تجدید اور تجدد کا فرق سمجھنا ضروری ہے ۲/۱ محمد قمرالزماں ندوی

تجدید اور تجدد کا فرق سمجھنا ضروری ہے
۲/۱
*محمد قمرالزماں ندوی*
*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*
مشاجرات صحابہ پر ہمیشہ علماء سلف نے گفتگو کرنے میں احتیاط و اعتدال اور توازن سے کام لیا، صحابہ کرام میں جو باہمی اختلافات ہوئے، انکی اجتھادی غلطی بتاتے ہوئے کسی فریق کو حق پر مانا اور کسی فریق کے اقدام کو غیر بہتر اور غیر ضروری قرار دیا اور ان کے اس اقدام کو اجتھادی غلطی قرار دیا، ان واقعات اور لڑائیوں کی ایسی تاویل کی کہ کسی کی شان صحابیت پر کوئی فرق نہ آنے دیا اور سارے صحابی کو رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ کا مصداق قرار دیا۔۔ اہل علم کو یہ مشورہ دیا کہ وہ ان موضوعات کو نہ چھڑیں اور عوام الناس میں تو قطعا ان موضوعات پر گفتگو نہ کریں۔ واقعہ جنگ جمل اور جنگ صفین، واقعہ تحکیم اس جیسے واقعات کا تذکرہ کرکے خود فیصل اور حکم بننا انتہائی نادانی کی بات ہوگی۔ لیکن افسوس کہ علماء کرام میں ایک طبقہ محرم الحرام کا مہینہ آتے ہی ان موضوعات پر بحث کرنا شروع کر دیتا ہے اور مشاجرات صحابہ میں فیصل اور حکم بننا شروع کر دیتا ہے۔ اور دونوں فریق دو انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ یہ شہرت اور نام و نمود کے بھوکے اس کو تجدیدی کام سمجھتے ہیں۔۔ ان نافہم اور کم فہم اہل علم اور مقررین کی تحریروں اور تقریروں کا نتیجہ یہ سامنے آنے لگا ہے، کہ اب عوام الناس کے ایک طبقے کا اعتماد اور عقیدت صحابہ کرام سے ختم ہوتی جارہی ہے، اور ان سے بدظن ہو رہے ہیں کہ جب وہ صحابی ہوکر باہم لڑتے اور جھگڑتے تھے، ایک دوسرے کو سب و شتم کرتے تھے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، حکومت و اقتدار کے لیے سب کچھ کر جاتے تھے، تو ہم لوگ ایسا کر رہے ہیں تو کون سی بڑی بات ہے۔۔۔۔؟ کتنا نازک اور مشکل وقت آگیا ہے؟ ان کی منفی تقریروں اور تحریروں سے، اب تو صحابہ کرام سے بعض لوگوں کا اعتبار و اعتماد اٹھتا جا رہا ہے اور ان پر انگشت نمائی ہو رہی ہے۔۔ اللہ تعالی ایسی صلاحیت ایسا علم اور ایسی تحقیق کسی کو نہ دے، جس سے دین پر سے اور امت کے سب سے دین دار طبقہ سے ، جو امت کے لیے نشان راہ،اور مشعل راہ ہیں, اعتماد اٹھ جائے۔ ایسی صلاحیت اور تحقیق جس سے گمراہی پھیلے انسان کو دعا کرنی چاہیے کہ اس علم و تحقیق سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ دنیا سے اٹھا لے اور اپنے پاس بلا لے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی شان صحابہ میں گستاخی کی اور نازیبا کلمات کہے، اللہ تعالی نے دنیا میں ہی انہیں ذلیل و رسوا کر دیا ہے۔ اور ایسے لوگوں کی تائید کرنے والے بھی بچ نہیں پائے ہیں۔۔۔۔
