ندائے جامعہ ریاض الصالحین

الطاف جمیل ندوی
انسان نے اب اپنی ضد و انا کی تسکین کے لئے پوری دنیا کو ایک آلودگی کا ڈھیر بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے قدرتی مناظر جہاں انسان کے لئے بہت کچھ ہوا کرتا تھا ہم اسے اپنی انا کی خاطر مسلسل روندے جارہے ہیں اسی لئے اب کہیں ایسی جگہ تلاش و بسیار کے بعد بڑی مشکل سے ملتی جہاں انسان کو یک گونہ تسکین قلب میسر ہو کہیں جگہوں پر اب بھی انسان کے لئے ایسی تسکین دل کے دلکش نظارے موجود ہیں
جن کی لذت و چاشنی قلب و نگاہ کو معطر کئے جاتی ہے جو اب تک اپنے پورے حسن کے ساتھ دیکھائی دیتے ہیں گر کبھی اچانک آپ ایسی جگہ پہنچ جائیں جہاں آپ کو اپنائیت کا احساس ہو اور دل لگ جائے تو سمجھ لیں کچھ اچھا ہورہا ہے یا ہونے والا ہے ایسا ہی میرے ساتھ تب ہوا جب بابا شکور الدین ولی رحمہ اللہ کے پڑوس میں ایک بستی بوٹینگو میں جانا ہوا بستی سے نکل کر ایک پہاڑی کی طرف رخ کیا
جس کی انتہا پر ایک عمارت دور سے دیکھائی دے رہی تھی اور شان سے استادہ ہوکر مائل کررہی تھی اپنی دید کے لئے راستہ پیدل طے کرنا مجھ جیسے کے لئے ممکن نہ تھا پر مولانا سجاد حسین ندوی صاحب نے گاڑی بیجھوا دی گاڑی آئی اور میں اس عمارت کے صحن میں پہنچ گیا پہاڑی کے اوپر یہ خوبصورت عمارت جامعہ ریاض الصالحین نامی ادارے کی عمارت ہے جہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ پہاڑی کے ایک سرے پر وادی کشمیر کے مشہور و معروف بزرگ شیخ حمزہ مخدومی رحمہ اللہ کے ایک خادم خاص اور مرید
کا مسکن ہے جن کا اسم گرامی اذاں شاہ رحمہ اللہ ہے اسی پہاڑی کے راستے کے بارے میں سنا کہ شیخ حمزہ مخدومی رحمہ اللہ
اسی راستے سے گزرتے ہوئے موجودہ ادارے کی جگہ تھک کر سستایا کرتے تھے ادارے میں منشی کے فرائض انجام دے رہے مولوی نذیر احمد بلہ صاحب سے سنا کہ بستی سے گزرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے مشہور و معروف عالم دین مفتی محمود حسن گنگوہی نے مولانا رحمت اللہ صاحب منتظم اعلی دارلعلوم بانڈیپورہ سے فرمایا تھا کہ اس پہاڑی سے مجھے علم کی بو آرہی ہے حد نگاہ تک ایک طرف پہاڑوں کا سلسلہ ہے تو دوسری طرف نیچے بستی کا اک دلفریب نظارہ قلب و جگر کو مسرور کرتا ہے اور دور بہت دور تک نظر جاتی ہے بستیوں کو تکنے کے لئے
مدرس
مدرسہ کے موسس
وارہ پورہ زینگیر کے رہنے والے ایک عالم دین سجاد حسین وار صاحب المعروف سجاد فلاحی ندوی صاحب علیگڑہ سے ایم اے عربی کرنے کے بعد وارد وادی ہوئے تو انہوں نے بھی مدرسہ کے بجائے کالج کو ترجیح دی اور گورنمنٹ کالج ہندوارہ میں بحیثیت استاد اپنے فرائض انجام دینے لگئے شروع میں ڈگری کالج سوپور میں کام کررہے تھے جو کہ مولوی سے زیادہ جینٹل مین بننے کے شوقین تھے اور اس پر نازاں بھی تھے
