کیا مال و اولاد فتنہ ہیں؟

 

مولانا محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ

9506600725

 

قرآن مجید میں سورہ انفال آیت نمبر ۲۸/ اور سورہ تغابن آیت نمبر 15/ میں مال و اولاد کو فتنہ کہا گیا ہے *انما اموالکم و اولادم فتنة* کیا مال و اولاد سچ مچ انسان کے لئے فتنہ ہے؟ یہاں *فتنہ* سے کیا مراد ہے؟ کیا اردو زبان میں *فتنہ* کا جو مفہوم ہے وہی مراد ہے یا عربی زبان میں *فتنہ* کا کوئی خاص مفہوم ،تعبیر اور مطلب ہے ؟ آئیے آج ہم قارئین کی خدمت میں مال و دولت اور اولاد کے *فتنہ* ہونے کا صحیح مفہوم اور مطلب سلف صالحین کی تشریح اور بیان کی روشنی میں پیش کرتے ہیں ۔

یقینا قرآن مجید میں مال و اولاد کو فتنہ کہا گیا ہے : *و اعلمواانما اموالکم و اولادکم فتنة و اللہ عندہ اجر عظیم*( ۲۸ / انفال) اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد حقیقت میں سامان آزمائش ہیں اور اللہ کے پاس اجر دینے کے لئے بہت کچھ ہے ۔

*لیکن* یہ بات ذھن میں رہے کہ یہاں *فتنہ* ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مال و اولاد کو چھوڑ دینا چاہیے اور اس سے علیحدہ اور کنارہ کش ہو جانا چاہئیے بلکہ *فتنہ* کے معنی عربی زبان میں امتحان و آزمائش کے ہیں ،علامہ ابن کثیر رح فرماتے ہیں *مال و اولاد تمہارے لئے امتحان و آزمائش کے باعث ہیں اور اللہ تعالی دیکھنا چاہتا ہے کہ تم ان پر شکر ادا کرتے ہو یا نہیں؟ *ای اختبار و امتحان منه لکم*

*فتنہ* کے معنی امتحان کے بھی آتے ہیں اور عذاب کے بھی اور ایسی چیزوں کو بھی *فتنہ* کہا جاتا ہے جو عذاب کا سبب اور ذریعہ بنیں ۔ *قرآن مجید* کی مختلف آیتوں میں ان تینوں معنی کے لئے لفظ *فتنہ* استعمال ہوا ہے ۔ مذکورہ آیت کریمہ میں تینوں معنی کی گنجائش ہے، بعض اوقات مال و اولاد خود بھی انسان کے لئے دنیا ہی میں وبال جان بن جاتے ہیں اور ان کے سب غفلت و معصیت میں مبتلا ہوکر سبب عذاب بن جانا تو بالکل ظاہر ہے ۔ اول یہ کہ مال و اولاد کے ذریعہ امتحان لینا مقصود ہے کہ یہ چیزیں ہمارے انعامات ہیں ۔ تم انعام لے کر شکر گزار اور اطاعت شعار بنتے ہو یا نا شکرے اور نافرمان ۔ دوسرے اور تیسرے معنی اور مفہوم یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ مال اور اولاد کی محبت میں مبتلا ہوکر اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا تو یہی مال و دولت اور اولاد تمہارے لئے عذاب بن جائیں گے ۔ بعض اوقات تو دنیا ہی میں یہ چیزیں انسان کو سخت مصیبتوں میں مبتلا کر دیتی ہیں اور دنیا ہی میں مال و اولاد کو وہ عذاب محسوس کرنے لگتے ہیں، ورنہ یہ تو لازمی ہے کہ دنیا میں جو مال اللہ تعالی کے احکام کے خلاف کمایا گیا یا خرچ کیا گیا وہ مال ہی آخرت میں اس کے لئے سانپ بچھو اور آگ میں داغ دینے کا ذریعہ بن جائے گا ۔ جیسا کہ *قرآن مجید* کی متعدد آیات اور بے شمار روایات *حدیث* میں اس کی تصریحات موجود ہیں ۔ اور تیسرے معنی یہ کہ یہ چیزیں سبب عذاب بن جائیں یہ تو ظاہر ہے ہی کہ جب یہ چیزیں اللہ تعالی سے غفلت اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کا ذریعہ اور سبب بنیں تو عذاب کا سبب بن گئیں ۔

آخر آیت میں یہ فرمایا گیا کہ *و اللہ عندہ اجر عظیم* یعنی یہ بھی سمجھ لو کہ جو شخص اللہ اور رسول کے احکام کی تعمیل میں مال و اولاد کی محبت سے مغلوب نہ ہو، اس کے لئے اللہ تعالی کے پاس بڑا اجر اور انعام ہے ۔ ( مستفاد معارف القرآن تفسیر سورئہ انفال)

*مفسرین* نے اس آیت کے مفہوم میں لکھا ہے کہ :

