حاصل مطالعہ اور پروفیسر سید محمد احتشام الدین

ڈاکٹر منصور خوشتر
دربھنگہ ،بہار
ڈاکٹر سید احتشام الدین کی شخصیت ذرا مختلف نوعیت کی ہے ۔ سی ایم کالج دربھنگہ میں شعبہ ¿ اردو ، پروفیسر کے عہدے سے سبکدو ش ہوچکے ہیں۔ درس و تدریس کے علاوہ تفریحی اور سماجی فلاحی مشاغل میں حصہ لیتے ہیں۔ ”رسول منزل“ محلہ ملا حلیم خاں میں ان کی قیام گاہ ہے۔ اس وقت ا ن کی عمرتقریباً ۷۶ سال ہوچکی ہے لیکن ذہنی طور پر بالکل جوان ہیں۔ ان کی دوستی بچوں، جوانوں اور بوڑھوں سے ہے۔ ہر عمر کے لوگوںمیں وہ آسانی سے گھل مل جاتے ہیں۔ جب بھی ملتے، جہاں بھی ملتے ان کے چہرے پر مسکان نمایاں رہتی ہے۔ گفتگوکرتے ہیں تب مسکراہٹوں اور کھلکھلاہٹوں کا ایسا حسین سماں پیدا کردیتے ہیں کہ بے رونق محفل میں بھی جان آجاتی ہے۔
شعر وادب سے ڈاکٹر سید احتشام الدین صاحب کا رشتہ تقریباً ۰۴ برسوں کا ہے ان کے بہت سے مضامین ہندوستان کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ چند برسوں سے اپنی خراب طبیعت کے باعث انہوں نے اپنے قلم پر بریک لگارکھی ہے۔ لیکن یکایک ادبی ہلچلوں نے ان کے دل میں انگڑائیاں لیں اور انہوں نے اس کتاب کو شائع کرنے کا فیصلہ لیا۔ اب پھر سے انہوں نے کچھ مضامین قلم بند کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ پیش نظر کتاب ”حاصل مطالعہ“ قارئین کے ہاتھوں میں ہے۔ امید ہے اس کی پذیرائی سے ڈاکٹر احتشام الدین صاحب کا حوصلہ بڑھے گا۔ ان میں نئے سرے سے ادبی جوش اور ولولہ پیدا ہوگا۔
پیش نظر کتاب ”حاصل مطالعہ “میں شامل پیش لفظ ”اعتذار“ میں سید احتشام الدین صاحب فرماتے ہیں:
”مقالے میں ہماری کوشش رہتی ہے کہ ہم پرانی ادبی سرگرمیوں کے محاسن و معائب سے باخبر ہوتے ہوئے جدید اور جدید ترین تحریکات سے، عصری آگہی کے ساتھ، ہم رشتہ رہ کر باتیں کریں۔ یہ اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب ہم مختلف تہذیبی اختلافات کو مٹاکر باہمی رشتوں کو مضبوط کریں۔ ماضی ، حا ل اور مستقبل کے ہونے والے مسائل سے باخبر ہوکر صالح قدروں کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں۔“
ڈاکٹر جمال اویسی معروف ناقد اور معتبر شاعر ہیں۔انہوں نے اس کتاب پر اپنا مقدمہ ”توثیق“ کے عنوان سے لکھا ہے۔ ڈاکٹر سید احتشام الدین اور ان کی کتاب حاصل مطالعہ کے سلسلہ میں اپنی تحریر کچھ ا س طرح رقم کرتے ہیں:
”ڈاکٹر سید احتشام الدین صاحب کے مضامین کا مجموعہ ”حاصل مطالعہ“ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جسے ہم نظریاتی یا ادعائی نہیں کہہ سکتے۔ احتشام الدین صاحب کل وقتی نقاد نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا مزاج کل وقتی نقادوں جیسا ہے۔ وہ زیادہ تر اپنے اس احساس جمال پر تکیہ کرکے مضمون لکھتے ہیں جو ان کے مطالعہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ احساس جمال جو مطالعہ کے نچوڑ سے پیدا ہوتا ہے ایک قاری کا ہے۔ اور یقینا ڈاکٹر احتشا م الدین ایک قاری کے تاثرات ہی قلم بند کرتے ہیں۔ ہاں مگر یہ قاری بھی اپنی طرح کا ایک قاری ہے۔ اس قار ی کے ساز و سامان میں بھی بہت سی چیزیں شامل ہیں لیکن خدا کے لئے انہیں وہ قاری نہ سمجھا جائے جس کا ذکر آج کل کی تنقید میں بہ زیادہ ہونے لگا ہے۔ کیونکہ یہ قاری ادب کا ایک چودھر ی ہوتا ہے اور اس کے مزاج میں جاگیرداری ہوتی ہے۔“
