غیر مسلموں سے شادی کا مسئلہ

 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

شادی انسان کی فطری ضرورت ہے ۔ ہر سماج، مذہبی طبقے میں شادی اور خانگی معاملات کے اپنے اصول و ضوابط ہیں ۔ جو پرسنل لاء کا حصہ مانے جاتے ہیں ۔ زمانہ قدیم میں راجہ مہا راجہ اپنی حکومت کی توسیع یا مضبوطی کے لئے اپنے بچوں کی آپس میں شادیاں کرتے تھے ۔ شادیاں کاروباری یا سیاسی مفادات کے حصول کا ذریعہ بھی رہی ہیں ۔ مغلوں نے بین المذہبی شادیوں کو اپنے اقتدار کے استحکام کے لئے استعمال کیا ۔ جس کی ابتداء شہنشاہ جلال الدین اکبر سے مانی جاتی ہے ۔ سینئر صحافی سید خالد حسین کے مطابق سن 1562 سے 1715 تک اکبر اور اس کے بیٹے جہانگیر اور پوتے شاہجہاں نے کل 40 شادیاں کیں، جن میں سے 17 شادیاں راجستھان کے ہندو راجپوت مہاراجاؤں کی بیٹیوں اور ان کے خاندانوں کی دیگر عورتوں سے کی تھیں ۔ یہ شادیاں مغلوں اور راجپوتوں کی سیاسی ضرورت اور مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے عمل میں آئیں ۔ لیکن اس سے بھی تقریباً تین سو سال قبل خلجی خاندان کے سلطان علاؤالدین خلجی نے اور اس کے بعد کئی مسلمان بادشاہوں نے بھارت کے مختلف علاقوں میں ہندو عورتوں سے شادیاں کیں ۔ 1960 کی مقبول زمانہ فلم ‘مغل اعظم’ کے بعد بھارت میں ہندو مسلم شادیوں کا رواج خواص سے عوام میں آ گیا ۔ ایسی شادیاں ترقی یافتہ ہونے کی نشانی تصور کی گئیں ۔ اس میں اسپیشل میرج ایکٹ 1954 معاون ثابت ہوا ۔ یہ قانون بین المذہبی جوڑوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ اس کی وجہ سے مسلم ۔ ہندو شادیوں کی ‘شاہی بیماری’ عوام الناس میں پھیل گئی ۔ یہ بیماری شہروں میں زیادہ ہے لیکن اب چھوٹے قصبات اور گاؤں بھی اس کی زد میں آ گئے ہیں ۔

ملک میں تمام مذہبی طبقات کے اپنے پرسنل لاز موجود ہیں، یعنی خانگی مسائل میں ان گروہوں کا مذہبی یا روایتی قانون ہی ملک کا قانون ہے ۔ ان میں شادیاں انہی قوانین کے تحت ہوتی ہیں ۔ مگر 1954کے اسپیشل میرج ایکٹ میں یہ التزام ہے کہ ایک مذہب یا عقیدہ کو ماننے والا شخص کسی بھی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے سے شادی کر سکتا ہے، خواہ وہ مسلم ہو یا ہندو، سکھ ہو یا عیسائی، بدھسٹ ہو یا جین، پارسی ہو یا ملحد ۔ اس ایکٹ کے تحت ہوئی شادیوں پر کوئی پرسنل لاء لاگو نہیں ہوتا ۔ یہ ایکٹ تمام بھارت کے لئے ہے، بشمول ان کے جو بیرون ملک رہتے ہیں ۔ ان لوگوں کے لیے یہ ایک متبادل ہے جو بھارت میں ہندو میرج ایکٹ کے تحت اپنی شادی کو رجسٹر کرنے کے اہل نہیں ہیں ۔ اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت دو الگ مذاہب کو ماننے والے مرد اور عورت اپنی شادی کا اندراج میرج رجسٹریشن دفتر میں کرا سکتے ہیں ۔ جو سب بڑے شہروں میں موجود ہیں ۔ درخواست دینے والے جوڑے کو سب رجسٹرار 30 دن کا نوٹس دیتا ہے ۔ اسکی کاپی دفتر کے نوٹس بورڈ پر لگا دی جاتی ہے ۔ اگر اس مدت کے اندر رجسٹرار کو ان کی شادی سے کسی کا اعتراض وصول نہیں ہوتا تو شادی رجسٹر ہو جاتی ہے ۔ یہ عمل شادی کو بغیر کسی مذہبی تقریب کے مکمل کرنے کے قابل بناتا ہے ۔ دراصل اسپیشل میریج ایکٹ کو بنانے کا مقصد پرسنل لاز کو کمزور کر یکساں سول کوڈ کے لئے راہ ہموار کرنا تھا ۔ بی جے پی حکومت کے دوران اس پر تیزی سے کام ہو رہا ہے ۔

