مولانا سید شمیم الحق گیاوی بھی رخصت ہوئے ۔ محمد شاہد الناصری الحنفی مدیر ماہنامہ مکہ میگزین ۔ ادارہ دعوت السنہ مہاراشٹر

مولانا سید شمیم الحق گیاوی بھی رخصت ہوئے ۔
محمد شاہد الناصری الحنفی
مدیر ماہنامہ مکہ میگزین ۔ ادارہ دعوت السنہ مہاراشٹر

آہ یہ کیاسلسلہ ہے کیسا سلسلہ ہے کہ صبح وشام موت کی گرم بازاری اس طرح جاری وساری ہے کہ گویا محشر سے پہلے ہی محشر برپا ہے اوربہت تیزی کے ساتھ یہ چمنستان اپنی خوبصورتی کو کھورہاہے ۔
اور بیش قیمت پھولوں سے یہ باغ خالی ہورہاہے ۔
کورونا کیا آیا کہ بلاء عظیم آئ اس کی دہشت نے صحت مندوں کا پتہ بھی پانی کردیا ۔
مساجد سجود وقیام سے محروم ہوگئے خانقاہوں اورمدارس میں ویرانی چھاگئ ۔
اورپھر یکے بعد دیگرے جید علماء کی شکل میں قدسی صفات شخصیتوں نے ملت کو داغ مفارقت دے ناشروع کردیا اوراس طرح زمین پر روشن چراغ کے گل ہونے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اسی سلسلتہ الذہب کا ایک روشن چراغ جو سادات کے گھرانے کا ایک گل سرسبد حضرت مولانا سید شمیم الحق قاسمی کی شکل میں 88 سال سے زمین پر روشن تھا وہ آج 10 سبتمبر 2020 ء کو ہمیشہ ہمیش کیلئے بظاہر گل ہوگیا ۔
مگر وہ زندہ ہے مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کی قدیم مسجد ( مسجد کلثوم ) کے منبرومحراب میں اور پھر گیا بہار کے سینکڑوں مساجد اورقرانی مکاتب ومدارس میں لاتعداد حفاظ وعلماء اوردعات کے سینوں میں ع
ہرگز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدئہ عالم دوام ما
حضرت مولانا سید شمیم الحق صاحب شہر علم گیا کے مشہور سادات گھرانے میں صاحب علم وعرفان اور فقیہ ومحدث حضرت مولانا خیرالدین صاحب گیاوی ( والد ماجد فخرالاولیاء حضرت مولانا قاری فخرالدین گیاوی سابق مہتمم مدرسہ اسلامیہ قاسمیہ گیا رحمھم اللہ ) کے یہاں پیدا ہوئے تھے ۔ اس لئے تادم زیست سادات کے گھرانے کی نجابت وشرافت اورعلم وفضل آپ کے حصہ میں فطرتا منتقل ہوئ اور تادم زیست آپ نے اس امانت کی اوراپنے عالمانہ وقار کی حفاظت فر مائ ۔
ابتدائ تعلیم اپنے ماموں جان حضرت مولانا قاری فخرالدین گیاوی قدس سرہ سے حاصل کرنے کے بعد آپ ہی کے منشاء پر سہارنپور مدرسہ مظاہر علوم تشریف لے گئے وہاں متوسطات کی تعلیم اپنے وقت کے جنید اورحضرت حکیم الامت تھانوی رح کے خلیفئہ ارشد حضرت مولانا شاہ اسعداللہ صاحب رح ناظم مدرسہ کی سرپرستی میں حاصل کیا اور تعلیمی اوقات کے علاوہ خادمانہ حاضرباشی حضرت ناظم صاحب کے ساتھ رہتی ۔ حضرت بھی کمال شفقت ومحبت کا مظاہرہ فرماتے اور پتہ نہیں کیا اسباب وعوامل ہوئے کہ بقول برادر محترم حضرت مولانا سید حذیفہ صاحب ابن حضرت مرحوم ۔
حضرت ناظم صاحب نے ابا مرحوم سے فرمایا کہ آپ جب تک مدرسے میں زیرتعلیم ہیں اس مسجد میں نمازیں آپ ہی کو پڑھانی ہے ۔
اس پرابا نے حضرت ناظم صاحب سے عرض کیا کہ حضرت میں حافظ نہیں ہوں تو امامت کس طرح کروں گا ؟