ایک بار اخبارات میں خبر آئی کہ مولانا زکریا سنبھلی صاحب دارالعلوم سوپور آئے ہیں تو پیر محمد حسین ندوی نے اپنے ساتھی مولانا سجاد ندوی سے اس خبر کا تذکرہ کیا اور کہا کہ تھوڑا وقت نکال کر اپنے استاد سے ملنے جاتے ہیں دونوں ساتھی اپنے استاد سے ملے جہاں مختصر استاد نے مولانا سجاد حسین ندوی سے کہا ارے بیٹا کچھ علمی کام کرتے تو زیادہ بہتر رہتا مولانا سجاد حسین ندوی کہتے ہیں کہ یہ سننا تھا کہ میرا دل بیقرار ہوگیا اور میرے دل میں تڑپ پیدا ہوئی میری راتوں کی نیند اڑ گئی بیقراری نے مستقل میرے دل میں گھر کر لیا زمانہ طالب علمی کے دوران میں مولانا زکریا صاحب کی خاص توجہ کا مرکز رہا ہوں جس کا سبب مجھ پر بیتے مصائب و مشکلات تھے جن کا علم مولانا کو ان کے فرزند مولانا الیاس ندوی جوکہ میرے ساتھی ہیں کے سبب ہوا اسی لئے مولانا دوران درس اکثر مجھ سے کہتے کہ سجاد بیٹے سامنے آکر بیٹھا کرو اور اپنی خاص شفقت و محبت سے نوازتے رہتے مولانا نے جس محبت اور خلوص سے میری جانب توجہ دی تھی یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ مولانا کا حکم سنتے ہی میں بیقرار سا ہوگیا عجب بات یہ تھی کہ میں گھر آکر جس سبب سے سب سے زیادہ غمگین ہوا وہ تھا میرا حلیہ لباس تو بدل دیا انگریزی سے شرعی کردیا پر میری داڑھی بہت چھوٹی تھی اور دل ہچکولے کھا رہا تھا کہ کاش ایسا ہوجاتا کہ صبح ہوتی اور میرے چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی ہوتی اسی تڑپ اور جستجو کے ساتھ جو کام میں نے اول کیا وہ تھا کہ ندوی ساتھیوں کو جمع کرنا انہیں اپنے گھر دعوت پر بلایا پچاس پچپن ندوی فارغین سے رابطہ کیا جو آئے برستی بارش میں اور مشورہ ہوا کہ ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی جائے جو انہیں خطوط پر کام کرے جس طرز پر مادر علمی دارلعلوم ندوہ رواں دواں ہے اس سلسلے میں ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی تفھیم القرآن کے نام سے جو کہ اپنے ہی گاؤں میں شروع کیا پر پیاس نہ بجہی اور بوٹینگو کی اس پہاڑی پر ایک رقبہ خریدنے کے لئے کوشش کی جس میں رب الکریم نے دستگیری کی اب اس زمین کی قیمت ادا کرنے کا جو مرحلہ پیش آیا تو یہ سخت ترین آزمائش کا تھا میرے ہاتھ خالی تھے پر میری رفیق حیات نے اپنا زیور دے کر احسان کیا اور قرضہ ادا ہوگیا جب عمارت بنانے کا مرحلہ آیا تو یہ سخت کٹھن اور صبر آزما ثابت ہوا ایسی جگہ جہاں نہ پانی ہے نہ بجلی نہ راستہ پر کچھ ساتھیوں نے مل کر کام میں ہاتھ بٹایا اور ہم کام کرنے میں مشغول ہوگئے پانی خریدنا پڑتا اور خود مزدوری کرتے خود کو اسی کام کے لئے وقف کردیا اوپر جانے اور نیچے آنے میں اس قدر تھکاوٹ آتی کہ دماغ کہتا چھوڑ دوں یہ کام پر دل پر استاد محترم مولانا زکریا صاحب کے ناصحانہ الفاظ حوصلوں کو تحریک دے رہے تھے کہ ہر صورت اس کام کو کرنا ہے
