صادق خان اورحمزہ یوسف سے ظہران ممدانی تک

 

ڈاکٹر سلیم خان

دنیا بھر میں فی الحال اسلاموفوبیا کا دور دورہ ہے۔ اس شجر خبیثہ کی جڑیں یوروپ و امریکہ میں ہیں مگر شاخیں ہندوستان کے اندر لہلہا رہی ہیں۔ ہندوستان چونکہ ایک کثیر آبادی والا ملک ہے ۔ یہاں بیروزگاری بھی بہت زیادہ ہے اس لیے موجودہ حکومت نے اپنے بیکار نوجوانوں کو جینے کے لیے پانچ کلو مفت اناج اور پینے کے لیے نفرت کی شراب کا اہتمام کررکھا ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے تئیں بغض و عناد کے نشے میں مبتلا یہ بھگت اپنے فائدے سے زیادہ مسلمانوں کے نقصان میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ان کو اپنی محرومیوں کی چنداں فکر نہیں مگر مسلمانوں کا نقصان انہیں خوش کردیتا ہے۔ ہندوتوا نوازوں کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کی خاطر ان کے سامنے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو بڑھا چڑھا کرپیش کرکے اس کی آڑ میں ہندووں کے استحصال پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسے میں مغرب کو اپنے لیے جنت سمجھنے والے زعفرانی جب دیکھتے ہیں کہ لندن کا میئر ایک پاکستانی نژاد مسلمان ہے تو پریشان ہوجاتے ہیں ۔ ان کو جب پتہ چلتا ہے کہ نیویارک کے میئر کی دوڑ میں سب سے آگے ایک ہندوستانی مگر مسلمان ہے تو وہ خوش ہونے کے بجائے مغموم ہوجاتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ اسکاٹ لینڈ میں ایک مسلمان وزیر اعظم بن گیا تو دل مسوس کےر ہ جاتے ہیں ۔ان بیچاروں پر تو جون ایلیا کایہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں خوش ہومسلم تو اس سے جلتے ہیں

نیویارک میئر کے انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ذریعہ ظہران ممدانی کی حمایت کے بعد میڈیا پر چھا گئے۔ ان کی مقبولیت میں حامیوں سے زیادہ مخالفین کا کردار ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگر کسی کی زوردار مخالفت کردیں تو ان کے سارے لوگ ازخود حمایت میں آجاتے ہیں۔ ا س کا سب سے بڑا ثبوت نریندرمودی اور نیتن یاہو کی عالمی تنہائی ہے۔ ان کے ساتھ ٹرمپ تو ہے مگر کوئی اور نہیں ہے اس کے برخلاف آیت اللہ خامہ ای کو ٹرمپ کی مخالفت نے دنیا کا مقبول ترین رہنما بنا دیا خیر مغرب کے ایوانوں میں مسلمانوں کی ناموری نئی نہیں ہے۔ ان سے قبل لندن کے پہلے مسلمان میئر صادق خان نے یوروپ میں اپنی شخصیت کا لوہا منوا چکے ہیں ۔ برطانیہ کے علاوہ مارچ 2023 میں سکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ نے پاکستانی نژاد حمزہ یوسف کو فرسٹ منسٹر یعنی وزیر اعظم منتخب کرکے ساری دنیا کو چونکا دیا ۔ 37 سالہ حمزہ یوسف سکاٹ لینڈ کے سب سے کم عمر نوجوان اور پہلے مسلم سربراہ تھے اور اب ۳۳ سالہ ظہران ممدانی کا چرچا ہے۔ تاتار تو خیر اب نہیں رہے مگر اسلام اور مسلمانوں مغرب کی فکری یلغار کا شکار ہیں ایسے میں یوروپ سے آنے والی یہ خوش کن خبریں علامہ اقبال کو شعر کو اس ترمیم کے ساتھ پیش کرتی ہیں ؎

ہے عیاں مغربی یلغار کے افسانوں سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

