کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ و جامعۃ النور یوسف گوڑہ
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
0091-9393128156
اس وقت امت مسلمہ بڑے ہی پرآشوب دور سے گذر رہی ہے، آج یہ امت اس قدر کمزور ، لاغر ، ناتواں اور بے وزن ہوگئی ہے جتنی اسلامی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی ، مشرق ومغرب کی ساری اسلام دشمن طاقتیں متحد ہوگئیں اور بیک زبان وبیک قالب ہو کر اسلام کو نشانہ بنا رہی ہیں، وہ منظم طریقہ پر متحدہ پلان کے ساتھ امت کے جسم کو ٹکڑے کرنے میں لگی ہیں، ان کی شب وروز کی محنت کا مقصد امت مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا، ان کے تانے بانے کو بھکیرنا، اور ان کی ہڈیاں توڑ کر انہیں اپاہج ولاغر بنا کر چھوڑ دینا ہے تاکہ وہ کبھی دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑی نہ ہوسکیں، اسی کے نتیجہ میں آج ساری دنیا کے اندر مسلمان جنگ وجدال کے شکار ہیں، ان کے ملکوں پر جنگ مسلط ہے، یا اس کے بادل منڈلا رہے ہیں، انہیں زبردستی جنگ وجدال میں گھسیٹا جارہا اور ان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان مسلم ملکوں کی آپسی خونریزی اور لڑائی جھگڑے کی وجہ سے ان کی طاقت کمزور ہوچکی ، ان کی معیشت کھوکھلی وتباہ ہوچکی، ان کی آواز دب گئی اور بے اثر ہوچکی ہے۔ ان کی ہوا اکھڑ چکی ہے۔ دنیا کی قوموں کے سامنے ان کا رعب ودبدبہ ہوا ہو چکا ہے۔ ان کی نہ کہیں عزت وعظمت ہے، نہ احترام ووقار، دنیا کا کوئی بھی ملک ان سے ڈرتا اورنہ انہیں خاطر میں لاتا ہے، اس کے برعکس وہ ہر کسی سے ڈرتے اور تھراتے ہیں، آج ساری دنیا میں مسلمانوں اور مسلم ملکوں اور ان کے حکمرانوں اور اسلامی شخصیات کا مذاق اڑایا جارہا اور انہیں کمزور وناتواں اور بھکاری وان پڑھ جاہل تصور کیا جارہا، انہیں عیاش ونفس پرست خیال کیا جارہا ہے، جو اپنی کرسی، اقتدار اور عیش وعشرت کیلئے یہودیت ونصرانیت کو بھی گلے لگا سکتے اور دین ومذہب کا کسی بھی قیمت پر سودا کرسکتے ہیں، ان کی اس نفسیات کو دشمنان اسلام سمجھ گئے ہیں، انہوں نے اقتدار کی بقاء کے لئے یہود ونصاری کی غلامی کا طوق وسلاسل اپنی گردن اور دست وپا میں ڈال لیا ہے جو ان کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے روبوٹ کا کام کررہے ہیں، اور ان کے حکم کے خلاف ایک حرف اپنی زبان سے نہیں نکال سکتے ہیں اور نہ ایک قدم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اسی لئے آج مسلمانوں کے محبوب وچہیتے رہبر ورہنما اور کائنات کے سردار خاتم الانبیاء والمرسلین صلعم کی شان میں بھی بڑی بے باکی کے ساتھ گستاخی کی جارہی ، اہانت آمیز خاکے اور کارٹون شائع کئے جارہے ‘ اشتعال انگیز ٹوئٹ کئے جارہے اور نعوذ باللہ ازواج مطہرات کی بھی بے حرمتی کی جارہی ہے کیونکہ دنیا کی قوموں کے درمیان مسلمانوں کا دبدبہ ختم ہوچکا اور ان کی نفس پرستی کا انہیں بخوبی اندازہ ہوچکا ہے ۔ ایک وقت تھا کہ قیصرو کسریٰ جیسی دنیا کی سپر پائور اور بڑی طاقتیں بھی ان کے نام سے لرزتے اور تھراتے تھے، مگر آج انہیں کوئی خاطر میں نہیں لا رہا، اسرائیل جیسا سازشی دہشت گردی سے کیا ڈر تاکہ یہ مسلم حکمراں ان سے لرزہ براندام ہیں اور دوسرے مسلم ملک کے خوف سے اپنے تحفظ کیلئے ان کی مدد مانگ رہے ہیں، اپنی جان بخشی کی ان سے بھیک مانگ رہے اور قبلہ اول بیت المقدس ومسجد اقصیٰ کا ان کے ساتھ سودا کررہے ہیں۔
یہ بات عیاں اور واضح ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی پستی وکمزوری اور ذلت ورسوائی کی بڑی وجہ مسلمانوں کا باہمی اختلاف وانتشار اور نزاع وافتراق ہے، امت مسلمہ اس وقت چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں اور راجواڑوں میں بٹی ہوئی ہے، آپسی رساکشی اور پھوٹ اس قدر شدید ہے کہ دوسرے کو دیکھنا گوارانہیں کرتے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے پورے ملکی سرمایہ کو لٹانے اور دشمنان اسلام یہود ونصاری کے حوالہ کرنے لئے بھی تیار ہیں، انہیں اخوت ایمانی کہیں نظر نہیں آتی، انہیں ہوس اقتدار ، عیش وعشرت اور نفس وانا پرستی نے اندھا کردیا ہے جس کی وجہ سے وہ اسلام اور اس کی تعلیمات سے سبق حاصل کرنے کے قابل باقی نہیں رہے ہیں۔
ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہوجا محبت کی زباں ہوجا
ہم اپنے ملک اور گرد وپیش پر ذرا نظر ڈالیں، ہماری حالت بھی عالم اسلام کی حالت سے مختلف نہیں ہے، اس ملک کے اندر ہمارے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے، وہ کسی مسلمان سے اوجھل نہیں ، کس منظم طریقہ سے ہمارے اسلامی تشخص کو مٹانے اور کفر وشرک میں جذب کرلینے یا صفحہ ہستی سے مٹانے کی منصوبہ بند کوشش ہورہی ہے ، طشت ازبام ہے، اور کھلے عام ہمارے خلاف محاذ کھول دیا گیا ہے، اور یہ سب کچھ حکومتی سطح پر ہورہا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے درمیان جوتیوں میں دال بٹ رہے ہیں، کہیں دیوبندی بریلوی کا جھگڑا ہے، کہیں مقلد وغیر مقلد اور اہلحدیث واہل قرآن کا نزاع ہے، تو کہیں وہابی وغیر وہابی کی بات ہے، کہیں شیعہ سنی کی لڑائی ہے تو کہیں مختلف اسلامی جماعتوں وتنظیموں وجمعیتوں کی چپقلش ہے، کوئی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے بظاہر تیار نہیں ہے، جبکہ ہم سب ایک کتاب ، ایک رسول کو ماننے والے، ایک قبلہ کی طرف رخ کرنے والے اور ایک حرم کی پاسبانی کا دعویٰ کرنے والے ہیں، مگر ہمارے اختلافات تھمنے کا نام نہیں لیتے اور حالات وواقعات ہمیں اب تک خواب غلفت سے بیدار کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اتحاد واتفاق کمزوروں کو بھی طاقتور بنا دیتا اور طاقتور کو عظیم طاقت بنا دیتا ہے، کسی بھی قوم کی عزت وسربلندی کا راز اسی اتحاد میں پنہا ہے، اگر کوئی قوم اس کے بغیر عزت اور قدر ومنزلت کی متلاشی ہوگی تو وہ گویا خوابوں کی دنیا میں رہنے وبسنے والی ہوگی، کیونکہ عزت وسربلندی اتحاد کے بغیر ممکن نہیں، اینٹ خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو، اگر الگ تھلگ اور جدا ہے تو بے وزن اور کمزور ہے، ہزارہا ایسے مضبوط اینٹ بھی اگر منتشر ہوں تو وہ کمزور ہے کوئی بھی اسے ادھر سے ادھر اٹھا کر پھینک سکتا اور اسے پٹخ پٹخ کر ریزہ ریزہ کرسکتا ہے، لیکن یہیں اینٹیں اگر دیوار میں چن دی جائیں اور ایک دوسرے سے مل جائیں تو اسے توڑنا آسان نہیں ، اسے جدا کرنا اور ریزہ ریزہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ، اسی کی طرف اللہ کے نبی صلعم نے اپنی اس حدیث میں اشارہ کیا ہے۔
ایک مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو تھامتا اور مضبوط کرتا ہے، پھر اسے عملی طور پر دکھاتے ہوئے آپ صلعم نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کرکے بتایا (متفق علیہ)
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ہوش کے ناخن لیں، خواب غفلت سے بیدار ہوں، اور غور کریں کہ کس طرح آئے دن ہمارے دین ومذہب کو منظم ومنصوبہ بند طریقہ پر نشانہ بنایا جارہا ، مذہب اسلام اور اس کی تعلیمات پر حملے کئے جارہے ہیں، دین اسلام اور اس کی مقدس ہستیوں کی توہین وگستاخی کی جارہی اور ہمارے درمیان اختلافات کو بھڑکانے کی کوشش کی جارہی ہے اور ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کیا جارہا ہے تاکہ ایک ایک کرکے ہمیں لقمہ بنایا جاسکے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں بار بارے متحد رہنے کی تاکید کی اور تفرقہ بندی سے سختی سے منع کیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو، اور پھوٹ نہ ڈالو ، اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو، جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے۔ (آل عمران :103)