اس وقت ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ایسے لوگوں کو کنڈم کریں، کیفر کردار تک پہنچائیں، ان کی تحریروں اور تقریروں کو سننے اور پڑھنے سے بچیں بلکہ ہم تو کہیں گے اور درخواست کریں گے سارے ہی لوگ ان کی تحریروں اور تقریروں کو فورا ڈیلٹ کریں اور کسی کو ہرگز فاروڈ نہ کریں اور ایسے لوگوں کے لیے خدا سے ہدایت کی دعا کریں۔۔۔ ہمارے بہت سے احباب تجدید اور تجدد کے فرق کو نہیں سمجھتے اور جو لوگ غلط اور بے بنیاد تحقیق کرکے امت کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں اور امت کو گمراہی کی طرف لے جا رہے ہیں ان کو بھی مصلح قوم اور مجدد ملت کا لقب دیتے ہیں،انکی تائید کرتے ہیں، انہیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور ایسے لوگوں کی تائید، رفاقت اور معاونت سے بچنا چاہیے۔ م ق ن
*تجدید* یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور باب تفعیل کے وزن پر مصدر ہے ۔ اس کے معنی ہیں کسی چیز کو جدید کردینا، نیا کر دینا ۔ یا نیا بنا دینا ۔ لغت کے اعتبار سے *تجدید* کے معنی یہ ہوا کہ کوئی چیز پہلے سے ایک حالت پر موجود تھی پھر اس پر ایسی حالت آئی جس نے اس کی شکل بدل دی اور اس کی تازگی ختم کردے اب کوئی اس بدلی اور بگڑی ہوئ چیز سے اس کا بگاڑ ختم کردے اور اس کو سابقہ حالت میں لوٹا دے جو اس کی اصل صورت تھی تو اس عمل کو *تجدید* کہا جاتا ہے بالفاظ دیگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی چیز پر بعد میں پیش آنے والے برے اثرات و آثار کو ختم کرکے اس کو اپنی پہلی صورت اور شکل پر لے آنا *تجدید* ہے ۔
یہ تو *تجدید* کا لغوی مفہوم ہے جہاں تک شریعت میں اس کا مفہوم اور مطلب ہے تو علماء نے *تجدید* کی تعریف اس طرح کی بے :
قرآن و سنت کی جو تعلیمات مٹ چکی ہوں ان کو دوبارہ زندہ کرنا ،ان کو لوگوں کے درمیان عام کرنا اور لوگوں کو ان پر عمل کرنے کے لئے آمادہ کرنا یہ تجدید کہلاتا ہے جو شریعت میں مطلوب ہے اور اس کی اجازت دی گئی ہے بلکہ ترغیب دی گئی ہے ۔ بعض اہل علم سے *تجدید* کی تعریف یوں منقول ہے :
بدعات کو مٹانا اہل بدعت کی پہچان کرانا ان کے غلط اور منفی عقیدے پر جرح و نقد کرنا ۔اسلام سے جاہلیت کی جو باتیں جوڑ دی گئ ہوں ان کو الگ کرنا اور دوبارہ اسلام کو اس صورت میں پیش کرنا جس پر وہ *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں تھا ۔ غرض دین کے مٹے ہوئے نقوش کو ابھارنا اور ان کو زندہ کرنا ،ان کو بدعات اور دین میں پیدا کردہ نئ چیزوں سے محفوظ رکھنا اور زندگی کے نت نئے پیدا ہونے والے مسائل پر شرعی احکام کو منطبق کرنا *تجدید* ہے ۔ اور بقول علامہ ابن تیمیہ رح کسی چیز کی تجدید اس وقت ہوتی ہے جب اس کے آثار مٹ جاتے جائیں یعنی جب اسلام غریب اور اجنبی ہوجائے تو پھر اس کی *تجدید* ہوتی ہے ۔
*تجدید دین* کی اس اصطلاح کو جب ہمیں پڑھیں اور اس کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اس حقیقت کو بھی ذھن میں رکھیں کہ *تجدید* حقیقت میں دین کی نہیں، بلکہ تدین یا امت کے دین سے کمزور ہوتے ہوئے تعلق کی ہوتی ہے ،کیونکہ دین اپنی جگہ مکمل ہے ،اس کو تجدید کی ضرورت نہیں، دین کی کوئ مخصوص شکل جسے دین کہا جا رہا ہو ،اور وہ حقیقت میں دین نہ ہو ،اس کو اصل دین کی طرف لوٹانا، تجدیدی عمل کہلاتا ہے اس عمل کو انجام دینے والا مجدد کہلاتا ہے،جس کی جمع مجددین ہے ۔ ( مستفاد از سہ ماہی بحث و نظر جولائی ۔ دسمبر ۲۰۱۷ء مضمون نگار محمد اعظم ندوی)
