کی ذاتی زندگی کو سمجھنا ہے تو افرادِ خانہ کی رائے مقدم ہوگی۔ کیوں کہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھر سے باہر کی دنیا کا شاعر، ادیب، صحافی، مقرر، مصلح اور دانشور اپنے اندورن خانہ کوئی اور ہی شناخت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے ماسٹر محمد ضیاء الہدی ضیا کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے کہ وہ اپنے افراد خانہ کے نزدیک بھی اسی قدر و منزلت کی نگاہ سے یاد کیے جاتے ہیں جس طرح انہیں سماج میں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے ہردل عزیز ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ ضیاء الہدی صاحب مرحوم کی ہردل عزیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی نماز جنازہ میں جہاں لوگوں کا جم غفیر تھا وہیں نماز جنازہ میں وہ لوگ بھی موجود تھے جو مختلف اسکولوں میں ان کے رفقا رہے۔مفتی سراج الہدی ندوی کی مرتب کردہ کتاب میں شامل مضمون نگاروں کے نام گنوا کر میں اپنی تحریر کو خواہ مخواہ طول دینے سے گریز کر رہا ہوں۔ ہاں یہ عرض ضرور کروں گا کہ آپ ان کے افرادِ خانہ کی تحریروں کو ضرور پڑھیں۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ افراد خانہ کے نزدیک ان کی کیا اہمیت تھی۔آپ کو ان کی چھپی ہوئی خوبیوں کا اندازہ ہوگا۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ درویش صفت انسان کس طرح خاموشی کے ساتھ بندگان خدا کی خدمت کرتا ہے۔ جیب خالی ہونے کے باوجود اپنے نام پردکان سے قرض دلواکر کسی کی ضرورت کیسے پوری کی جاتی ہے یہ ہمیں ماسٹر ضیاء الہدی صاحب کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے۔
کتاب کا تیسرا حصہ دانشوران علم و ادب اور ماہرین فن کی تحریروں پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں مفتی عبدالشکور قاسمی، مولانا انوار اللہ فلک قاسمی، مولانا سید مظاہر عالم شمسی، مولانا عبدالقیوم شمسی،پروفیسر آفتاب عالم قاسمی، انوار الحسن وسطوی، مولانا محمد اظہار الحق قاسمی، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولانا محمد امام الدین ندوی، مفتی توقیر عالم قاسمی، مولانا نیاز احمد قاسمی، مولانا عبدالغور قاسمی،ڈاکٹر نیاز احمد، ماسٹر محمد صدر عالم ندوی، آفتاب عالم ندوی، قمر حاجی پوری، ڈاکٹر محمد انتخاب عالم، ماسٹر عبدالرحیم، محمد پرویز عالم ندوی، حافظ صادق انور اثری، حافظ محمد احسان اشرف، مولانا عمران قاسمی، مولانا محمد تبریز عالم سبیلی اور محبوب عالم کے مضامین شامل ہیں۔ یہ سبھی مضامین تاثراتی نوعیت کے ہیں۔ ان مضامین کے مطالعہ کے بعد مجموعی حیثیت سے ماسٹر ضیاء الہدی مرحوم کی جو شخصیت سامنے آتی ہے، اس میں اخلاص، محبت، ایثار، خفیہ طور پر خدمت خلق کا جذبہ، اپنی ذمہ داریوں کے تئیں ایمانداری، قومی و ملی جذبہ جیسے نمایاں جوہر ہمیں ایک مثالی شخصیت سے روبرو کرواتے ہیں۔ 340 صفحات پر مشتمل کتاب دیکھ کر میں دنگ ہوں کہ ایک شخص جو نہ ماہرِ فن ہے، نہ کوئی سیاسی یا مذہبی رہنما اس کی شخصیت پر اتنے سارے مضامین جمع کر لینا کوئی معمولی بات نہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی ایک مضمون بھی بھرتی کا ہو۔ہر تحریر میں کوئی نہ کوئی پیغام ہے۔ جہاں افرادِ خانہ کے قلم سے لکھی ہوئی تحریروں سے ماسٹر ضیاء الہدی مرحوم کے خاندانی معاملات کا اندازہ ہوتا ہے وہیں بیرونِ خانہ اصحاب قلم کی تحریریں مرحوم کی جلوت کو ظاہر کرتی ہیں۔ اسلاف کی شخصیت فکر و فن کے اعتبار سے مثالی ہو یا شخصیت کے حوالے سے، اسے زندہ رکھنا بعد کی نسلوں کا اخلاقی فریضہ ہے۔ قابلِ مبارکباد ہیں مفتی سراج الہدی ندوی ازہری صاحب کہ انہوں نے اپنے والد مرحوم کی مثالی شخصیت کو کتابی صورت دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔ اللہ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔ اس کتاب کے توسط سے ماسٹر ضیاء الہدی ضیا مرحوم کی خوبیاں جن جن لوگوں میں منتقل ہوں، بطور ثواب اس کا حصہ ماسٹر ضیاء الہدی مرحوم کو بھی عطا ہو۔
Comments are closed.