آپس میں مت جھگڑو ورنہ ناکام ونامراد ہوجائوگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ (الانفال :46)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا : کہ شیطان انسان کا بھیڑیا ہے۔ بکریوں کے بھیڑیے کی طرح، یہ بھیڑیا اس بکری کو پکڑتا اور لقمہ بناتا ہے جو اپنے ریوڑ سے الگ اور دور ہوجائے ، خبر دار کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے جدا ہو، تمہارے اوپر لازم ہے کہ تم متحد اور جماعت کے ساتھ رہو۔ (مسند احمد)
علماء اسلام اور امت کے قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت مسلمہ کے عوام وخواص کو اتحاد واتفاق کی یاد دہانی کراتے رہیں، مسلکی اختلافات کو افتراق کا ذریعہ نہ بننے دیں، باہم الفت ومحبت اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی تلقین کریں، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور اسے کبھی ٹوٹنے نہ دیں۔
آج ہماری کمزوری وبے بسی اور بے وقعتی وزبوں حالی کی وجہ سازوسامان ، دولت وثروت اور اسلحہ وبارود کی کمی نہیں بلکہ اس کی وجہ ایمان ویقین کی کمی اور اتحاد واتفاق کا فقدان ہے، صحابہ کرام اور اسلاف امت سے بڑی بڑی طاقتیں ان کے ساز وسامان ، دولت وثروت اور اسلحہ وہتھیاروں سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ ان کے اتحاد واتفاق اور ایمان ویقین سے ڈرتے تھے، اسی لئے اہل کفر نے جب بھی ہم پر غلبہ پانا چاہا تو اس کی تدبیر یہی کی کہ ہمارے درمیان اختلافات پیدا کئے ، اور اسے خوب ہوا دیتے رہے، جس کے بعد ہمیں مغلوب کرنا ان کے لئے سہل ہوگیا۔
اندلس میں مسلمانوں نے 800 سال حکومت کی، مگر انہیں اس وقت زوال سے دو چار ہونا پڑا جب مسلمانوں نے اللہ کے کلام کو پس پشت ڈال دیا، فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے، اسلام کی بجائے وہ خاندانوں قومیتوں اور زبانوں پر فخر کرنے لگے، آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے، ایک مسلم سردار دوسرے کو دیکھنا پسند نہیں کرتا بلکہ ایک دوسرے کے خون کی ہولی کھیلنے کیلئے عیسائیوں سے مدد طلب کرنے لگے، نیتجہ یہ ہوا کہ دشمنان اسلام کے دل سے اسلام ومسلمانوں کا رعب ودبدبہ نکل گیا، اور وہ ان کے خلاف جری ہوگئے، پھر ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، اور کوئی ان کی چیرہ دسیوں سے نہیں بچ سکا۔اسی طرح عراق اور دوسری جگہوں پر ہوا، خود تاتاریوں کو بلانے اور دعوت دینے والے مسلمان ہی تھے، جو دوسرے مسلمان حکمراں کی سرکوبی کیلئے راہ ہمواری کررہے اور ان سے مدد طلب کررہے تھے۔
اس وقت اس وطن عزیز میں اسی طرح کی فضا بنائی جارہی ہے اور آپسی اختلافات کو اسی طرح ہوا دی جارہی ہے، کسی کو کھڑا کیا جارہا ہے، امام مہدی کا جانشین کے طور پر جو صحابہ کرام کو بھی نہیں بخش رہا اور ابوہریرہ جیسی عطم ہستی پر طعن کرکے پورے ذخیرہ حدیث کو مشکوک بنانے کی کوشش کررہا ہے، کوئی شعیہ سنی اختلافات کو ہوا دے رہا ہے، کوئی سینوں میںدیوبندی ، بریلوی، اور سلفی ووہابی کی راگ الاپ رہا ہے، کوئی قاسمی وندوی کی باتیں کررہا ہے، تو کوئی نظامی ورشادی کی صدائیں بلند کررہا ہے، گویا جانے انجانے میں اس طرح کی تحریر وتقریر کے ذریعہ ہم دشمنان اسلام کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔
خدا را اب تو ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیے، اب تو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنی چاہیے، اب تو ہمیں اپنے فروعی ومسلکی اختلافات کو تفرقہ وانتشار کا ذریعہ نہ بنانا چاہیے، اے کاش کہ ہم دشمنوں کی عیاریوں کو سمجھتے اس طرح کی باتوں میں الجھنے سے گریز کرتے، اور اسلام کے سپاہی کے طور پر جینے کا سلیقہ سیکھتے اور سب کے سب جسد واحد ہونے کا ثبوت دیتے۔
بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
Comments are closed.