یہاں تجدید اور تجدد کا فرق سمجھنا بھی ضروری کیونکہ تجدید ایک دینی اور شرعی عمل ہے اس کے مقابلہ میں *تجدد* ایک فتنہ اور دین میں تحریف ہے ۔ تجدید دین میں شامل حشو و زائد کو دور کرنے کا نام ہے اور تجدد دین و شریعت میں معنوی تحریف و تصحیف کی ایک شکل ہے ،یعنی عقل کا پرستار بن کر ،اتباع نفس کا شکار ہوکر اعداء اسلام سے متاثر ہو کر یا حکومت وقت کے دباؤ کا اثر قبول کرکے شریعت کے مفاہیم میں تبدیلیاں پیدا کرنا،یہ ایک طرح کا نفاق ہے جس کے حاملین امت کی صفوں میں ہمیشہ موجود رہے ہیں اور آج تو اس کثرت سے ہیں کہ الامان و الحفیظ
*مولانا زاہد الراشدی صاحب* *تجدید* اور *تجدد* کا فرق واضح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں؛:
*یہ بات حقیقت ہے کہ جو شخص بھی علم و فکر اور تحقیق و مطالعہ کے وسیع ماحول میں جائے گا وہ دو چار نئی باتیں ضرور کرے گا، یہ فطری بات ہے، علم ایک سمندر ہے اور سمندر میں جتنی بار بھی غوطہ لگائیں گے کوئی نہ کوئی نئی چیز ضرور ہاتھ آئے گی۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسی نئی بات قابل قبول ہوگی اور کونسی رد کر دی جائے گی۔ یہ سوال مجھ سے ایک اور انداز میں کیا گیا تھا کہ تجدید اور تجدد میں کیا فرق ہے؟ کیونکہ نئی باتیں مجدد بھی کرتا ہے اور متجدد بھی کرتا ہے، دونوں میں حد فاصل کیا ہوگی؟ میں نے گزارش کی کہ تفردات تو تحقیق و مطالعہ کا فطری اور لازمی نتیجہ ہوتے ہیں ان سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا، آپ اگر ماضی کے ارباب علم و دانش اور اصحاب فضل و کمال کے تفردات شمار کرنا چاہیں تو تھک جائیں گے مگر ان کا احاطہ نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے تجدید اور تجدد کے فرق کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم ’’ارتقاء‘‘ کے مفہوم کو سمجھیں کیونکہ تجدید فقہی ارتقاء کا نام ہے*۔
*علم و فن کے کسی بھی شعبہ اور دائرہ میں آپ اب تک ہونے والے کام کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی بنیاد پر کام کو آگے بڑھائیں اور اسی کے تسلسل کو جاری رکھیں تو یہ ارتقاء کہلائے گا۔ لیکن اگر اب تک ہونے والے کام کی نفی کرتے ہوئے الٹی زقند لگا کر زیرو پوائنٹ پر واپس جا کھڑے ہوں گے تو یہ ارتقاء نہیں رجعت قہقرٰی ہوگی، کیونکہ ارتقاء آگے بڑھنے کو کہتے ہیں، ریورس گیئر لگا دینا ارتقاء نہیں ہوتا۔ اسی طرح فقہ و شریعت میں اب تک ہونے والے کام کو تسلیم کرتے ہوئے اور اس کا احترام کرتے ہوئے آج کی ضروریات کو سامنے رکھ کر آپ اس کے تسلسل کو آگے بڑھائیں تو یہ تجدید کا کام ہوگا، لیکن اگر ماضی کے کام کی نفی اور تحقیر کر کے زیرو پوائنٹ سے کام دوبارہ شروع کرنا چاہیں تو یہ تجدد ہوگا، اس فرق کو سامنے رکھ لیا جائے تو میرے خیال میں تجدید اور تجدد کے درمیان حد بندی کی جا سکتی ہے* … (از مولانا زاہد الراشدی صاحب)
خلاصہ یہ ہے کہ تجدید ایک مثبت اور شرعی تعبیر و اصطلاح ہے اور دین میں مطلوب ہے جب کہ تجدد ایک منفی اصطلاح ہے اور شریعت میں ایک ناپسندیدہ فعل ہے ۔
Comments are closed.