اسی دوران ہمارے استاد محترم مولانا نیاز صاحب وارد کشمیر ہوئے اور انہوں نے ہی آکر اس جگہ مدرسہ کی سنگ بنیاد رکھ دی اول جب وار پورہ کی بستی میں ادارہ شروع کیا گیا تھا تب تفھیم القرآن کے نام سے شروع کیا تھا پھر مولانا نیاز ندوی صاحب نے تفھیم القرآن کا نام بدل جامعہ ریاض الصالحین رکھنے کا حکم دیا جس کی ہم نے تعمیل کی اور کام شروع کیا سنگ بنیاد کا جلسہ تھا مولانا موجود تھے پر مجھ پر ہیبت طاری تھی کوئی ساتھی ساتھ نہ تھا اکثر لوگ میرے کام سے ابھی مطمئن نہ تھے میں جلسہ گاہ میں اپنی ناکامی کا کرب سہہ رہا تھا کیوں کہ کوئی خاص مجمع موجود نہ تھا اور علماء کرام جو مدعو تھے تشریف لا چکے تھے میں سرمندگئ کا احساس لئے انتہائی آزردہ تھا کہ اپنے اساتذہ سے جلسہ کی قلیل تعداد کے بارے میں کیا کہوں گا
سنگ بنیاد کے ایک ہفتہ بعد میں ایک ندوی ساتھی کے ہم راہ ہرد شیوہ نامی ایک نزدیکی بستی میں مدرسہ کے حوالے سے گئے جہاں رات کو ٹھرنا طے ہوا میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مولانا ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ مسجد میں تشریف لائے ہیں میں نے انتہائی محبت سے ان سے مصافحہ کیا مولانا ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ نے علم پر تبلیغ کی اور دوران تبلیغ مجھے لگا مولانا سامعین میں سے مجھے ہی دیکھ رہے ہیں کچھ وقت کے بعد جب یہی خواب میں نے مادر علمی ندوہ میں مولانا محمد ربع حسنی ندوی سے بیان کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ارے بیٹا اس کا مطلب ہے کہ آپ کو سند ملی ہے مدرسہ چلانے کی مولانا نے آپ کی تصدیق کی ہے جاؤ اور کام کرو اللہ تعالی دستگیری فرمائیں گئے آپ کی
اب جبکہ اک عمارت کا اک ڈھانچہ تعمیر ہوا تھا جس کام کو ہم نے انتہائی مشکلات سے انجام دیا اب اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہی موجود تھا ہم مسرور تھے کہ اللہ تعالی نے دستگیری کی اور ہم نے پہلا مرحلہ طے کرلیا اس کٹھن اور صبر آزما کام کے دوران میرے رفقاء جنہوں نے میرا ساتھ پورے جوش اور جذبہ کے ساتھ نبھایا وہ تھے مولانا اشرف صاحب ندوی مولانا اقبال صاحب ندوی مولانا خورشید صاحب ندوی مولانا افتخار صاحب ندوی مولانا فرہاد صاحب ندوی اور مولانا لطیف ندوی یہ وہ ساتھی ہیں جنہوں نے میرا ساتھ اس صبر آزما کام کے دوران دیا اور پوری یکسوئی کے ساتھ کام میں مشغول رہے حتی کہ ان کے ہاتھوں میں پڑھنے والے چھالے اور ان کے قدموں پر لگی مٹی اور ان کے تھکے ماندے چہرے میں اب بھی بلائے بھول نہیں پارہا ہوں
