آہ مفتی عبداللہ صاحب ہانسوٹ بھی چل بسے منزل عشق پہ تنہاپہونچےکوئی تمناساتھ نہ تھی

آہ مفتی عبداللہ صاحب ہانسوٹ بھی چل بسے

منزل عشق پہ تنہاپہونچےکوئی تمناساتھ نہ تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اخترامام عادل قاسمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی حال میں جن علماء نےاس دنیائےفانی کوالوداع کہاان میں حضرت مولانامفتی عبداللہ صاحب ہانسوٹ کی رحلت بہت ہی غم انگیزاورروح فرساہے۔انہوں نےایک دنیاآبادکی۔علم کاخوبصورت شہربسایا۔تخیل سےبھی حسین تر۔امیدوں کامرکزاورآرزوں کی جائےپناہ قرارپائے۔شہرت کےآسمانوں میں اپنےپرچم لہرائے۔ایک ویرانےکوگلستان بنایا۔ایک عام قسم کےشہرکوتاریخی حیثیت عطاکی ۔اورعلم کاقلعہ تعمیرکرکے اس کودین کےسپاہیوں کی فوج ظفرموج سےبھردیا۔۔۔۔۔

لیکن پھررنج والم اوردردوغم کاوہ سلسلہ شروع ہواکہ الامان والحفیظ ۔اندرونی حالات سےمیں واقف نہیں ہوں ۔لیکن کسی امیرکی ایسی بےبسی۔ خادم قوم کی ایسی ناقدری۔ ایسےدل شکن حالات۔رفقاء کاترک تعلق ۔دوستوں کی بےوفائی اورافواہوں کی گرم بازاری قوموں کی تاریخ میں کم دیکھنےکوملی۔۔۔۔

خیراب وہ اس دکھ بھری دنیاسےنکل کررب العالمین کےحضورپہونچ گئےہیں ۔اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔درجات بلندکرے اورہرتکلیف کےبدلےبےشمارخوشیاں عطا فرمائےآمین

مفتی صاحب مرحوم سےکبھی زندگی میں ملاقات کا مجھےشرف حاصل نہ ہوسکا۔ہاں فون پر کبھی بات چیت ہوئی ہے۔فقہ اکیڈمی کےسیمینار میں میں مدعوتھا۔لیکن ایک لمبے سفرکی بناپرشریک نہ ہوسکا۔لیکن مفتی صاحب کی عنایات سے میری کتاب قوانین عالم میں اسلامی قانون کاامتیاز کارسم اجراء میرےغائبانےمیں اسی سمینارکےموقعہ پرانجام دیاگیاتھا۔جس میں میری نیابت میرےبرادرعزیرمولانامحبوب فروغ احمدقاسمی نےکی تھی۔

البتہ اس سیمینارسےتقریباآٹھ سال قبل غالبا٢٠٠٢ء میں مجھے ایک بارجامعہ مظہرسعادت حاضری کاشرف حاصل ہواتھا۔مگراس وقت وہ خودوہاں موجودنہیں تھے۔آج وہ ہم سےرخصت ہوکربہت دورچلےگئےتووہ سفربھی اب یادگارمعلوم ہوتاہے۔

میں

مفتی سلیم صاحب سابق امام مسجدنورمانچسٹر۔وخلیفہ حضرت مولاناحکیم محمد اخترصاحب رح کی دعوت پررویدراحاضرہواتھا۔مفتی سلیم صاحب رویدراکےرہنےوالےہیں ۔اب ایک عرصہ سے مانچسٹرکےشہری ہیں۔ایک زمانےتک مجھ سےغائبانہ واقفیت رکھتےتھے۔اورمیرےمضامین وغیرہ کےقدردان تھے۔وہ بحث ونظراورماہنامہ حسامی دونوں میں مجھےپڑھ چکےتھے۔ان کےخسرمحترم الحاج ابراہیم یوسف باوارنگونی (گلاسٹر)بھی مجھ سے محبت فرماتےتھے۔بہرحال قصہ طویل ہے۔مفتی سلیم صاحب جب ہندوستان اپنےگاوں تشریف لائےتومجھےباصراراپنےگھرآنےکی دعوت دی ۔اوربہت اکرام کامعاملہ کیا۔علاقہ کےعلماء واکابرسےملاقاتیں کرائیں۔اسی موقعہ پر پانولی میں قاری عبدالحمیدصاحب مرحوم سےملاقات ہوئی۔اس وقت وہاں کےشیخ الحدیث مولاناالیاس بھی اللہ کوپیارےہوگئے۔کاپودرہ میں حضرت مفتی عبداللہ صاحب کاپودروی کےیہاں بھی حاضری ہوئی۔

