دینی مدارس کا تعلیمی اورانتظامی سنٹرلائزیشن

 

 

مفتی احمدنادرالقاسمی

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نئی دہلی

 

بھارت دستوری لحاظ سے ایک جمہوری ملک ہے۔جہاں کا تعلیمی اورسیاسی نظام سیکولر ۔یعنی غیر مذھبی ہے۔ اس جمہوری نظام میں موجود پچیس سے تیس کڑور کی مسلم آبادی کے دین وایمان کی بقاکے لئیے مدارس دینیہ کاقیام ضروری بھی ہے۔اوریہ اس کی ناگزیرضرورت بھی ہے۔ کیونکہ مدارس دینیہ کے بغیر نہ تو مساجد کا عباداتی نظام چل سکتاہے۔اورنہ ہی اسلامی اورملی تہذیب وثقافت باقی رہ سکتی ہے۔اس لئے مدارس دینیہ کی حیثیت اس ملک میں ایک جاندارکے لئیے زندگی کی ضمانت دینےوالے خون کی سی ہے۔جس طرح خون کے بغیر کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا۔اسی طرح اس ملک میں اسلامی ثقافت وروایات اورنظام مساجد بغیر مدارس کے زندہ نہیں رہ سکتے۔۔اسی ضرورت کے ادراک کاہی نتیجہ ہے کہ آپ پورے ملک کے چپہ چپہ میں۔دینی مدارس ومکاتب کا بچھاہوا جال آپ کو نظر آرہاہے۔ اورآنا بھی چاہئیے۔ کیونکہ یہی ہماری شناخت اورایمانی وملی زندگی کی علامت ہے۔ ملک میں انگریزی استعماریت کے بعد سے آج تک نہ جانے کتنی کوششیں لوگوں نے امت کارشتہ دینی مدارس سے کاٹنے کی کیں۔مگر الحمدللہ اولہ وآخرہ۔امت کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔اوردینی مدارس اس طوفان بلاخیز کے آگے ڈٹے ہیں اور اپنا مشن جاری رکھے ہوئیے ہیں۔ دینی مدارس کی مذکورہ اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئیے ۔میں اس طرف توجہ دلانا ضروری خیال کرتاہوں۔اوروہ بھی اس وجہ سے کہ آج یوپی۔اتراکھنڈ اورآسام میں جس طرح مدارس کے خلاف ریاستی سرکاریں ماحول بنارہی ہیں۔ ان اداروں کو کاغذی طورپر غیر قانونی قراردیکر اورمسلمانوں کے اقلیتی تعلیمی اورآئینی حقوق کو نظرانداز کرکےانھیں بند اوربلڈوزکیاجارہاہے۔یہ بڑی تشویش کی بات ہے۔اورایسالگتاہے کہ مسلمانان ہند کو پھرکسی بڑے امتحان کا مرحلہ درپیش ہے۔یہ تو اللہ ہی کومعلوم کہ مستقبل میں کیاہوگا۔مگر یہ محسوس ہورہاہے کہ: ”آگ ہے۔ اولاد ابراہیم ہے۔ نمرودہے۔ کیاکسی کوپھرکسی کا امتحاں مقصود ہے“ ۔ موجودہ حالات بہت کچھ اشارے دے رہےہیں۔بہت سے اندیشے ہیں۔ مدارس پر لٹکتی تلواریں مزید تیزسے تیزترہوتی جارہی ہیں۔ملک کا آئین بالکلیہ تبدیل کردئیے جانے کے قریب ہے۔اوراسے بظاہر روک پانا کسی کے بس میں بھی نہیں لگتا۔وقف ترمیمی جیسے غیر آئینی اور غیردستوری ایکٹ کے خلاف دائر مقدمات کے فیصلے پرکیسا خوف کاسایہ ہے کہ اسے محفوظ رکھنا پڑاہے۔۔ گویا اب مسلمانوں کی تہذیبی اورملی شناخت کی علامت اوقافی جائدادوں کو ختم اورپڑپ لئیے جانے کا دستور بن ہی چکا۔ ۔