یہیں گر میں اپنے ساتھی رفیق منزل محترم پیر محمد حسین کا تذکرہ نہ کروں تو زیادتی ہوگئی جو ہمیشہ سایہ بن کر میرے ساتھ ہی رہے جن کی نیک دعاؤں اور مشوروں نے مجھے اس قدر متحرک کیا جس کا یہ ثمر ہے کہ ادارہ جامعہ ریاض الصالحین اپنی پہچھان وادی کشمیر کے علمی ادبی افق پر بنانے کی اور رواں دواں ہے
ایک بار پھر سے اسی دوران ہمارے استاد محترم مولانا زکریا صاحب وارد کشمیر ایک بار پھر ہوئے بوٹینگو پہنچ کر جب ادارے کی اور دیکھا تو کہا ارے بھائی میرے گھٹنوں میں تکلیف ہے وہاں تک کیسے جاؤں پر پھر فرمایا میاں عدنان ( معروف عالم دین مولانا عدنان ندوی صاحب ) چلو بیٹے سجاد کا کام دیکھتے ہیں مدرسہ کے صحن میں پہنچ کر دعائیں دیں اور حوصلہ افزائی کی
ادارے سے متعلق محمد حسین ندوی اپنے تاثرات کچھ یوں بیان کرتے ہیں
وادی کے طول و عرض میں معلومات حاصل کیں ہر طرف نظریں دوڑائیں ہر چار سو غور کیا تو میری نظروں میں کوئی ایسا ادارہ اور کوئی ایسا مدرسہ نہیں آیا جہاں تعلیم کے لحاظ سے قدیم و جدید کا سنگم ہوتا جہاں جدیدیت کے اوپر اسلام غالب ہوتا اور طالب علم اپنی پیاس علمی کچھ یوں گزارتا کہ نکل کر وہ ایک پاکیزہ معاشرہ بنانے میں کردار ادا کرتا وہ علوم اسلامیہ کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم سے واقف ہوتا وقت کی پکار اور وقت کی آواز کے مطابق ہوتا اور اہل علم کی بنیاد پر امت کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کراتا جہاں محبت اخوت للاہیت ہوتی عقیدے ادب احترام میسر ہوتا نئی پود کے لئے نئے مسائل کا حل ہوتا جہاں علوم القرآن علوم الحدیث ادب تاریخ افکار اسلامی ہوتے
بہرحال اللہ کی مشیت ایک کے مطابق ہر چیز کا ایک متعین وقت ہے جب وقت آجاتا ہے تو پھر دیر نہیں لگتی مجھے لگتا ہے جامعہ ریاض الصالیحین بوٹینگو زینہ گیر ہماری امنگوں اور وقت کی ضرورت کے مطابق وجود میں آچکا جہاں یہ سب میسر ہے جو فکر ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ کی ترجمانی کا حق ادا کرنے کی سعی کر رہا ہے جو ان شاء اللہ قدیم و جدید کا سنگم بن کر دکھائے گا اللہ کرے یہ امت مسلمہ کا حق ادا کرسکے
میری ابنائے ندوہ قدیم و جدید سے بصد احترام التماس ہے کہ وہ اس ادارہ کو اپنا جان کر اس کو ایک مرکز کی حیثیت سے روشناس کرائیں اور وقتا فوقتا یہاں آتے جاتے رہیں اور اس ادارہ کو مزید فعال بنانے میں اپنا کردار نبھائیں یہاں آپ کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا گیا ہے جہاں آپ بحسن و خوبی افکار اسلامی کے لئے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں آئے اور اپنی ذاتی ترجیحات کے بجائے اسلام کی ترجیحات پر کام کرنے کی سعی فرمائیں
ادارے کا مختصر خاکہ
جو ساز یہاں پر چھڑتا ہے کہتے ہیں حرم کا ساز ہے وہ ۔
