آزاد بھارت اور بنیادی انسانی حقوق!

از: ڈاکٹر آصف لئیق ندوی، ارریاوی
[email protected]
(تیسری قسط، گذشتہ سے پیوستہ)
۔۔۔جبکہ سرکاری قانون کے مطابق پرچم کشائی میں رنگوں کا رد و بدل بھی کرنا یا اسے الٹا لہرانا ایک جرم ہے، مگر حکمراں طبقہ کی سرپرستی میں دن اور رات کتنے ایسے کام ہوتے ہیں، جو دستور میں ہی ردو بدل کے مترادف ہیں، یہ الٹے اور غلط کام ہیں، بعض تو دستور مخالف، انسانیت مخالف، ترنگا مخالف کے دائرے میں آتے ہیں، جس سے ترنگے کی تقاضے کی خلاف ورزی ہوتی ہے، ملک کی روح و مزاج کی توہین ہوتی ہے، مگر اس پر کوئی ایسی گرفت اور مؤاخذہ کا قانون عمل میں لاتے نہیں دیکھا؟ جو قانون اور دستور کے ساتھ مذاق وکھلواڑ سے ارباب حل واقتدار اور شرپسندوں اور نام نہاد تنظیموں کو باز رکھے، ہرہندوستانی شہری کو برابری کی نظر سے دیکھا جائے اورمساوی تحفظ فراہم کیا جائے اور ملک کی حریت و آزادی پر کوئی داغ اور دھبہ نہ لگا سکے، زبان پر آزادی کے نعرے، دل سے اسکا انکار کو بھی پرچم کی توہین جیسا جرم سمجھا جائے، تبھی آزادی پرالزام، تہمت اور افترا کا سد باب ممکن ہوسکے گا ورنہ یہ کھیل اور تماشہ روز افزوں بڑھتا ہی چلا جائے گا۔جس پر بعد میں حکومت کے لیے کنٹرول کرنا بھی دشوار کن ہو جائے گا۔اس لیے اس پر فورا روک لگانا ضروری ہے۔جناب ندیم اللہ فہمی نے سچ کہا ہے کہ
ہمیں حاصل جو ہیں آزادیاں کچھ اور کہتی ہیں
لب اظہار پہ پابندیاں کچھ اور کہتی ہیں
ہمارے پرکھوں نے ہمیں حقیقی بھارت اور بنیادی انسانی حقوق کی بقا اور تحفظ کا جو خواب دکھایا تھا، انسانوں کو ان کی تنگ نظری اور ظلم و زیادتی سے نکال کر دنیا کی وسعتوں میں پہنچایا تھا اور تمام مذاہب و ادیان کے جھگڑوں کو ختم کیا تھا، اور بھائی چارے کی بنیاد پر ایک جمہوری دستور و نظام زندگی دیا تھا، نفرت و عداوت کی سازشوں اور پروپیگنڈوں سے پاک و صاف ملک عطا کیا تھا، گنگا جمنی تہذیب کے اصول و ضوابط دئے تھے، آزاد بھارت میں محبت و الفت سے لبریز والی زندگی کی یہی تعبیر بتلائی تھی، یہ سب جتن اس لیے نہیں کیا گیا تھا کہ ہم ایک آزمائش اور مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر کے دوسری بڑی مصیبت اور آزمائش میں گرفتار ہو جائیں؟ امید افزا اور حوصلہ بخش حیات سے نکل کر نا امیدی اور قنوطیت والی زندگی میں مبتلا ہوجائیں؟! ایک قید خانے سے آزاد ہوکر دوسرے بڑے قید خانے میں ڈال دیے جائیں؟! یہ قربانی اس لیے نہیں تھی کہ آج جمہوری قوانین اور حقوق انسانی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں ایک ہی فرقہ کی آئیڈیا لوجی کے زنجیروں میں جکڑ دیا جائے! آزادی کی لذت و سرور اور روحانیت والی زندگی سے جدا کر کے ذات پات، بھیدبھاؤ، بغض و عناد، اونچ نیچ اور اہانت ورسوائی والی زندگی کو گلے لگانے پرمجبور کیا جائے اور اسکے لیے جبر واستبداد کا سہارا لیا جائے اور اسکو قانونی شکل دینے کے لیے طرح طرح کی سرکاری کوششیں بھی کی جائیں؟ یہ غلط حربے ہیں جو ہمارے ملک میں کھلے عام اختیار کیے جارہے ہیں؟جس پر ہمیں بہت افسوس ہے۔