مفتی عبداللہ ہانسوٹ سےبھی مفتی سلیم صاحب نےمیراذکرکیاتھا۔وہ رویدراہی کےرہنےوالےاورمفتی سلیم صاحب کےدوستوں میں تھے۔مفتی عبداللہ صاحب گوکہ خودکہیں سفرپرتھےمگراپنےادارہ کےزیارت کی انہوں نےدعوت دی ۔قاری عبدالحمیدصاحب نےاپنی گاڑی سےمجھےہانسوٹ پہونچوایا۔اس وقت قاری عبدالحمیدصاحب کی گجرات میں طوطی بولتی تھی ۔اورمفتی عبداللہ صاحب ابھی ترقی کی منزل کی طرف گامزن تھے۔ان کےمدرسہ کاایک حصہ بن چکاتھا۔مسجدزیرتعمیرتھی۔ جس پرخوبصورت نقاشیاں کی جارہی تھیں۔طلبہ واساتذہ کسی ہال میں یامدرسہ کےصحن میں نمازباجماعت اداکرتےتھے۔مدرسہ میں ایک روم کامہمان خانہ تھا۔جوانتہائی سہولتوں سےآراستہ تھا۔اسی مہمان خانہ میں مجھےٹھہرایاگیا۔وہاں کی پرتکلف ضیافت اورشانداراکرام کےنقوش آج بھی میرےدل پرثبت ہیں ۔مغرب کی نمازصحن میں اداکی گئی۔قریب بیس پچیس منٹ پہلےسےتلاوت کاریکارڈلاوڈاسپیکرسےنشرکیاجانےلگا۔تمام طلبہ خاموش بیٹھےتھے۔انتہائی حسین اورنورانی سماں ۔میرےلیےبالکل نیاتجربہ۔مغرب کےبعدایک بڑےہال میں طلبہ کےدرمیان مجھے خطاب کاحکم ملا۔اوراس کی تعمیل کی گئی۔عشاکےبعدہانسوٹھ شہر کی جامع مسجدمیں بھی تقریر کاموقعہ ملا۔غالباشب برات کاموقعہ تھااوراسی مناسبت سےکچھ عرض کیاگیا۔دوسرےدن صبح کتب خانہ کی زیارت ہوئی ۔اورتمام درسگاہوں کی بھی سیرکرائی گئی ۔دفترمیں دوطالب علم میرےسامنےپیش کیےگیےجوقرآن کریم کوآگےاورپیچھےدونوں طرف سےیکساں طورپرپڑھ سکتےتھے۔جس کاانہوں نےعملی مظاہرہ کیا۔میرےلیےیہاں کی ہرچیزحیرت انگیزتھی۔

یہ اس وقت کی بات ہےجب ادارہ اپنےسفر کی ایک منزل پرتھا۔اس کےبعد توماشاء اللہ جامعہ مظہرسعادت ملک کےممتازاداروں میں شمارکیاگیا۔اوراس کےبانی مفتی عبداللہ صاحب چوٹی کےعلماء کی صف اول میں پہونچ گئے۔میری بدنصیبی کہ کبھی ان کی زیارت نہ ہوسکی۔ان کے دکھ سکھ کی سب داستانیں غائبانہ سنتارہا۔یہاں تک کہ آج یہ کلمات تعزیت بھی ان کےجانےکےبعدلکھنےکاموقعہ ملا ۔

دیکھ آکرمیرےاجڑےہوئےدل کی رونق

کیسی بستی تری یادوں کی بسارکھی ہے۔

اللہ پاک ان کےساتھ خصوصی کرم کامعاملہ فرمائے۔ جواررحمت میں جگہ نصیب کرےاورجملہ پسماندگان کوصبرجمیل عطاکرےآمین۔اخترامام عادل قاسمی

Comments are closed.