امسال جب لندن میں صادق خان کو ’سر‘ کے خطاب سے نوازا گیا تو وہاں کےقدامت پسندوں یعنی کنزرویٹیوز کا ردعمل بھی بالکل ڈونلڈ ٹرمپ یا نریندر مودی جیسا تھا جن کے گلے سے اپنے مخالف کی عزت وتکریم نہیں اترتی اور اپنی کینہ پروری کا اظہار کرکے خود کو رسوا کرلیتے ہیں ۔ پاکستانی نژاد صادق خان نے توپذیرائی کے بعدپروقار انداز میں کہا کہ ’یہ میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہے‘ مگر اس خوشی کے موقع پر بھی حسد کی آگ میں جلنے والے کنزرویٹیو سیاست داں کرس فلپ نے شہر میں بڑھتے جرائم کا حوالہ دے کراسے ’ناکامی کا انعام‘ قرار دے دیا۔فلپ کی تنقید کا خندہ پیشانی سے جواب دیتے ہوئے صادق خان نے کہا کہ ’اگر انھوں نے نئے سال پر کوئی نیا عہد نہیں کیا تو پھر یہ آخری بار نہیں ہے کہ وہ مجھ پر تنقید کر رہے ہیں۔‘ اس جواب سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ ان کے لیے غیر متوقع ردعمل نہیں ہے۔ وہ آئندہ بھی اسی طرح کے بیانات کی توقع کرتے ہیں مگر ایسی مخالفت ان کو دل شکستہ نہیں کرسکے گی ۔ وہ اپنے بلند عزائم کے ساتھ ایسے مخالفین کی پروا کیے بغیر آگے بڑھتے رہیں گے۔

کرس فلپ کے برعکس برطانوی خارجہ سیکرٹری ڈیوڈ لیمی نے سر صادق خان کو مبار باد دیتے ہوئے کہا کہ’برطانیہ ایسی جگہ ہے جہاں ایک بس ڈرائیور کے بیٹا بھی اس مقام تک پہنچ سکتاہے۔‘ 1970 میں لندن کے اندر پیدا ہونے والے صادق خان کے والدین پاکستان سے نقل مکانی کر کے برطانیہ آئے ۔ اس کے بعد والد ڈرائیور کے طور پر ملازمت کی اس وقت کون جانتا تھا کہ ان کا بیٹا آگے چل کراس ملک کا وزیر ٹرانپورٹ بنے گا لیکن یہ دنیا انسانوں کی مرضی سے نہیں بلکہ مشیت ایزدی سے چلتی ہے ۔اس موقع پر سیکرٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاتھا کہ ’صادق خان کی متعارف کردہ پالیسیوں نے لندن کی فضا کو صاف کرنے میں مدد دی، انھوں نے سکولوں میں مفت کھانے کا انتظام کروایا اور مکانات تعمیر کروائے۔‘ یہ مسلمانوں کی غریب پروری ہے کہ وہ علم کی روشنی کوعام کرتے ہیں ۔ عوام کو رہائش فراہم کرتے ہیں جبکہ اپنے ملک کی ڈبل بلڈوزر مدرسوں اور گھروں کو مسلمار کرکے اس پر فخر جتاتی ہیں۔ یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اتنے لاکھ ایکڑ غیر قانونی زمین بلڈروں کے لیے خالی کروالی گئی یہ نہیں بتایا جاتا کہ کتنے لاکھ لوگوں کے سروں سے چھت چھین کر انہیں بے گھر کر دیا گیا۔

صادق خان کی ابتدائی پرورش کونسل کے فراہم کردہ فلیٹ میں ہوئی اور انہوں نے ایک عام سرکاری سکول میں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ غرباء اور مساکین کا درد ان سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کی تکمیل کے بعد وکالت کی ڈگری حاصل کرنے والا صادق انسانی حقوق کی بحالی کے لیے لڑنے لگا اور لندن کی میٹروپولیٹن عدالت میں نسلی تعصب کے مقدمات کی پیروی کرنے لگے۔ 2005 میں لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر انہوں نےجنوبی لندن کے علاقے ٹوٹنگ سے انتخابی کامیابی درج کرائی ۔ ان صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے برطانوی دارالعوام(لوک سبھا) میں قائد ایوان جیک سٹرا نے انہیں اپنا نجی پارلیمانی سیکریٹری مقرر کیا اور اس طرح یہ بس ڈرائیور کا بیٹا ترقی کرتے ہوئے وزیر ٹرانسپورٹ بنا۔ حزب اختلاف کے رکن پارلیمان کی حیثیت سے وہ شیڈو وزیر انصاف رہے اور لیگل ایڈ کے نظام میں اصلاحات کی مہم چلائی۔2016 میں وہ پہلی بارلندن کے میئر منتخب ہوئے اور پچھلے سال مسلسل تیسری بار میئر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے ریکارڈ بنایا ۔

