گھریلو نظام تعلیم وتربیت میں ما ں کا کردار

✒️ :عین الحق امینی قاسمی

ماں وہ ذات ہے ،جس کی عظمت کے تئیں جنت ،ان کی ٹھوکروں میں رکھی گئی ہے ،ان پر پڑنے والی محبت بھری نگاہ کو مقبولیت بخشی گئی ہے اور ان کے حقوق کو تاکید درتاکید بیان کیا گیا ہے ۔انداز لگانا کوئی مشکل نہیں کہ ماں کی ذات بہت اونچی اور عظیم تر ہے ۔ ماں کی گود کو ہی پہلامکتب اور پہلی درسگاہ کا مقام حاصل ہے ،ماں کو معلم اول ہونے کا شرف بھی اسی لئے بخشا گیا ہے کہ بچے کے فطری شعور اور مرحلہ وارذہنی تربیت میں ماں کی ممتا کو یک گونا جو مطابقت ومقارنت ہے وہ بڑے سے بڑا ذکی وفہیم اور قوی الحس ماہر تجربہ کار استاذ میں نہیں ہوسکتی ۔

ماں کے انداز گفتگو اور رس بھرے میٹھے بول میں جو کشش ہوتی ہےاور مطلوب و مقصود کو سمجھنے سمجھانے کی جو حسب حال فطری صلاحیت ماں کو حاصل ہے وہ اوروں کو کہاں ۔یہی وجہ ہے کہ عمر کے اس مرحلے میں بھی جب بچے کو سرکا ہوش ہوتا ہے نہ پاؤں کا ،مگر اس وقت بھی نہ صرف یہ کہ وہ اپنی ماں کو پہچان لیتا ہے ،بلکہ ماں بھی اپنے بے زبان بچے کی ان تمام اداؤں کا مکمل مفہوم اداکر تی ہے ،بچہ جو کچھ بھی بے زبان بن کرکہنا چاہتا ہے وہ پہلا انسان ماں ہوتی ہے جو اس عمر کے تمام تقاضے اس کی چاہت کے حساب سے پورے کرتی ہے ۔ماں کو اس لئے بھی معلم اول ہونے کا حق حاصل ہے کہ بچہ اگر چاہتا ہے کہ” رات دن ہوجا ئےاور دن رات بن جائے "یا "دودھ سے پانی نکالنے کی نوبت بھی آجائے ” تو ماں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنی جادو بیانی سے یہ کرشمہ کردکھاتی ہے اور اپنے لخت جگر کومختلف طر ح کے جتن کے حوالے سے قائل کر مطمئن بھی کرلیتی ہے ،کیا مجال کہ بچہ جب اپنی ضد پہ آجائے توماں کے علاوہ کوئی ماہر نفسیات اس کو سمجھا لے۔
معلم اول ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ماں کے اندر صبر وتحمل اور ضبط وبرداشت کی جو خدا داد صلاحیت ہے وہ کسی بھی نوخیز کی تعلیم وتربیت کے لئے ناگزیر ہے ،دنیا کےماہرین تعلیم ونفسیات اب اس نقطے پر پہونچے ہیں اور انہوں نے چھوٹے بچوں کی تعلیم وتربیت کے سلسلے میں جی پتہ کرنے والا کام خواتین کے ذریعے سےلینا شروع کیا ہے ،جب کہ اسلام نے پندرہ سو سال پہلے ہی اس نقطہ عمل کے دور رس اثرات کو دنیا کے سامنے پیش کیا تھا ۔
بہر حال ! اسلام نے تعلیم کے حصول کو جہاں بیٹوں کے لئے فرض بتلا یا وہیں بیٹیوں کے لئے بھی اس کے حصول کو لازم و ضروری قرار دے کر آنے والی نسلوں کی تعلیم وتربیت کے لئے ماں کی گود کو پہلی درسگاہ ہونے کا شرف بخشا ۔
ماں اگر تعلیم یافتہ ہوگی تبھی اس کی نگرانی میں بلاواسطہ علم وروحانیت کا حصول بچوں کے لئے آسان بھی ہوگا اور نتیجہ خیز بھی ۔ ماں کے لئے یہ بہت آسان ہے کہ وہ اپنے بچوں کو باتوں بات میں ہنستے کھلاتے اتنا کچھ وہ سکھا سکتی ہے جس کے لئے ایک ادارہ یا بڑے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے ،اس کے علاوہ ماں کے لئے یہ بھی آسان ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ہزاروں صفحات کا نچوڑ اپنی ایک نصیحت اور فطری ہمدردی کی راہ سے دلوں میں بٹھا دے ۔ ماں کی باتوں کو بچے جس عظمت اور یقین سے لیتے ہیں ،بچوں کے اندر وہ جذبہ حصول، شاید دوسرے کسی بھی آلہ علم سے مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ،اسی لئے کہا گیا ہے کہ” ماں کی تربیت سے صرف دل نہیں بنتے ” زندگی سنور تی ہے”ایک بچی کی تعلیم سے ایک فر د کی ہی تعلیم نہیں ہوتی ،بلکہ پورا خاندان تعلیم یافتہ ہوتا ہے ۔
ماں کی تربیت کے نتیجے میں ہی صالح سماج وجود میں آتا ہے ،مائیں جب اپنے بچوں کو تربیت دیتی ہیں تو مستقبل کے سماجی ذہن میں اپنے سے بڑوں کے تئیں ادب واحترام بھی آتا ہے اور سماجی حقوق سے بھی وہ بچےمتعارف ہوتے ہیں ،انہیں اپنے دین ومذہب کا بھی علم ہوتا ہے اور اللہ ورسول سمیت اس کے ابدی پیغام واحکام کی جانکاری بھی ملتی ہے ،ماں کی تربیت سے ہی ان میں خیر وشر اور بھلے برے کی تمیز بھی پیدا ہوپاتی ہے ،ماں کی تربیت سے ہی بچے چھوٹی عمر میں بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ روز مرہ برتے جانے والے اخلاق وعادات کو بھی اپنی عملی زندگی میں جگہ دینے کے لئے رفتہ رفتہ عادی ہوتے ہیں ۔
ماں کی تعلیم وتربیت سے ہی بچوں میں دینی جذبہ پروان چڑھتا ہے ، ان میں دین پر استقامت کی ہمت وجرئت اور دین متین کے لئے ہر طرح کی قربانی کا ایمانی حوصلہ سرچڑھ کر بولتا ہے ،جب ماں کے ذریعہ گھر کی تعلیم وتربیت کا مزاج بنتا ہے ،توجہالت دور ہوتی ہے ،بچوں میں علمی ذہن تیار ہوتا ہے اور ایسا سماج تشکیل پاتا ہے جس میں نکماپن ،آلسی ،خودغرضی اور ان جیسی اکثر سماجی برائیاں دھیرے دھیرے رخصت ہوتی جاتی ہیں ….
(جاری)

Comments are closed.