یہ دعویٰ تھا نئے انداز سے گلشن سنواریں گے
مگر پسری ہوئی و یرانیاں کچھ اور کہتی ہیں
کیا انگریزوں سے چھٹکارا اسی لیے حاصل کیا گیا تھا کہ ہم آسمان سے گریں اور کھجور پر اٹک جائیں!؟ ایک عذاب سے نکلیں اور دوسرے پر خطر فتنہ میں پڑ جائیں! خدائی بشارت اور نبوی خوشخبری والی طرز زندگی کا سودا ہم خواہش پرستی والی زندگی سے کرلیں! اپنے آباء و اجداد کی پیش کردہ قربانیوں سے حاصل شدہ آزادیوں، تن سے جدا گردنوں، پھانسی کے پھندوں، جیل خانوں کی صعوبتوں اور ان کے صبر و استقلال اور طویل داستانِ لہو کے واقعات کو یکسر فراموش کردیں! دشمن اس پر نمک چھڑکتے رہیں اور شر پسند عناصر انکو اپنے ناپاک عزائم ومقاصد کا ہدف بنائیں، گودی میڈیا، سوشل میڈیا جیسے فیس بک وغیرہ اور فرقہ پرست طاقتیں ہمارے خلاف سازشیں کرتے رہیں اور ہم آسانی کیساتھ انکے پروپیگنڈہ کا شکار ہوجائیں!؟ وہ لوگ ملک کی پر امن فضا میں اسلام دشمنی اور نفرت و عداوت کا زہر گھولتے رہیں! سازگار ماحول کو ناسازگار بناتے رہیں! انکے دل میں جو آئے وہ لوگ کرتے چلے جائیں! اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں؟! وہ لوگ ہمیں ہر معاملے میں بلی کا بکرا بناتے رہیں اور ہر طرح سے ہماری بے شمار قربانیوں کے باوجود ہمارا امتحان لیتے رہیں اور ملک سے ہماری وفاداری پر شک و شبہ کی نظر ڈالتے رہیں اور ہر طرح کی غداری، دہشتگردی، بدنامی اور ذلت و رسوائی کا الزام اور تہمت ہم پر ڈالتے رہیں حتی کہ اپنی عارضی قوت و طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری قوم کیساتھ عصبیت و منافرت والا رویہ اور معاملہ اپناتے رہیں! ہمارے حق آزادی کو وہ لوگ چھینتے رہیں اور ہم انکے ظلم وستم کو سہتے رہیں! ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے پر بھی ہمیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیں اور طرح طرح کی اذیت ناک سزائیں دیتے رہیں!
وہ خوش ہیں بیوفائی پر مبارک ہو انہیں فہمی
وفا کی راہ کی رسوائیاں کچھ اور کہتی ہیں
حقیقتاً یہ نہ صرف ہمارے ساتھ بڑی حق تلفی اور ظلم و زیادتی ہے، بلکہ عدل وانصاف کے نام پر داغ اور دھبہ ہے، اس ملک میں بڑی ذلت و رسوائی ہے، آزاد بھارت، اسکی گنگا جمنی تہذیب، انسانیت کی خیر خواہی، سماجی ہم آہنگی، یکجہتی اور سب سے اہم ملک کی روح اور آزادی کے تقاضوں کی صریح خلاف ورزی ہے اور آزادی و پرچم کشائی کے معنی اور مفہوم کی توہیں ہے! ہمارے ملک کی اکثریت کو آزادی کے سلسلے میں مغالطے میں ڈالا جارہا ہے اور دانستہ طور پر اس کے معنی و مفہوم سے چشم پوشی کرتے ہوئے 70 سالوں سے زائد صرف پرچم کشائی، آزادی کے ترانے اسکی نعرہ بازی صرف زبانی طور پر ادا کی جارہی ہے مگر عمل ندارد ہے، انکا دل اور ضمیر آزادی کے صحیح مفہوم سے غیر مانوس اور باغی ہے!؟ کیا یہ قوم و ملک سے بڑا مذاق اور کھلواڑ نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا یہ حقیقی منافقت نہیں ہے؟ اسی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ ہر میدان میں ناانصافی اور حق تلفیاں ہورہی ہیں!! اب تک جو حق تلفیاں ہوئی ہیں، اسکا حقیقی ذمہ دار آخر کون ہے؟ اسکا ادراک کیسے ہو؟ سچی بات یہی ہے حکمراں طبقے کی نیت بالکل صاف نہیں ہے، جبکہ حالیہ بمبء اور مدراس کے ہائی کورٹ کے بیان سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اور شرپسندوں نے جو رویہ اپنایا، وہ نہ صرف ناانصافی پر مبنی ہے بلکہ جماعت کے نام پر تمام مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنایا گیا، عدالت کے اس ریمارک سے جہاں ریاستی، مرکزی حکومت اور گودی میڈیا اور نام نہاد اسلام مخالف تنظیمیں سب کٹھہرے میں کھڑے ہونے کی لائق ہیں، جنہوں نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ایسا گندہ حربہ اختیار کیا، جس میں مسلمانوں کو بدنام کر کے ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے” والا معاملہ اپنایا گیا۔
شب تیرہ میں کرلیتے ہیں زخموں سے چراغاں ہم
تری محفل کی یہ تاریکیاں کچھ اور کہتی ہیں
اب بلا تاخیر ہمیں، ہماری قوم اور مخلص برادران وطن کو بلا امتیاز مذہب و مسلک حکمراں طبقے اور شرپسندوں کی سازشوں کو سمجھناہی پڑے گا! مظالم و جرائم کے خلاف مکمل متحد ہونا پڑے گا! ملک کو ٹوٹنے سے بہرحال بچانا ہوگا! سبھی کو اپنے اعتماد و بھروسے میں لینا ہوگا! تاکہ مزید کوئی انسانی حقوق کی پامالیاں نہ ہوسکیں، قوم و ملک ہر میدان میں بشمول معیشت، تعلیم وتربیت، اخوت و مودت کی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے، ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس” ہمارا صرف زبانی نعرہ نہ رہے بلکہ حقیقت میں یہ ہمارے دل اور ضمیر کا صحیح ترجمان بن سکے اورقوم وملک پھر سے نمایاں کامیابیوں سے ہمکنار ہوسکے!!
ہمیں لوگوں کو بتانا ہوگا کہ گروہ بندیوں کے کیا کیا مضرات و نقصانات ہیں؟! رواداری، یکجہتی، محبت و الفت، اخوت و مودت کے کیا کیا فوائد ہیں؟! جو کام سرکار و حکمراں طبقے کے کرنے کا تھا، اسے اب ہم برادران وطن کو زندہ کرنا ہوگا! ہمارے پرکھوں نے ہمیں جس طرح اور جس پلیٹ فارم پر جمع کیا تھا اور آزاد، جمہوری ملک کا مستحکم نظام ہمارے حوالے کیا تھا، اب ہمیں بھی اسی طرح اس پر جمع ہونا ہوگا جیسا کہ وہ جمع ہوئے تھے اور دشمنوں کو شکست دی تھی آج بھی ہمیں اس آزاد بھارت کو بہرحال ظالموں اور شرپسندوں کی بدنیتی سے چھڑانا ہوگا!
