کشمیرمیں کورونا کی صورتحال بے قابو

عبدالرافع رسول
بھارت میں کورناکے قہرکے مہیب سایے جموںوکشمیرپربھی پڑے ہیں اوریہاں روزانہ کی بنیادپرتشویش ناک حد تک کوروناوباسے لوگ متاثر ہورہے ہیں۔ کورونا متاثرین کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے یہاں تک کہ اب یہ تعداد روزانہ بنیادوں پر بڑھ کر سامنے آتی ہے۔ جس سے عوامی حلقے تشویش میں مبتلا ہیں ۔کورونا معاملات میں اضافہ کے سبب جموں وکشمیر ہائی کورٹ جموں کو دوروز کیلئے بند کیاگیا۔جمعرات 10ستمبر2020 کورونا وائرس سے مزید 14افراد فوت ہوگئے جس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر900ہوگئی جن میں سے 113جموں جبکہ 723کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔
ماہرین طب کاکہناہے کہ وادی کشمیرمیںگذشتہ چندایام سے کوروناکادائرہ اثر بڑھتاہی چلاجارہاہے اورجمعرات 10ستمبرکو ایک مرتبہ پھر سے ریکارڈ 1355افراد کی رپورٹیں مثبت آئیں۔ وادی کشمیرمیں کورونامتاثرین کی مجموعی تعداد45ہزار کا ہندسہ پار کرکے 45925ہوگئی ہے۔ ان میں 13203جموںجبکہ وادی کشمیر میں یہ تعداد 32722تک پہنچ گئی۔ تازہ 1355متاثرین میں سے 785جموں جبکہ 570وادی کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ جموں کے 785متاثرین میں سے سب سے زیادہ 483 جموں، 55 راجوری،31کٹھوعہ، 59ادھمپور، 20سانبہ، 7رام بن، 35ڈوڈہ، 43پونچھ، 17ریاسی اور 35کشتواڑ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کشمیر میں تازہ 570متاثرین میں سے 210سرینگر،31پلوامہ، 94بڈگام، 44اسلام آباد، 32بانڈی پورہ، 53کپوارہ، 10کولگام، 16شوپیان، 45گاندربل سے تعلق رکھتے ہیں۔
وادی کشمیرکے سینئر ڈاکٹرزکاکہناہے کہ ہوناتویہ چاہیے تھاکہ وادی کشمیرمیں کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے صلاحیت بڑھائی جاتی اورعارضی اسپتال قائم کئے جاتے ۔لیکن اس کے برعکس یہاں غیرریاستی باشندوں کوڈومسائل کی اجرائی کی طرف ساری توجہ مرکوزرہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے سارے اسپتالوں کا کام کاج انتہائی بری طرح متاثر ہوا ،اور ہمارے سارے طبی مراکز عام مریضوں کیلئے تقریبا بند ہوگئے کیونکہ او پی ڈی شعبہ کئی مہینوں تک بند رہا اور اب جب اس کو چالو بھی کیا گیا تو لوگوں کے دلوں میں ان مراکز میں جانے کا اتنا ڈر ہے کہ وہ گھروں میں ہی مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ وادی کشمیرکے سینئر ڈاکٹرزکاکہناہے کہ ہر ضلع کے میںکورونا مریضوں سے نمٹنے کیلئے عام اسپتالوں سے دور کم سے کم دو عمارتیں مخصوص رکھی جانی چاہیں تھیں تاکہ عام اسپتالوں کے کام کاج کو بلا خلل جاری رکھا جاسکتا لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔
کشمیرکے بیشترطبی ماہرین اس رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ کورونا مریضوں کیلئے الگ سے اسپتال قائم کئے جانے چاہیں جہاں تعینات معالج صرف اور صرف انہی مریضوں کے ساتھ مصروف رہیں۔اس کی ضرورت اس لئے بھی محسوس کی جارہی ہے تاکہ باقی ماندہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مریضوں کا علاج و معالجہ اور کی زندگیاں بچانے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہ ہو او اسپتالوں کو وائرس سے پاک رکھا جاسکے جہاں بیماروں کے ساتھ ساتھ تیمارداروں کا بھی بھاری رش رہتا ہے۔ لیکن اکثر ماہرین کہتے ہیں کہ ایسا لاک ڈاون کے دوران کیا جانا چاہئے تھا۔