اسپیشل میرج ایکٹ کے نتیجہ میں بین المذہبی شادیوں میں سال در سال اضافہ ہو رہا ہے ۔ 2013 میں ہوئے ایک قومی سروے کے مطابق 1981 کے مقابلہ 2005 میں بین المذہبی شادیاں تقریباً دوگنا ہو گئیں ۔ 1981 میں اس طرح کی شادیوں کا تناسب کل شادیوں کا 1.6فیصد تھا جو 2005 میں بڑھ کر 2.7 فیصد ہو گیا ۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 2004-2005 میں 2.1 فیصد شادیاں بین المذہبی تھیں ۔ جبکہ ٹائمز آف انڈیا کے سروے 2016 سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے مختلف میریج رجسٹریشن دفاتر میں 2013-2014 میں 2,624 بین المذہبی شادیاں رجسٹر کی گئیں ۔ مگر ایک سال بعد، یعنی 2015-2016 میں، صرف بنگلور میں ہی یہ تعداد بڑھ کر 10,655 ہوگئی ۔ 2015 سے جنوری 2016 تک 8,391 بین المذہبی شادیاں رجسٹرڈ ہوچکی تھیں جو کہ 2013-2014 کے مقابلہ میں تین گنا سے بھی زیادہ ہیں ۔ 2020 کے ایک امریکی سروے میں پایا گیا کہ بھارت میں ہندوؤں سے زیادہ مسلمان دوسرے مذاہب کے لوگوں سے شادی کرتے ہیں ۔ واشنگٹن کے غیر جانبدار تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق 2 فیصد مسلمان غیر مسلموں سے شادی کرتے ہیں جبکہ صرف 1 فیصد ہندو غیر ہندوؤں سے شادی کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہندوستان کی 25 کروڑ مسلم آبادی میں سے 10 کروڑ مسلمان شادی شدہ ہیں تو ان میں سے 20 لاکھ غیر مسلم شوہر یا بیوی ہیں، یعنی تقریباً 10 لاکھ مرد اور 10 لاکھ خواتین ۔ اس سروے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تقریباً تمام میاں بیوی، چاہے وہ مسلمان ہوں، ہندو ہوں یا سکھ ، عیسائی یا پارسی، شادی کے بعد سب اسی مذہب پر قائم رہتے ہیں جس میں ان کی پرورش ہوئی ہے کیونکہ ہندوستان میں مذہبی تبدیلی کی شرح 1 فیصد سے بھی کم ہے ۔ اگر یہ حقیقت تشویش کا باعث نہیں تو اور کیا ہے؟

سماجی نا برابری، استحصال اور اونچ نیچ مذہبی تبدیلی کا سبب رہا ہے ۔ مسلم معاشرہ میں سماجی مساوات اور خواتین کی بہتر صورتحال نے غیر مسلموں کو ہمیشہ متاثر کیا ہے ۔ بھارت کے آئین کی دفعہ 25-28 میں مذہبی آزادی دی گئی ہے ۔ جبکہ دفعہ 15 میں مذہب چننے کا حق دیا گیا ہے ۔ اسی لئے کچھ عرصہ قبل تک بین المذہبی شادیاں مسلم لڑکوں سے ہندو، سکھ عیسائی لڑکیوں کی ہوا کرتی تھیں ۔ بی جے پی نے ایسی شادیوں کو لوجہاد کا نام دے کر خوب شور مچایا ۔ جب اس سے بات بنتی دکھائی نہیں دی تو ہندو لڑکیوں اور خواتین کو تین طلاق، حلالہ کو غلط طریقہ سے پیش کرکے یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ ہندو عورتوں سے زیادہ مسلم خواتین مظالم کی شکار ہیں ۔ اسی کے ساتھ تبدیلی مذہب کے قانون کو سخت بنانے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے بعد بھی اگر کسی نے مذہب بدلنے کی کوشش کی تو بھگوا غنڈوں سے اس پر حملہ کرایا گیا ۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ہندو لڑکوں کے ذریعہ مسلم لڑکیوں کو پیار کے جال میں پھنسا کر ہندو بنانے کے واقعات متاواتر سامنے آ رہے ہیں ۔ اسے گھر واپسی کہا جاتا ہے ۔ خبر یہ بھی ہے کہ ہندو وادی تنظیموں کے ذریعہ مسلم لڑکیوں کو مرتد بنانے کی مہم چلائی جا رہی ہے ۔ مسلم لڑکی سے شادی کر بچہ پیدا ہونے کے بعد ہندو لڑکے کے ذریعہ اسے چھوڑے جانے کے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں ۔ کئی معاملوں میں تو لڑکے کے پہلے سے شادی شدہ ہونے یا پھر حاملہ ہونے پر قتل کئے جانے کی بات بھی سامنے آئی ہے ۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے ۔

مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں سے شادیوں کی مندرجہ ذیل بنیادی وجوہات بیان کی جاتی ہیں:

1. ایمان کی کمزوری: بین المذہبی شادیوں کی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں میں ایمان کی کمزوری ہے۔ ایک مضبوط اور حقیقی ایمان کا حامل مسلمان عشق و محبت یا دنیاوی مال و دولت کے لیے کبھی بھی اپنے ایمان کا سودا نہیں کرے گا۔

2. نوجوانوں میں دینی تعلیم و تربیت کی کمی اور اردو، عربی اور دینی اقدار سے نا واقفیت ۔مسلم نوجوان ہندی/انگریزی ذریعہ تعلیم کے اداروں میں پڑھنے سے غیر مسلموں کے طور طریقوں پر عمل کرنے لگتے ہیں ۔ انہیں مسلم معاشرہ غیر ترقی یافتہ لگنے لگتا ہے ۔

3. مخلوط تعلیم: مردوں اور عورتوں کا اختلاط مسلم سماج کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے ۔ یہ اس وقت اور سم قاتل ہو جاتی ہے جب گھر کا ماحول غیر اسلامی ہو ۔ والدین اپنی زندگی میں مست ہوں اور بچوں کی طرف سے بے پرواہ ۔ ایسی صورت میں بچے غیر مسلموں کی محبت کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور دینی تعلیمات کو نظر انداز کرکے شادی کرلیتے ہیں ۔

4. مخالف جنس کے ساتھ دوستی: آج کل نوجوانوں میں، خاص طور پر پیشہ ورانہ ملازمتوں میں، مخالف جنس سے دوستی بہت عام ہوگئی ہے ۔ یہ آزادانہ تعلقات بھی اکثر و بیشتر بین المذہبی شادیوں کا باعث بنتے ہیں ۔

5. غربت یا بروقت شادی کا نہ ہونا: بین المذہبی شادیوں میں غربت اور اس کی وجہ سے بیٹیوں کا بڑی عمر تک کنوارپن کا ہونا بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ کچھ والدین اپنی بیٹیوں کی شادی دوسرے مذہب کے لڑکوں سے کرنے پر اس لئے مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں اپنی بیٹیوں کے لئے اپنی قوم یا برادری میں تعلیمی اور معاشی طور پر مناسب لڑکے نہیں ملتے، یا پھر وہ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کے مطالبات پورے نہیں کر سکتے ۔

6. لالچ: بعض اوقات دولت یا اچھے کیرئر کا لالچ بھی ایمان کی قیمت پر بین المذہبی شادی کا انتخاب کرنے پر اکساتا ہے ۔

7. جہالت یا کم علمی: زیادہ تر مسلم لڑکے یا لڑکیوں کومعلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا مذہب غیر مذہب کے لوگوں سے شادی کی اجازت دیتا ہے یا نہیں ۔ انجانے میں. وہ شادی کر لیتے ہیں ۔ لیکن بعد میں جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ ان کے مذہب میں ایسی شادی کی اجازت نہیں ہے تو وہ الگ ہو جاتے ہیں ۔ مگر تب تک ان کی زندگی برباد ہو چکی ہوتی ہے ۔ کئی مرتبہ لڑکیاں تو اس ڈر سے کہ انہیں مسلم سماج اپنائے گا یا نہیں وہ غیر مسلم کے ساتھ رہنے کو مجبور ہو جاتی ہیں ۔

8. آزاد خیالی: جو مسلم لڑکے غیر معمولی طور پر وسیع الظرف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ دماغ کی وسعت اور فکر ہی تمام مسائل کا واحد حل ہے ۔ وہ مذہبی حدود کو رکاوٹیں اور پسماندگی کی علامت سمجھتے ہیں ۔ ان کے خیال میں شادی ان کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ لہٰذا وہ بین المذہبی شادیوں کو غلط نہیں سمجھتے ۔