حضرت ناظم صاحب نے فرمایا کہ غیرحافظ ہونے کے بعد بھی آپ بہت عمدہ قرآن پڑھتے ہیں اس لئے کوئ حرج نہیں امات آپ ہی کریں گے ۔ چناں چہ تقریبا 5 یا 6 سال تک آپ کو حضرت ناظم صاحب کی صحبت ومعیت بھی حاصل رہی اوروقت کے بڑے بڑے علماء وزہاد اور طلبا کی امامت بھی آپ نے فرمائ ۔
مظاہر علوم کے بعد آپ انتہائ اور آخری تعلیم کیلئے دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں مشکوات شریف تا بخاری شریف یعنی دورئہ حدیث شریف مکمل کیا ۔ آپ نے دیوبند کے تعلیمی ایام کی جب شروعات کی تو شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حیسن مدنی قدس سرہ کا وصال ہوچکا تھا اور مسند حدیث پر فخرالمحدثین حضرت مولانا فخرالدین صاحب مرادآبادی رح متمکن ہوچکے تھے ۔
آپ نے بخاری شریف انہی سے پڑھی ۔
حضرت مولانا سید شمیم الحق صاحب مرحوم کے والد حضرت حکیم سید نسیم الحق صاحب گیاوی بھی اپنے وقت کے مشہور صاحب دل وصاحب حال بزرگ تھے اور والدہ محترمہ بھی خدارسیدہ ولیہ تھیں ۔ ان دونوں کی تعلیم وتربیت کااثر یہ تھا کہ بچپن سے ہی رشدوہدایت کے آثار آپ کے گفتاروکردار اوررفتار سے نمایاں تھے اورجب اللہ نے آپ کو علم کامل کی دولت سے نوازا اور دیوبند سے فارغ ہوکر تشریف لائے تو اپنے ماموجان حضرت مولانا قاری فخرالدین صاحب گیاوی خلیفہ حضرت شیخ الاسلام مدنی رح کی سرپرستی میں گیا کے اطراف میں مسلمانوں کی آبادی میں اصلاح وتربیت اوردینی تعلیمات کی اشاعت کو اپناہدف بنایا اوراپنے ایک اورمامو حضرت مولانا قاری سید شرف الدین صاحب رح کے مدرسہ محمودیہ میں تدریس کی خدمت پر مامور ہوگئے اور پھرکچھ عرصہ کے بعد حضرت مولانا قاری سید فخرالدین صاحب رح کے حکم پر رانی گنج کے مکتب میں تدریسی خدمت پر لگادئے گئے آپ نے وہاں کی ناگفتہ بہ جہالت اورپختہ رسوم ورواج کے ماحول میں شدید مخالفت کے باوجود بھی بہت دلجمعی کے ساتھ دین متین کی خدمت اوراصلاح مسلمین کے کام میں مشغول رہے تاآنکہ آپ کے اخلاص اورجدوجہد کی برکت سے اس علاقے کی کایا پلٹ گئ اور وہ مکتب شاندار مدرسے میں تبدیل ہوگیا اور ہزاروں علماء وفضلاء حفاظ اورخدام دین تیار ہوئے جوسب کہ سب آپ کیلئے توشئہ آخرت ہیں ۔
دعا ہے کہ اللہ پاک آپ کے حسنات کو قبول فرمائے اور آپ کی طویل خدمات دینیہ کوشرف قبولیت سے نوازتے ہوئے اپنی ردائے رحمت میں ڈھانپ کر جنت الفردوس میں درجئہ علین سے نوازے اورپسماندگان کو صبرجمیل مرحمت فرمائے آمین
حضرت مولانا سید شمیم الحق صاحب گیاوی قدس سرہ خاکسار کے ماموخسر تھے اتفاق کہ ان سے صرف ایک ملاقات ممبئ میں ہی ہوئ تھی ۔ اس وقت میں نے یہ نہیں محسوس کیاتھا کہ کسی عالم دین یا ماموجان سے ملاقات ہورہی ہے ۔ بلکہ ایسا محسوس ہوا تھا کہ انسانی شکل میں کسی نوری مخلوق سے ملاقات ہورہی ہے ۔ چہرے بشرے پر غضب کے انواروبرکات تھے اور وہ متانت وسنجیدگی اورحلم وکرم کے پیکر معلوم ہوئے
تقریبا ایک ساعت کی ملاقات میں ہرلمحہ کی حرکات وسکنات اورگفتار وکردارکا وہ خوشنما پیکر اسی لائق محسوس ہوا تھا کہ اس کی معیت وصحبت اختیار کی جائے ۔
مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شد