۰۰انسان کے اخلاص ایمانی میں جو چیز بالعموم خلل ڈالتی ہے اور جس کی وجہ سے انسان اکثر منافقت ،غداری اور خیانت میں مبتلا ہوتا ہے، وہ اپنے مالی مفاد اور اپنی اولاد کے مفاد سے اس کی حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی ہوتی ہے ۔ اسی لئے فرمایا کہ یہ مال اور اولاد جن کی محبت میں گرفتار ہو کر تم عموما راستی (سچائی) سے ہٹ جاتے ہو ،در اصل یہ دنیا کی امتحان گاہ ہیں تمہارے لئے سامان آزمائش ہیں ۔ جسے تم بیٹا اور بیٹی کہتے ہو حقیقت کی زبان میں وہ در اصل امتحان کا ایک پرچہ ہے ۔ اور جسے تم جائداد یا کاروبار کہتے ہو وہ بھی درحقیقت ایک دوسرا پرچئہ امتحان ہے ۔ یہ چیزیں تمہارے حوالہ اس لئے کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے تمہیں جانچ کر دیکھا جائے کہ تم کہاں تک حقوق و حدود (فرائض و ذمہ داریوں) کا لحاظ کرتے ہو ،کہاں تک ذمہ داریوں کا بوجھ لادے ہوئے جذبات کی کشش کے باوجود راہ راست پر چلتے ہو اور کہاں تک اپنے نفس کو جو ان دنیوی چیزوں کی محبت میں اسیر ہوتا ہے ،اس طرح قابو میں رکھتے ہو کہ پوری طرح بندئہ حق بھی بنے رہو اور ان چیزوں کے حقوق اس حد تک بھی ادا کرتے رہو جس حد تک حضرت حق ( اللہ تعالی ) نے خود ان کا استحقاق مقرر کیا ہے۰۰ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*و اعلمواانما اموالکم و اولادکم فتنة و اللہ عندہ اجر عظیم*

اور جان کہ بیشک تمہارے مال اور اولاد خرابی ڈالنے والے ہیں اور یہ کہ اللہ کے پاس بڑا اجر و ثواب ہے ۔

مذکورہ آیت کا مضمون تو تمام مسلمانوں کو عام اور شامل ہے ،سارے مسلمانوں کو خطاب کیا گیا ہے اور سب کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ مال اور اولاد آزمائش اور امتحان کا ذریعہ اور سبب ہیں ۔ مگر اس واقعہ کا شان نزول ایک خاص واقعہ اور پس من منظر ہے ،اکثر مفسرین کے نزدیک یہ واقعہ *حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ* سے متعلق ہے جو *غزوئہ بنو قریظہ* کے موقع پر پیش آیا کہ *آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم* اور صحابہ کرام نے *بنو قریظہ* کے قلعہ کا اکیس روز تک محاصرہ جاری رکھا، جس سے عاجز ہوکر انہوں نے وطن چھوڑ کر *ملک شام* چلے جانے کی درخواست کی آپ نے ان کی شرارتوں کے پیش نظر اس کو قبول نہیں فرمایا بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ صلح کی صرف یہ صورت ہے کہ *سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ* تمہارے بارے میں جو کچھ فیصلہ کریں، اس پر راضی ہو جاؤ ۔ انہوں نے درخواست کی کہ *سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ* کے بجائے ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کو یہ کام سپرد کیا جائے ۔ کیونکہ *حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ* کے اہل و عیال اور جائداد بنو قریظہ میں تھے ،ان سے یہ خیال تھا کہ وہ ہمارے معاملہ میں رعایت کریں گے ۔ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے ان کی درخواست پر ابو لبابہ کو بھیج دیا ۔ بنو قریظہ کے سب مرد و عورت ان کے گرد جمع ہو کر رونے گڑگڑانے لگے اور یہ پوچھا کہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اتر آئیں تو کیا ہمارے معاملہ میں *وہ* کچھ نرمی فرمائیں گے ۔ *ابو لبابہ* کو معلوم تھا کہ ان کے معاملے میں نرمی برتنے کی رائے نہیں ہے ۔ *انہوں* نے کچھ ان لوگوں کی گریہ و زاری اور رونے دھونے سے اور کچھ اپنے اہل و عیال کی محبت سے متاثر ہوکر اپنے گلے پر تلوار کی طرح ہاتھ پھیر کر اشارہ سے بتلا دیا کہ ذبح کئے جاؤ گے ۔ گویا اس طرح *آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم* کا راز اور بھید فاش کر دیا ۔

