مفتی عبد اللہ مظاہری :کچھ یادیں کچھ باتیں از (مفتی) محمد خالد حسین نیموی قاسمی

مفتی عبد اللہ مظاہری :کچھ یادیں کچھ باتیں از (مفتی) محمد خالد حسین نیموی قاسمی

 

حضرت مفتی عبداللہ مظاہری صاحب علم دوست، علماء نواز اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے. ان کا اور ان کے ادارے جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ کا نام تو پہلے سے سن رکھا تھا البتہ ان سے ملاقات کا اتفاق اس وقت ہوا جب ماہ فروری 2010 میں اسلامی فقہ اکیڈمی کے سیمینار کے موقع پر جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ حاضر ہوا اور مولانا مولانا مفتی عبداللہ صاحب مظاہری کی شاندار دارضیافت سے مستفید ہونےکا موقع ملا.. جامعہ مظہر سعادت ایک عظیم ادارہ ہے، جو جنگل میں منگل کا سماں پیش کرتا ہے. شاندار بلڈنگ، پر شکوہ جامع مسجد، پر بہار کیمپس ہر چیز متاثر کن اور جاذب نظر تھی . یقینا اس کو مفتی عبداللہ صاحب نے اپنے خون جگر سے سینچا، پروان چڑھایا اور اور جب تک ممکن ہو سکا موصوف اس ادارے کو پروان چڑھانےکی کوشش کرتے رہے. ایک موقع پر جب مفتی صاحب کی اس ادارے سے سبکدوشی کی خبر سنی تو بڑا صدمہ ہوا تھا..لیکن اسے قضاء وقدر کا فیصلہ سمجھ کر انگیز کرگیا… اور اس امر سے بھی تسلی ملی کہ ایسا ماضی میں دیگر کءی اکابر کے ساتھ بھی ہوچکا ہے . موصوف نے اسلامی فقہ اکیڈمی کے سیمینار کے موقع پرعلماء و مفتیان کرام کا زبردست اکرام فرمایا. تمام حضرات کے قیام و طعام کے علاوہ کپڑے دھلوانے کا بھی انتظام کروایا تھا… مہمانوں کے لیے دارالاکابر کے نام سے تعمیر شدہ مہمان خانہ کسی تین ستارہ ہوٹل کا سماں پیش کر رہا،جس میں اکابر علماء ومفتیان کو ٹھہرایا گیا تھا…

ایک خاص واقعہ جو خاص طور پر قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے نے تمام مہمانوں کیلئے لیے یہ انتظام فرمایا کہ کہ بحرعرب کے کنارے واقع اس سرزمین کو دیکھیں جہاں پر اسلام کا اولین قافلہ خیمہ زن ہو اتھا… ایک روایت کے مطابق مشہور تابعی ربیع بن الصبیح جنھیں” اول من صنف فی الحدیث ربیع بن الصبیح” کا تمغہ امتیاز حاصل ہے. اس عظیم محدث کی قبر کے آثار اسی خطے میں پاءے جاتے ہیں. مفتی صاحب نے علماء کے لیے بس کا انتظام کروایا اور مہمانوں میں سے دلچسپی رکھنے والے والے حضرات کا ایک بڑا قافلہ اللہ شام کے وقت وقت اس علاقے میں پہنچا اوربزرگوں کے آثار کے سے اپنے مشامِ جاں کو معطر کیا… مفتی عبداللہ صاحب نے بتایا کہ کئی بار ایسا ہوا کہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ جب اس خطے میں تشریف لاتے تھے تو ان مقامات کی ضرور زیارت کرتے تھے اور گھنٹوں مراقب رہتے تھے ایسا لگتا تھا کہ آپ کی بابصیرت آنکھیں کسی متاع گم گشتہ کی جستجو میں ہیں

اسی طرح مفتی عبداللہ صاحب نے اس کا بھی انتظام کیا کہ بھڑوچ شہر میں واقع دیگر بڑے اداروں کی زیارت بھی مہمانوں کو کرائی جائے چنانچہ اس ضمن میں میں دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر، دارالعلوم کنتھاریہ، دار العلوم زکریا اور دیگر کئی اداروں کو دیکھنے کا موقع ملا اور دیگر اداروں کی مہمان نوازی سے مستفید ہونے کی سعادت ملی . سیمینار کی ایک نششت میں یہ بھی معلوم ہوا کہ مفتی صاحب صرف عبداللہ نہیں بلکہ عبداللہ پٹیل ہیں یعنی پٹیل برادری سے تعلق رکھنے والے ہیں..جس طرح ملک کے اولین وزیرداخلہ سر ولبھ بھائی پٹیل، پٹیل تھے… ہوا یوں کہ ہندی اور گجراتی میڈیا میں فرقہ پرستوں کی طرف سے یہ افواہ پھیلانے کی کوشش کی گئی کہ جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ میں ایک انٹرنیشنل پروگرام جہاد کے عنوان پر ہورہا ہے اور اس میں کءی پاکستانی جہادی تنظیموں کے نمائندے شریک ہوئے ہیں… اس افواہ، الزام بلکہ بہتان کو کنڈیم کرنے کے لیے مفتی عبداللہ نے ہندی، انگریزی اور گجراتی پریس کے نمائندوں کو مدعو کرکے گجراتی زبان میں خطاب کیا اور سیمینار کے اغراض ومقاصد سے متعارف کرایا… چنانچہ اس کے بہترین اثرات مرتب ہوءے…

