والدین کا سایہ لعل و گوہر سے قیمتی ہے

از قلم:۔ انعام الحسن مدھوبنی

ہمارا مالک حقیقی اللہ ہے؛
لیکن ہر چیز کے وجود میں آنے کا کوئی نہ کوئی ظاہری سبب ہوتا ہے،
اسی طریقہ سے ہمارے اس دنیاء فانی میں وجود کا ذریعہ ہمارے ماں باپ ہیں۔
اس انسانی آبادی میں بسنے والے بہت سے لوگوں کے ہم پر مختلف جہتوں سے احسانات ہونگے لیکن والدین کے احسانات کو سب پر فوقیت حاصل ہے۔
لہذا ان کی عزت و عظمت اور خدمت ہم پر لازم و ضروری ہے۔
قرآن کریم نے جابجا والدین کے احسانات کا تذکرہ کیا ہے انکے ساتھ حسن سلوک اور انکا شکر ادا کرنے کی تلقین کی ہے۔
چنانچہ باری تعالیٰ نے توحید کے ساتھ ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ "تم صرف میری ہی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو” (سورہ بنی اسرائیل)
آگے فرماتا ہے کہ جب انسان بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اس کے اندر چڑ چڑا پن آجاتا ہے اس وقت ہمیں کیا کرنا ہے قرآن کہتا ہے "اگر ان (ماں اور باپ) میں سے دونوں یا ایک تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ ہی جھڑکو اور ان سے نرمی کے ساتھ گفتگو کرو” (سورہ بنی اسرائیل۲٣)
ایک آیت میں اللہ نے اپنے شکر کو والدین کے شکر کے ہمراہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ "تم میرا اور اپنے والدین کا شکر بجا لاؤ” (سورہ لقمٰن١۴)
نبی پاک علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ "جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے” اللہ تعالیٰ نے جنت ماں کے قدموں تلے رکھی ہے اور اس کی وجہ یہ کہ حالت حمل میں ماں جن تکالیف اور صعوبتوں کا سامنا کرتی ہے صرف اور صرف تخلیق کے عمل سے گزرنے کیلئے کرتی ہے ، اللہ کی بارگاہ میں ان کی اس برداشت کو انتہائی قدر و منزلت سے دیکھا گیا ہے اور انعام کے طور پر اس کے قدموں تلے جنت کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔
ایام حمل میں ایک عورت کی تمام تر توجہ کا محور اس کا ہونے والا بچہ ہوتا ہے ، اس کی آمد کی خوشی ماں کو وہ تمام تکالیف برداشت کرنے کا حوصلہ دیتی ہے جس کا سامنا اسے ایام حمل میں کرنا پڑتا ہے۔
ان تاکیدوں اور خوشخبریوں کے باوجود آج جب ہم اپنے اس بگڑے ہوئے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو دیکھنے میں آتا ہے کہ والدین خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔
کیوں؟
کیا والدین نے اولاد کی تعلیم و تربیت پر توجہ نہیں دی یا صحبت اچھی نہیں ملی؟۔
جہاں تک تجربات کہتے ہیں کہ ہر والدین اپنی اولاد کو ہر میدان میں سب سے آگے اور اپنے سے ممتاز دیکھنا چاہتے ہیں۔
اس لئے وہ اس کی تعلیم و تعلم اور اچھی تربیت و ہم نشینی کی خاطر گھر بار یہاں تک کہ اپنے علاقہ کو خیر باد کہہ دیتے ہیں ، اور ہمارا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں ، کسی چیز میں کچھ بھی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے۔
لیکن! سوء قسمت جب والدین خدمت لینے کی عمر کو پہنچتے ہیں تو اولاد کی طرف سے جو تاثرات ملنے چاہیے وہ نہیں ملتے۔
ایک ماں باپ دسیوں بچوں کی ایک جگہ اور ایک گھر میں پرورش کرتے ہیں ، لیکن وہی دس بچے اپنے والدین کی وہ خدمت نہیں کرپاتے جس کی والدین دن و رات خواب دیکھتے ہیں۔
اس عظیم اور وقیع بات سے بھی واقفیت ہوجائے. کبھی اس کے خلاف ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا کہ کسی شخص نے والدین کو ستایا ہو ، انہیں آزمائشوں میں ڈالا ہو اور دنیا سے آرام کے ساتھ رخصت ہوا ہو بلکہ کرب و اضطراب ، قلق و بے چینی ، فاقہ و بدحالی غرضیکہ ہر طرح کی تکالیف جھیل کر یہ بد نصیب دنیا چھوڑتا ہے۔
حضرت اویس قرنی کا واقعہ مشہور ہے کہ نبی پاک ﷺ نے اویس قرنی کا ذکر کرتے ہوئے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے ارشاد فرمایا : کہ تم میں جو اسے پائے اپنے لئے دعائے بخشش کرائے۔
حضرت اویس قرنی کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے متعلق آپؐ نے فرمایا: کہ اویس دنیا والوں میں تو گمنام ہے،لیکن آسمانوں اس کا خوب چرچا ہے۔اگر وہ کسی بات پر قسم کھالے تو اللہ ضرور اس کی قسم کو پورا کریگا اور کل بروز قیامت نیک لوگوں سے کہا جائیگا : تم جنت میں داخل ہوجاؤ ، لیکن اویس قرنی کو روک لیا جائے گا اور کہا جائے گا لوگوں کی سفارش کرو۔ چنانچہ وہ قبیلہ ربیعہ اور مضر کے لوگوں کی تعداد کے برابر گناہگاروں کی سفارش کرینگے۔
کیوں! اتنا بڑا درجہ کیسے ملا؟
صرف اور صرف والدہ کی خدمت کے صلے میں اتنے بڑے مرتبہ کو پہنچے‍۔
کسی دانش مند کا قول ہے:”مَنْ عَقَّ وَالِدَیْہِ عَقَّہُ وَلَدُہ” (جو اپنے والدین کی نافرمانی کریگا تو اس کی اولاد اس کی نافرمانی کریگی)۔۔۔

Comments are closed.