مال و اولاد کی محبت میں یہ کام کر تو گزرے ۔ مگر فورا تنبہ ہوا کہ میں نے *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* سے خیانت کی ۔ جب واپس ہوئے تو اس درجہ ندامت سوار ہوئی کہ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* کی خدمت میں لوٹنے کے بجائے سیدھے *مسجد* میں پہنچے اور *مسجد نبوی* کے ایک ستون کے ساتھ اپنے کو باندھ دیا اور قسم کھائی کہ جب تک میری توبہ قبول نہ ہوگی، اسی طرح بندھا رہوں گا چاہے اسی حالت میں موت آجائے ۔ چناچہ سات روز مکمل اسی طرح بندھے کھڑے رہے، ان کی بیوی اور لڑکی نگہداشت کرتی تھیں ،انسانی ضرورت کے وقت اور نماز کے وقت کھول دیتی اور فارغ ہونے کے بعد پھر باندھ دیتی تھیں ،کھانے پینے کے پاس نہ جاتے تھے یہاں تک کہ غشی و بیہوشی طاری ہو جاتی تھی ۔

*رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم* کو جب اول اس کی اطلاع ملی تو فرمایا اگر وہ اول ہی میرے پاس آجاتے تو میں ان کے لئے استغفار کرتا اور توبہ قبول ہوجاتی، اب جب کے وہ یہ کام کر گزرے تو اب قبولیت توبہ ہونے کا انتظار ہی کرنا ہے ۔

چنانچہ سات روز کے بعد آخر شب میں آپ پر یہ آیتیں ان کی توبہ قبول ہونے کے متعلق نازل ہوئیں بعض حضرات نے ان کو کھولنا چاہا مگر انہوں نے کہا جب تک خود *آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم* مجھے نہیں کھولیں گے ،میں کھلنا اور بندھن سے نکلنا پسند نہیں کروں گا ۔ چنانچہ جب *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* صبح کی نماز کے وقت مسجد نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تشریف لائے تو آپ نے اپنے دست مبارک سے ان کو کھولا ۔ آیت مذکورہ میں جو خیانت کرنے اور مال و اولاد کی محبت سے مغلوب ہونے کی ممانعت کا ذکر آیا ہے اس کا اصل سبب یہ واقعہ ہے ( و اللہ اعلم و علمہ اتم) ( مستفاد معارف القرآن تفسیر سورئہ انفال )

یہ حقیقت ہے کہ مال و اولاد انسان کے لئے فتنہ اور امتحان و آزمائش ہیں، مال و اولاد کی محبت میں مغلوب ہو کر اکثر انسان شاہ راہ عدل اور مقام راستی سے ہٹ جاتا ہے ،اکثر گناہوں اور معصیتوں میں خصوصا حرام اور مشکوک و مشتبہ کمائی میں ان ہی کی وجہ سے انسان مبتلا ہوتا ہے ،ایک حدیث میں ہے کہ روز قیامت بعض اشخاص کو بلایا جائے گا اس کو دیکھ کر لوگ کہیں گے :-

اکل عیاله حسناته یعنی اس کی نیکیوں کو اس کے اہل و عیال نے کھا لیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ *آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم* نے اولاد کے بارے میں فرمایا : *مبخلة مجبنة* یعنی یہ بخل اور جبن یعنی نامردی اور کمزوری کے اسباب ہیں ۔ ان کی محبت کی وجہ سے آدمی *اللہ* کی راہ میں مال خرچ کرنے سے رکتا ہے ،ان ہی کی محبت کی وجہ سے جہاد اور کار خیر میں شرکت سے رہ جاتا ہے ۔

*حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ* سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* نے فرمایا : *الویل کل الویل لمن ترک عیاله بخیر و قدم علی ربه بشر* ( مسند الشھاب القضاعی جلد ۲/ صفحہ ۲۶ رقم الحدیث ۳۰۴)

یعنی کامل تباہی و بربادی ہے اس شخص کے لئے جس نے موت کے وقت اپنے عیال کو اچھی حالت میں چھوڑا ،اور خود برے حال میں اپنے رب کے پاس پہنچا ۔

بعض سلف صالحین کا قول ہے *العیال سوس الطاعات* یعنی عیال و اولاد اور بچے انسان کی نیکیوں کے لئے گھن ہے ۔ جیسے گھن غلہ کو کھا جاتا ہے یہ اس کی نیکیوں کو کھا جاتے ہیں ۔ ( مستفاد معارف القرآن تفسیر سورئہ تغابن)

آج کے زمانہ کا سب سے زیادہ مہلک مرض ،بیماری اور بیگاڑ و کمزوی جس میں زیادہ تر لوگ مبتلا ہیں

وہ حب مال و زر اور حب اولاد کی وہ شکل اور صورت ہے، جس میں انسان اپنی اولاد کی خاطر اور دنیا کی بے جا حرص و ہوس کی خاطر اپنی آخرت تباہ کر رہا ہے ۔ یہ بلا شبہ بڑی محرومی ہے کہ دوسروں کی دنیا بنانے کے لئے اپنی آخرت تباہ کر لے ۔ مزید یہ کہ یہی اہل و عیال جن کو آدمی اپنا سب کچھ دے دیتا ہے ،وہ موت کے بعد اس سے اس طرح جدا ہو جاتے ہیں کہ دوبارہ اس کو کبھی نہیں ملتے ۔

Comments are closed.