اس وقت بہار سے تعلق رکھنے والے ہونہار فاضل مفتی اشرف عباس صاحب(حال استاذ دارالعلوم دیوبند) بھی اسی ادارہ کے موقر استاذ تھے،،، ان کی عربی واردو میں شاندار خطابت اور نظامت کے جلوے بھی سامنے آتے رہے

رفیق محترم جناب مولانا عبدالقیوم صاحب مونگیری اور جناب مولانا سراج الدین صاحب مونگیری کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ وہ سورت شہر کے اون محلے میں ایک بڑا ادارہ کامیابی کے ساتھ چلا رہے ہیں.. انھوں نے ہانسوٹ آکر اپنے ادارے میں حاضر ہونے کی دعوت بھی دے رکھی تھی

واپسی کے وقت خواہش تھی کہ مولانا عبد القیوم کے ادارے کو دیکھا جائے.. مفتی عبد اللہ صاحب سے بندہ نے اس خواہش کا اظہار کیا تو انھوں نے فوراً ڈائریکٹ گاڑی کا انتظام کیا کیا اور یہ عاجز مفتی عبد اللہ صاحب کی عنایت سے اپنے اکابر حضرت مولانا قاضی عبد الجلیل صاحب، مولانا بدر احمد مجیبی ندوی صدرالمدرسین المعھدالعالی للتدریب فی القضا والافتاء پھلواری شریف، مفتی رمضان علی فرقانی اور مفتی توقیر بدر قاسمی کی معیت میں اس ادارے میں پہنچے. وہاں مولانا عبدالقیوم مونگیری اور مولانا سراج الدین کےقائم کردہ ادارے اور ان حضرات کے ذریعے انجام دیے جانے والے تعلیمی و تربیتی خدمات کے مناظرکو اپنی نظروں سے دیکھنےکا موقع ملا..

حسن اتفاق ق اس موقع پر ہندوستان کے عظیم خطاط اور شاعر مولانا طارق بن ثاقب صاحب سے بھی ملاقات ہوئی اور انہوں نے اپنے ہی اعلی ترین فن منقی شاہ فاروق فن نے کتابت کے شاہکار طغروں اور دیگر تحریروں کی زیارت کروائی…. یہ کہتے ہوئے یے کہ ہمارے فن کو خالد نیموی جیسے اہل قلم نہیں دیکھیں گے تو پھر ہمارے فن کی بازگشت اخبار و مجلات میں کیسے سنائی دیں گے..

مفتی عبداللہ صاحب کی زندگی کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک بہترین منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب نظر عالم دین اور بابصیرت مفتی بھی تھے، چنانچہ اس سیمینار کے موقع پر مفتی عبداللہ صاحب کی طرف سےشرکائے سیمینار کی خدمت میں کچھ کتابیں ہدیتا پیش کی گئی تھیں.. ان میں متعدد کتابیں مفتی عبداللہ صاحب کی تصنیف تھیں، ان میں سے مباحث فی الحدیث واصولہ اسی طرح مباحث فی الفقہ و اصول الفقہ قابلِ ذکر ہیں… اسی طرح مظاہر علوم سہارنپور کے معاون مفتی رہتے ہوئے انہوں نے جو استفتاء کے جوابات تحریر کیے تھے ہے ان کا مجموعہ بھی سامنے آیا… ان کتابوں کے مطالعے سے اندازہ ہوا کہ اللہ تبارک و تعالی نے مفتی عبداللہ صاحب کو علم و فضل کا وافر حصہ عطا فرمایا تھا اگرچہ مفتی صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کے نقوش عمل ہمارے سامنے ہیں، ضرورت ہے کہ ان کے کار خیر کو فروغ دیا جائے اور جو ادارے ان کے ذریعے قیام پذیر ہوئے اس کو استحکام کے ساتھ فروغ دیا جائے،، یہی مفتی صاحب کے لیے بہترین خراج عقیدت ہوگا… اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے..

Comments are closed.