ہمارے پرکھوں نے وطن عزیز میں سب کے لیے چین و سکون سے زندگی گزارنے کا جو طریقہ فراہم کیا تھا، اپنے اپنے مذہب و تہذیب پر آزادی کے ساتھ عمل کرنے کی جو راہ بتائی تھی اور رواداری کا ہمیں جو سبق سکھایا تھا ہمیں وہی ڈگر پر چل کر چین وسکون حاصل ہوگا، تبھی ہمیں آزادی کی لذت و فرحت، محبت و الفت اور اخوت و مودت حاصل ہوگی، فرقہ بندی سے ہمیں اسلئے دور ہونا ہوگا کہ فرقہ بندی کی شاخیں حقد وحقارت اور نفرت وعداوت کی جڑوں سے پھوٹتی ہے اور رواداری کو اسلیے ہمیں اپنانا ہوگا کہ یہ انسانیت کے دکھ درد میں جینا مرنا اور تڑپنا سکھاتی ہے، گروہ بندیوں میں عصبیت، منافرت اور بھید بھاؤ کے مضرات شامل رہتے ہیں، رواداری کے جذبات و احساسات میں جہاں اتحاد واتفاق، مساوات و برابری اور عدل و انصاف کا عنصر غالب رہتا ہے، وہیں متعدد مذاہب و ادیان کے حامل ملک کے مفاد میں یکسوئی پیدا کرتا ہے اور سماجی ہم آہنگی و ملکی یکجہتی کو برقرار رکھتا ہے، امن و امان کی فضا کو ہموار کرتا ہے، سازگار ماحول کا قیام عمل میں لاتا ہے، انسانیت کے عظیم اہداف و مقاصد کو بروئے کار لانے میں یہ چیزیں بہت ممد و معاون ہیں، جنکی اسوقت ہمارے ملک اور اسکے ماحول کو شدید ضرورت بھی ہے، جن سے ہماری قوم و ملک کو بلندی و منزلت حاصل ہوگی اور ہر میدان میں ہمیں فوقیت ملے گی۔
بہاریں یوں نظر آتی تو ہیں صحن گلستاں میں
لہو میں تر مگر یہ پتیاں کچھ اور کہتی ہیں
جب سے فرقہ پرستی کا دور شروع ہوا ہے تب سے ہمارے ملک کا ہر نظام بگڑ کر رہ گیا ہے، معیشت کی تباہی زوروں پر ہے، بے روزگاریاں عام ہیں اور مہنگائیاں آسمان چھو رہی ہیں، وبائیں اور امراض پورے ملک میں پھیل کثرت سے پھیل رہے ہیں، حکومت کی گرفت سے معاملہ باہر ہورہا ہے،بیماریوں کے خوف سے ہر شخص ججھ رہا ہے، ہر شخص کا کاروبار متأثر ہوکر رہ گیا ہے، کل کا مالدار آج غربت وافلاس کا شکار ہو کر رہ گیا ہے، تعلیمی و تربیتی نظام بالکل چوپٹ ہو کر رہ گیا ہے، عدل و انصاف اور اتحاد و اتفاق کا بے پناہ نقصان ہورہا ہے، آدمی آدمی سے دوری بنائے ہوا ہے، قومی صحت و سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے، انسانی مفادات اور اجتماعیت کی خیرخواہی کا بڑا بحران جنم لیتا جارہا ہے غرض کہ فرقہ پرستی کی ایک وبا سے بے شمار وبائیں اور مصیبتں نازل ہوتی جارہی ہیں، ہر ایک کا اعتماد اور بھروسہ حکمرانوں سے متزلزل ہوتا جارہا ہے، بی جے پی مخالف ہوائیں عام ہوتی جارہی ہیں۔ مودی لہر ناپید ہوکر رہ گئی ہے، برادران وطن کے مسائل جوں کے توں پڑے ہوئے ہیں۔ یکسوئی نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے، ہر طرح کے نقصانات و مضرات سے بچنے کے لیے بس وہی نسخہ ہم سب کیلیے بہت مفید اور کار آمد ہے جو ہمارے بڑوں نے ہمیں عطا کیا ہے جس کا اس مضمون میں کثرت سے تذکرہ آگیا ہے کہ برے لوگوں کی نحوستوں سے اس ملک کو پاک کیا جائے تاکہ شرور و فتن سے نجات و چھٹکارا حاصل ہوسکے، ان کے ناپاک ارادوں سے ملک کو محفوظ بنایا جائے تاکہ ہمیں سماجی وملکی ہم آہنگی نصیب ہوسکے، اس کے حصول اور اسے برقرار رکھنے کے لئے ہمیں ہر طرح سے متحد ہونا پڑے گا، اسکی ہوائیں چلانی پڑینگی، سب کے شعور و احساسات کو بیدار کرنا ہوگا، فرقہ پرستی اور گروہ بندی کے فتنے سے بہرحال قوم و ملک کو نکالنا پڑے گا تبھی ہم موجودہ ناگفتہ بہ حالات اور انکے مضرات سے محفوظ رہ پائیں گے اور قوم و ملک کو خاکستر اور نیست و نابود ہونے سے بچا سکیں گے۔۔۔۔۔۔۔(جاری)
Comments are closed.