مودی سرکار کی ایماپررواں برس کے ماہ جولائی میں غیرریاستی باشندوں ’’بھارتی ہندئووں‘‘ کی ایک بڑی تعدادکوفوجی گاڑیوں میں لادکروادی کشمیرلایاگیاتاکہ انہیں ریاست جموں وکشمیرکی شہریت کاسرٹفیکیٹ دیاجائے ۔ان میں غالب اکثریت کوروناوائرس متاثرین کی تھی یہی وجہ بنی کہ وادی کشمیرمیں کورونابڑی تیزی اوربڑے پیمانے پرپھیلا۔حالانکہ اسلامیان کشمیرنے غیرریاستی باشندوں ’’بھارتی ہندئووں‘‘ کوکشمیرلانے کے خلاف احتجاج بھی کیالیکن کشمیرمیں گورنری سرکار نے اسے کسی خاطر میں نہیں لایااوراپنے ناپاک منصوبوں پرعمل درآمدکراتی رہی ۔کوروناوباکے باعث گذشتہ دنوں وادی کشمیرمیںکئی غیرریاستی باشندے ’’بھارتی ہندئووں‘‘ کی موت بھی واقع ہوئی لیکن اس کے باوجودوہ وادی چھوڑ کرواپس نہیں جاتے ۔جس سے اندازہ لگ جاتاہے کہ انہیں واپس جانے سے جان بوجھ کرروکاجارہاہے تاکہ ان کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ کشمیری مسلمان کوروناوائرس سے متاثر ہوجائیں۔
واضح رہے کہ بھارت کورونامتاثرین کے حوالے سے اب دوسرے نمبرپر آچکاہے اورامریکہ کے بعد اب بھارت اپنے جرائم اورمسلم کشی کی سزابھگت رہاہے ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ بھارت میں کوروناوائرس سے روزانہ نوے ہزار کورونامتاثرین منظر عام پر آرہے ہیں جبکہ اس وباسے ہردن ایک ہزارسے زائد لوگوں کی موت واقع ہورہی ہے ۔بھارت سے کوروناوباجوصورتحال سامنے آرہی ہے اورجواعداد و شمار بتائے جارہے ہیں تواسے صاف طورپرپتاچلتاہے کہ چین میں مجموعی طوروائرس سے کل جتنے لوگ متاثر ہوئے اتنی تعداد تو بھارت میں ایک دن میں سامنے آتی ہے۔حالانکہ چین کے ہاں بھارت سے زیادہ آبادی ہے اور بھارت کو وائرس نے چین کے بہت بعد اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔
عام لوگوں کاخیال ہے کہ ابتدامیںجب وائرس کا پھیلائو محدود تھا اور جموں کشمیر میں متاثرین کی تعداد چند سو تھی تولوگوں سے تدابیراختیارکرنے پرلیکچردیئے جاتے تھے لیکن جوں جوں متاثرین کی تعداد بڑھتی گئی توں توں پابندیاں بھی ہٹائی گئیں اور لوگوں کو یہ احساس دلانا شروع کیا گیا کہ انہیں اب وائرس کے ساتھ ہی جینا پڑے گا۔یوں مہلک وائرس کو مذاق سمجھ کر ان لوگوں کی صحت اورزندگیوں سے بھی کھلواڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کشمیرمیں بھارت کی گورنری سرکارنے یہ طے کررکھا ہے کہ کورونا وائرس اور اس سے پیدا صورتحال تیار کردہ کوئی شرمناک منصوبہ ہے۔گورنری سرکارکے تعینات کردہ افراد سے بات کریںتو وہ ٹال جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یا تو لاپرواہ ہیں یا صرف انہی کو حقیقت کا علم ہے جسے وہ بیان کرنے سے کتراتے ہیں۔
ادھربھارت کی حزب اختلاف گانگریس نے مودی سرکارکوآڑھے ہاتھوں لیکراس پرتنقیدکے تیربرسائے ۔راہل گاندھی نے اچانک نافذ لاک ڈان کو حملہ قرار دیا اور کہا لاک ڈان کورونا پر حملہ نہیں تھا۔ لاک ڈان ہندوستان کے غریبوں پر حملہ تھا۔ ہمارے نوجوانوں کے مستقبل پر حملہ تھا۔ لاک ڈان مزدوروں، کسانوں اور چھوٹے تاجروں پر حملہ تھا۔ ہماری غیر منظم معیشت پر حملہ ہوا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا اور ہم سب کو اس حملے کے خلاف ایک ساتھ مل کر کھڑا ہونا ہوگا۔
راہل کاکہناتھاکہ مودی نے ہندوستانیوں سے وعدہ کیا تھاکہ وہ 21دن میں کورونا ختم کریں گے لیکن کورونا کی شدت اوراس کی حدت پھیلتی ہی چلی گئی اوراگرمودی نے ختم کیا توکروڑوں روزگار اور کاروبارختم کیا۔ایک ویڈیو بیان میںراہل گاندھی کاکہناتھاکہ کورونا کے نام پر جو کچھ کیا گیا وہ غیر منظم شعبے پر تیسرا بڑا حملہ تھا کیونکہ غریب لوگ روز کماتے ہیں اور روز کھاتے ہیں۔ چھوٹے اور متوسط طبقے کے کاروباریوں کا بھی یہی حال ہے۔
Comments are closed.