9. تعلیم میں توازن کا فقدان: موجودہ دور میں مسلمان لڑکوں کی بہ نسبت مسلمان لڑکیاں تعلیم میں اعلی نمبرات حاصل کر رہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے مسلمان لڑکے ان اعلی تعلیم یافتہ لڑکیوں کے لیے مناسب نہیں ہوتے ہیں ۔ مسلمان لڑکوں کے مقابلے میں غیر مسلموں کی ترقی کو دیکھ کر بھی متعدد لڑکیوں کو دوسرے مذاہب میں سے اپنے شریک حیات کا انتخاب کرنا بہتر لگتا ہے ۔ جو کم از کم تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے تو ان کے لیے مناسب ہوتے ہیں ۔

10. لڑکیوں کو آزادی: بعض حالات میں مسلمان بچوں کی غیر مسلموں سے شادی کے اصل زمہ دار والدین خود ہوتے ہیں ۔ یہ والدین اپنی بیٹیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں آزاد چھوڑ دیتے ہیں ۔ کئی نوجوان بیٹیوں کو مردوں سے ٹیوشن دلانے کو عیب نہیں سمجھتے ۔ دونوں ہی صورتوں میں لڑکیاں اس آزادی کا فایدہ اٹھا کر غیر مردوں کے پیار جال میں پھنس جاتی ہیں ۔

11. سوشل میڈیا کی لت: سوشل میڈیا کے ذریعہ بہت سے مرد اور عورتیں چیٹنگ، بات چیت اور پھر ایک دوسرے سے گہری محبت کرنا شروع کر دیتے ہیں جو بین المذہبی شادیوں کا ذریعہ بنتی ہے ۔

12. فلمی دنیا کا اثر: سالہاسال سے ہندو مسلم فلمی اداکار مخالف مذہب کر اداکاروں سے شادیاں کرتے چلے آئے ہیں ۔ ان کی بظاہر خوشحال اور کامیاب زندگی کو دیکھ کر مسلمان لڑکے اور لڑکیاں بھی ان کو اپنا رول ماڈل مانتے ہوئے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے شادیاں کر لیتے ہیں ۔

13. اندھا پیار اور اندھا بھروسہ: کچھ لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کی سازش سے بے خبر ہو کر انکی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ کھا جاتی ہیں ۔ مثلاً لڑکا لڑکی کو کہتا ہے کہ وہ اسلام سیکھنا چاہتا ہے، اسلام کی بہت عزت کرتا ہے، مسلمان لڑکیوں سے بہت اچھے سے بات کرتا ہے اور اس سے بہت زیادہ پیار کرنے کی بات کرتا ہے ۔ تحفے دے کر قربت بڑھاتا ہے ۔ والدین نے اگر توجہ نہیں دی تو یہ بین المذہبی شادی کا سبب بن جاتا ہے ۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا ہے: "اور مشرک عورتیں جب تک ایمان نہ لائیں ان سے نکاح نہ کرو، اور مشرک عورتوں سے ایمان دار لونڈی بہتر ہے گو وہ تمہیں بھلی معلوم ہو، اور مشرک مردوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لائیں، البتہ مومن غلام مشرک سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں اچھا ہی لگے، یہ لوگ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ جنت اور بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے، اور لوگوں کے لیے اپنی آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔” (سورہ البقرہ، آیت 221)

اللّٰہ رب العزت کے اس فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت کی جائے ۔ انہیں دینی تعلیمات سے واقف کرایا جائے ۔ گھر کے ماحول اور مسلم معاشرہ کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے ۔ انبیاء اور صحابہ کے واقعات بچوں کو سنائے جائیں ۔ سوشل میڈیا، آفس میں ساتھ کام کرنے والے بچوں کے ساتھیوں کے بارے میں بات کی جائے ۔ شادی کو آسان بنایا جائے اور لالچ کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا احساس کرایا جائے ۔ اگر رجسٹرار کے آفس سے اس طرح کی کسی شادی کے بارے میں معلوم ہو تو ان بچوں اور ان کے والدین کو سمجھایا جائے ۔ یہ کام دینی جماعتوں اور سماجی کارکنوں کے اشتراک سے ہو تو کامیابی ملنا یقینی ہوگا ۔ حالات سنگین ہیں لیکن راہ بھی اسی سے نکلے گی بس کوشش اور اللہ پر بھروسہ ضروری ہے ۔

Comments are closed.