کتاب سولہ مضامین پر مشتمل ہے۔ یہ مضامین فراق کی غزلوں میں الفاظ کی نامیاتی حیثیت، یادیں: اس آباد خرابے میں، مجروح سلطان پور ی :حرمت ادب و فن ، ساحر کی شاعری کا بنیادی مسئلہ، خلیل الرحمن اعظمی: سکہ کا دوسرا رخ، وہاب اشرفی بحیثیت محقق و ناقد، کلام حیدری بحیثیت افسانہ نگار، جگا: نیرنگی فطرت کی ایک مثال، ظفراوگانوی :قیمتی یادیں، گہرے زخم، تم کو دیکھیں ایک مطالعہ ، تخلیقی قدروں کا پاسدار :عرفان صدیقی، علقمہ شبلی ایک مطالعہ ، تنہائی: ایک تسلسل کا جھولا، محسن دربھنگوی کی شاعری، قاضی عبدالستار کا ناول ”غالب“ ایک مطالعہ اظہر نیر کی شاعری اپنے عہد کی آواز“ ہیں۔ زیادہ تر مضامین کافی معلوم افزا اور پُر مغز ہیں۔
”یادیں“ :اس آباد خرابے میں“ کے عنوان سے سید احتشا م الدین صاحب کا بڑا ہی دلچسپ مضمون شامل ہے۔ یہ مضمون اخترالایمان کے اس کتاب پر جس میں ان کی آپ بیتی ہے۔ اختر الایمان نے ایسے ماحول میں آنکھیں کھولیں جہاں پریشانیاں تھیں، مصیبتیں تھیں ، مفلسی تھی، تنگ دستی تھی ، ہر روز کنواں کھود کر پانی نکالنا تھا اور زندگی اپنی پوری ذلالت کے ساتھ رواں تھی۔ والد مولوی ہیں امامت کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی شاگردہ اور دوسری خواتین کے ساتھ عشق لڑاتے ہیں۔ ماں ناخواندہ ہیں ، باپ کے چال چلن کی وجہ سے گھر میں ایک جنگ جاری ہے ۔ والد ایک جگہ نوکری چھوڑتے ہیں دوسری جگہ پاتے ہیں او ر یہ بھی خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کبھی اسکول میں داخل ہورہے ہیں تو کبھی مدرسہ میں حفظ قرآن کر رہے ہیں۔ کہیں نین سکھ حافظ ہیں جو پاجامہ کے پیچھے ہاتھ ڈال کر پٹائی کرتے ہیں۔ اخترالایمان کو کہیں گاﺅں کا دلکش ماحول موہ لیتا ہے اور یہ اس ماحول سے اپنی روحانی مطابقت پاہی رہے ہوتے ہیں کہ انہیں اس ماحول سے دور بانس اور آموں کے جنگل کے درمیان سگھ مدرسہ میں چلے جانا پڑا۔ اور یہ حیرتی بنے اس موڑ پر ہی ٹھہر گئے۔ اس کے چھوٹنے کا غم، ایک وقت آمیزکراہ بن کر ان کے بے بسی اور بے کسی کی داستان میں تحلیل ہوگئی۔ ایک نامرادی کا تیر کہیں رگ جاں میں ٹوٹ کر رہ گیا ، زندگی کی ہر سانس اب اس کے لمس سے لہو لہان ہوجاتی ہے۔
مجروح سلطان پوری کی حرمت ادب کا تذکرہ مصنف نے بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ مجروح سلطان پوری اجتماعی جدوجہد کے فقدن ، سیاسی حالات ، نچلے طبقے کے عوام کی مشکلات کو خود اعتمادی ، خودداری ، عزم و یقیں کی کمی اورہاتھ پر دھرے، پست ہمتی کو بتاتے ہیں۔ ظلم و تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے کو اخلاقی فرض سمجھتے ہیں۔
ساحر کی شاعری سے گفتگو کرتے ہوئے سید احتشام الدین فرماتے ہیں کہ ساحر کی شاعری کو سمجھنے کے لئے کسی نئے زاویے یا نظریے کے تحت روشنی ڈالنے سے زیادہ خود ان کی زندگی اور شخصیت سے واقف ہونا ضروری ہے۔ ساحر کی شاعری کی عظمت و مقبولیت کا سرچشمہ خود ان کی اپنی زندگی کے حالات میں پوشیدہ ہے۔ عالمی کساد بازاری ، اونچ نیچ ، لوٹ کھسوٹ، سیاسی سماجی ، غرور اور گھمنڈ، ہلکی نسلی بالادستی کے ذاتی تجربات میں ڈھل کر ان کے ضمیر کی آواز بن گئے ہیں۔
مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب ”حاصل مطالعہ“ میں شامل مضامین مطالعے کی چیزیں ہیں ۔ ان سے استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ سید احتشام الدین صاحب کا یہ اندازکہ کسی بھی عنوان پر قلم اٹھاتے ہیں تو اس کی پوری تفصیل میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ قارئین کے لئے مفید ہے ۔ اس کتاب کی پذیرائی ادبی حلقے میں ہورہی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔
٭٭٭
Comments are closed.