ہمارے ساتھ جو دھوکہ ہوا ہے ہمارے واسطے اچھا ہوا ہے

ہمارے ساتھ جو دھوکہ ہوا ہے
ہمارے واسطے اچھا ہوا ہے

اسے دل سے گئے مدت ہوئی پر
ابھی تک آنکھ میں ٹھہرا ہوا ہے

مری آنکھوں کے دریا کے کنارے
تمہارا خواب بھی رکھا ہوا ہے

ترقی پر ترقی ہو رہی ہے
قلم جب سے ترا سودا ہوا ہے

تمہارے نام جو منسوب ہے یہ
یہی اک شعر تو سچا ہوا ہے

اسے آئینہ کیا میں نے دکھایا
بس اتنی بات پر روٹھا ہوا ہے

میں جس کی آنکھ کا تارا تھا کل تک
وہ مجھ سے آج اکتایا ہوا ہے

سنو یہ حسن خالی ہے وفا سے
مرا نزدیک سے دیکھا ہوا ہے

ضرورت کھینچ کر لاتی ہے ورنہ
یہاں پر کون کب کس کا ہوا ہے

محبت کی نمی درکار ہے پھر
مرے دل کا شجر سوکھا ہواہے

ترقی مل گئی جھوٹوں کو آخر
سنا ہے جھوٹ کو بچہ ہوا ہے
سلیم صدیقی شوق پورنوی

Comments are closed.