ایک ایک کرکے مسلمانوں کے عائلی حقوق قانون سازی کے ذریعہ ختم کئیے جارہے ہیں۔ اب یکساں سول کوڈ میں بہت کچھ باقی نہیں رہ گیاہے۔ اوراب آخری امید ملت کی مدارس ہی بچے ہیں۔جن کو اپنوں کی طرف سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔اورانھیں عصری اسکولوں میں تبدیل کردئیے جانے کی بات کہی جارہی ہے۔یہی نہیں۔ بلکہ ہمارے خوف کاعالم یہ ہے کہ اب تواس پر بعض علماء کی طرف سے بھی تائیدی بیانات اوررجحانات سامنے آنے لگے ہیں۔ اورحکومت تو سب سے پہلے ان مدارس پر تیشہ چلانے کے لئیے تیار ہے۔کیونکہ پورے بھارت کو لات ومنات اورمشرکانہ تہذیب میں رنگ دینے میں سب سے پڑی رکاوٹ۔ ان کے نزدیک مدارس ومکاتب۔مساجد اوراوقافی جائدادیں ہیں۔ *آل انڈیا تحفظ مدارس فیڈریشن* ایسے حالات میں متحدہ حکمت عملی اختیار کیاجاناہی ضروری معلوم ہوتاہے۔ورنہ رفتہ رفتہ بھارت کی تمام ریاستوں کے مدارس کو قانونی داؤ پینچ کے ذریعہ ختم کیاجائیے گا۔اورہماری تنظیموں کے پاس سوائے افسوس اور قابل افسوس۔اورغیرآئینی۔جیسے اخباری سرخیاں چھپوادینے کے اورکچھ نہیں ہوگا۔اس لئیے پہلے ”مدارس دینیہ کا تعلیمی اورانتظامی سنٹرلائزیشن اور تمام دینی درسگاہوں کا خواہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں ایک مرکزیت کے تحت یکجا ہونا “ ضروری ہے۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر کے مدارس کا کسی ایک مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے بڑے مدارس کے ماتحت آنا بھی منظور نہیں ہوگا۔اس لئیے پہلے ریاستی بنیاد پر تمام مدارس اپنے اپنے مکتب فکر کی بڑی دینی درسگاہ کی قیادت میں مضبوط” وفاق “ بنائیں اوراس کی ما تحتی میں متحدہوں۔اورپھروہ بڑے مدارس ملکر اپنا ملک گیر ”مدارس فیڈریشن بنائیں۔اوراس کے تحت تمام مدارس کے تعلیمی اورانتظامی معاملات کو سنٹرلائزکریں۔اورمتحدہوکر مدارس کے خلاف اٹھنے والی سازشوں کامقابلہ بھی کریں۔تعلیمی پالیسی بھی بنائیں۔ کیف مااتفق نصاب بھی تیار کریں۔اورموجودہ دنیا کے جائزتقاضوں کو نظرانداز کرنے کی بجائے ازکار رفتہ موضوعات کی جگہ مفید علمی مواد کواپنی تعلیم کاحصہ بنائیں۔اورانتظامی امور کی بھی نگرانی کریں۔اورچھوٹے مدارس کو اپنے انڈرمیں لیکر ان کی کفالت مرکزکے تحت کریں۔تاکہ یہ جوصورت حال برصغیرہندوپاک بنگلہ دیش اوربرما وغیرہ کی بن گئی ہےکہ پورے سال بڑے سے لیکر چھوٹے مدارس تک کے اساتذہ اورذمہ داران ملک میں شہر۔شہر اورملک ملک چندے کرتے پھرتےہیں۔اس سے بھی نجات ملے گی ۔اہل علم کی صلاحتیں بھی تعلیم کے فروغ میں صرف ہوں گی۔اورحکومت کالقمہ بننے سے افراد اورادارے دونوں محفوظ رہیں گے۔اوران کی حفاظت کا ملک گیر مستحکم پلیٹ فارم وجود میں آئے گا۔

Comments are closed.