سینوں میں ہے جو بھی راز یہاں دراصل حجاز راز ہے وہ۔
جو گونجتی ہے آواز یہاں جادو سے بھری آواز ہے وہ۔
جو دل نہ کھنچے اس کی جانب بے سوز ہے وہ بے ساز ہے وہ ۔
آج کے اس دور میں جبکہ نوع بنوع کے فتنے ہر سمت سے امت مسلمہ کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں،ان سے حفاظت کے لیے اگر کوئی قلعہ ہوسکتا ہے تو یہ صرف مدارس دینیہ ہیں۔یہ مدارس ہر دور میں دینی چھاؤنیوں کا کام انجام دیتے رہے ہیں۔ مگر آج کے اس دور پر فتن میں ان کی ضرورت و اہمیت پہلے سے کئی زیادہ بڑھ گئی ہے۔روحانی حیثیت سے ان مدارس کی ضرورت بھی ویسی ہی ہیں جو بقیہ نوع انسانی کی ہیں ۔جن کی غیر موجودگی سے صرف جسمانی و مادی خسارہ ہوتا ہے۔لیکن دینی مدارس و مکاتب کے نہ ہونے سے ایمان کو خطرہ، دین کو ضرر اور روح کی ہلاکت و عاقبت کی خرابی کا اندیشہ ہے۔انہی مراکز اسلامیہ کی ایک سنہری کڑی "جامعہ اسلامیہ ریاض الصالحین "ہے۔
جو 1430ھجری مطابق نومبر 2009ء میں قائم ہوا ۔اور شمالی کشمیر میں دارالعلوم ندوہ العلماء لکھنؤ کے منہج پر چلنے والا واحد اور منفرد ادارہ ہے۔
جامعہ کا تعلیمی و تربیتی ڈھانچہ دارالعلوم ندوہ العلماء لکھنؤ کے منہج اور نصاب تعلیم سے تیار کیا گیا ہے ۔اس طرح جامعہ مسلک و منہج کے اعتبار سے کلی طور پر ندوۃ العلماء کے تابع ہے۔اور جامعہ کسی تنظیم کا ترجمان نہیں اور ہر قسم کی گروہ بندی اور فکری دیوالیہ پن سے بالاتر ہے
جامعہ اپنے محترم استاد کی اس فکر کی کام حقہ ترجمانی کرنے کی سعی کر رہا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں
تعلیم گاہوں کی زمہ داری
شریفانہ انسانی زندگی گزارنے کا بنیادی حق خداترسی،انسانی دوستی، ضبط نفس کی ہمت و صلاحیت،ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کی عادت،انسانیت کا احترام،انسانی جان ومال کی عزت و آبرو کے تحفط کا جذبہ،حقوق کے مطالبے پر اداۓ فرض کو ترجیح،مظلوموں اور کمزوروں کی حمایت و حفاظت، ظالموں اور طاقتوروں سے پنجہ آزمائی کا حوصلہ ان انسانوں سے جو دولت و جہت کے سوا کوئی اور جوہر نہیں رکھتے۔عدم مرعوبیت و بےخوفی ہر موقع پر اور خود اپنی قوم اور جماعت کے مقابلے میں کلمہ حق کہنے کی جرأت ،اپنے اور پراۓ کے مقابلہ میں انصاف اور ترازوں کی تول،دانا و بینا کی نگرانی کا یقین اور اسکے سامنے جواب دہی اور حساب کا کھٹکا۔یہی خوشگوار و بے خطر وکامیاب زندگی گزارنے کی بنیادی شرطیں اور ایک اچھے اور خوش اسلوب معاشرے اورایک طاقت ور و محفوظ و باعزت ملک کی حقیقی ضرورتیں اور اس کے تحفظ کی ضمانتیں ہیں،اس کی تعلیم اور اس کے لئے مناسب ماحول مہیا کرنا دانش گاہوں کی پہلی ذمہ داری ہے
اللہ کرے یہ چمن سدا بہار رہے
الطاف جمیل ندوی
Comments are closed.