صادق خان کے بعد یوروپ کے سیاسی افق پر حمزہ یوسف کا نام ابھرا۔ برطانیہ کے اندر کسی بڑی سیاسی جماعت کی قیادت کرنے والے پہلے مسلمان ہیںحالانکہ سعیدہ وارثی 2010 سے 2012 تک کنزرویٹو پارٹی کی شریک چیئر پرسن رہ چکی تھیں مگر وہ معاملہ مختلف تھا۔ حمزہ یوسف کے والدمظفر یوسف پاکستان کے شہر میاں چنوں سے 1960 کی دہائی میں خاندان سمیت سکاٹ لینڈ گئے تھےاور کینیا کی ایشیائی خاتون شائستہ بھٹہ کے ساتھ نکاح کیا ۔حمزہ یوسف اپنے اسکول میں اقلیتی طلباطبقہ سے تعلق رکھنے والے دو میں سے ایک تھے اور جڑواں ٹاورس کے ڈھائے جانے پر ان کے ساتھ معاندانہ سلوک شروع ہوگیا تھا۔یوسف کے والدین انہیں ڈاکٹر، ڈینٹسٹ، فارماسسٹ، اکاؤنٹنٹ یاوکیل بنانا چاہتے تھے لیکن انہوں سیاست کا انتخاب کرکے2007 ءمیں ایم اےکیا مگر ساتھ ہی گلاسگو یونیورسٹی مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے صدر اور چیریٹی اسلامک ریلیف کے رضاکار میڈیا کے ترجمان کی ذمہ داری ادا کی ۔ بارہ سال تک کمیونٹی ریڈیو کے لیے کام کرتےہوئے بے گھر پناہ گزینوں کو کھانے کے پیکج فراہم کرنے کاکام بھی کرتے رہے۔

یوسف نے 2005 ءمیں سکاٹش نیشنل پارٹی (SNP) میں شمولیت اختیار کی اور 2007ء کے سکاٹش پارلیمانی انتخابات میں ان کی پارٹی اقتدار میں آگئی تو انہیں پارلیمنٹ میں ملازمت ملی۔2008ء میں ایک معاون کے طور پر کام کرتے ہوئے، یوسف نے امریکی محکمہ خارجہ کے زیر انتظام انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام میں حصہ لیااور 2009ء میں انہیں ینگ سکاٹش اقلیتی نسلی ایوارڈز میں "فیوچر فورس آف پولیٹکس” سے نوازا گیا۔ مئی 2011 ءمیں 26 سالہ یوسف سکاٹش پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوگئے اورروایتی شیروانی پہن کر انگریزی و اردو میں حلف اٹھایا۔ 2012ء میں انہیں وزیر خارجہ اور بین الاقوامی ترقی مقرر کرکے کابینہ سیکرٹری برائے ثقافت کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ۔ 2016 میں وہ وزیر ٹرانسپورٹ بنائے گئے، اور2018 انھیں وزیر انصاف کا عہدہ ملا۔ 2023میں وہ فرسٹ منسٹر یعنی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس وقت سکاٹ نیشنل پارٹی (ایس این پی) سے تعلق رکھنے والے حمزہ یوسف کو سکاٹش گرینز پارٹی کے ارکان کی بھی حمایت حاصل تھی مگر جب ایک سال بعد حلیف جماعت سے الحاق ٹوٹا تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ۔اس موقع پر نہایت پر وقار انداز میں انھوں نے کہا تھا کہ اعتماد کا ووٹ جیتنے کے لیے سمجھوتا کرکےکرسی بچانا ممکن تھا لیکن وہ اقتدار کی خاطر اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔اس طرح حمزہ یوسف نے اپنے اصول و ضوابط کو اقتدار پر ترجیح دے کر ایک بہترین مثال قائم کی ۔ امید ہے ظہران ممدانی بھی اسی طرح کی مثال پیش کریں گے۔

Comments are closed.