ایسے کہاں ملیں گے تمہیں نیک طبع لوگ

افسوس تم کو میر کی صحبت نہیں ملی

حضرت مولانا شمیم الحق صاحب مرحوم کے برادرخورد حضرت مولانا قاری سید قسیم الحق گیاوی مرحوم بھی علماء راسخین میں تھے ۔
آپ کی تین ہمشیرہ بقید حیات ہیں ۔
بڑی ہمشیرہ حضرت مولانا قاری سید محمد یعقوب فریدی مدظلہ چک بہاؤ الدین سے منسوب ہیں ۔ دوسری ہمشیرہ حضرت مولانا قاری سید حسین احمد قاسمی المتخلص عارف گیاوی مرحوم سابق امام وخطیب جامع مسجد ساکچی جمشید پور سے منسوب ہیں ۔
تیسری بہن حضرت مولانا قاری سید اختر امام صاحب حمزہ پوری مدظلہ سے منسوب ہیں ۔
آپ کے بھانجے حضرات بھی علم وفضل میں کمال حاصل کئے ہوئے ہیں اورکم عمری میں ہی دین وملت کی عظیم الشان خدمت کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہیں ۔
ان میں مولانا السید محمد یوسف فریدی ۔ مولانا السید محمد اعظم الندوی ۔ مولانا سید محمد زاہد الندوی ۔ مولانا السید محمد خالد الندوی ۔ مولانا السید شبیر احمد القاسمی مولانا مفتی السید مختاراحمد القاسمی ۔ حفظھمااللہ ہیں
جی چاہتا ہے کہ ان تمام کے روحانی سلسلے کو مزید مضبوط اورمربو ط کرنے کیلئے سلاسل اربعہ میں بیعت کرنے کی اجازت دے دوں ۔
گرچہ عزیزالقدر السید زاہد ندوی کو حضرت مولانا سید عبداللہ حسنی مرحوم کی طرف سے اجازت بیعت حاصل ہے

اور تین صاحبزادے
مولانا قاری سید وسیم الحق ندوی
مولانا قاری سید حذیفہ مظاہری ہیں
تیسرے صاحبزادے عزیزم حافظ سید قتادہ سلمہ ہیں
الحمداللہ یہ سب حضرات قابل قدر دینی خدمات انجام دے رہے ہیں
اور دو داماد
اول ۔ جناب مولانا قاری سید عبداللہ مظاہری جو گزشتہ 35 سالوں سے مکتہ المکرمہ کی کسی مسجد میں منصب امامت پر فائز ہیں
دوسرے جناب مولانا ابوصالح گیاوی ندوی ہیں
مؤخرالذکر بزرگ نوادہ میں ندوت العلماء لکھنوء کی شاخ دارالعلوم فریدیہ کے روح رواں ہیں
کہاں تک اس خانوادے کے آفتاب وماہتاب کاذکر کروں ۔
خلاق عالم اوراس مبدء فیاض نے اس گھرانے کے تمام اصاغرو اکابر کو دینی خدمات کیلئے منتخب فرمایا ہے ۔
فاللہ الحمد ۔
وذالک فضل اللہ یؤ تیہ من یشاء
سفینہ چا ہیے اس بحر بے کراں کیلئے

Comments are closed.