گھریلو نظام تعلیم وتربیت میں ماں کا روشن کردار ۔(2)

✒️ : عین الحق امینی قاسمی
ماں کی تربیت ،بنیاد کی پہلی اینٹ کی طرح ہوتی ہے ، بنیاد اگر کمزور ہے تو سمجھ لیجئے کہ پوری عمارت ہر حال میں کمزور ہوگی ،یادیوار کی پہلی اینٹ ٹیڑھی اگر پڑ گئی تو پھر پورے مکان کی دیواریں ٹیڑھی نظر آنے لگیں گی ،ماں کی تربیت ہی وہ بنیاد ہے جس پر انسانی زندگی کی تعمیر ہوتی ہے ،اسی لئے ماں نے اگر بچوں کی تربیت کی ہوئی ہے ،تو اس کے دیر پا ثرات بھی بچوں کی عملی زندگی میں صاف جھلکنے لگتے ہیں ، مثلا : ماں نے اپنے بچوں کی سلام کرنے کے سلسلے میں تربیت کی کہ” سلام کو عام کرنا پیارے نبی جی کی سنت ہے "ہر خاص و عام کو سلام کرنا چاہئے ،بشرطیکہ وہ مومن ہو ،اگر چہ ہم اسے نہ جانتے ہوں "اس سلسلے کی نصیحت بچوں سے کی جائے تو محض دوچار روز کی لگا تار محنت سے بچہ سلام کا ایسا عادی ہوجا ئیے گا کہ وہ عادت اس کی گھٹی میں پڑجائے گی اور اب وہ یقینا سلام میں پہل کرنا ،اپنی سعادت تصور کرے گا ،گاؤں محلے میں آنے والا اجنبی بھی اس اچھی اور پیاری عادت سے متآثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
شروعاتی دن سے ہی بچوں کو ماؤں کے ذریعے اگر اس بات کی تعلیم دی گئی کہ دسترخوان پر کھانا کھاناسنت ہے ،دستر خوان مہمانوں کے لئے ہی خاص نہیں ہے ،گھر کے ہر فرد د کے لئے اس کا استعمال باعث اجر و ثواب ہے ۔کچھ روز مائیں اس پہلو پر محنت کرکے بچوں کو دستر خواں پر کھانا کھانے کی عادت ڈال دیں ،تو اس سےنہ صرف یہ کہ بچوں کے لئے پوری زندگی پیارے نبی جی کی ایک سنت پر عمل کرنا آسان ہو جائے گا ،بلکہ بچہ جو رزق اس دستر خوان پر کھائے گا اس کی عظمت بھی دلوں میں جاگزیں ہوگی اور یقینا وہ کھانے کے دوران گرنے والے دانوں کو بابرکت سمجھ کر اٹھا کر کھانے میں خوشی محسوس کرے گا ،اس سے جہاں روزی کے تعلق سے قدر دانی کی توفیق ملے گی وہیں اللہ تعالی کی طرف سے روزی میں وسعت وبرکت کے اسباب بھی میسر ہوں گے ۔مائیں بچوں کو مذاکروں کے ذریعےبہت آسانی سے پانی پینے کی سنتوں کو یاد کرا کر ،اس پر عمل کرنا بھی سکھا سکتی ہیں ،بچے ایک نئی چیز جان کر خوبیوں کے سا تھ خوشی خوشی ان سنتوں کویاد بھی کرلیں گے ، اس طرح کی جو تعلیم عملاً، مہینوں میں مشکل سے مل پائیں گی ،بالیقین مائیں چند دنوں کی توجہ سے ان بچوں کے ذہن وفکر کی گہرائی میں نسبتاَ آسانی سے اتار کر عمل پر کھڑا کرسکتی ہیں ۔
اسی طرح کلمے کا مذاکرہ ،قران کریم کی تعلیم ،اردو وغیرہ کی شد بد یا چھوٹی چھوٹی حدیثوں کو یاد کرانے کا عمل اور ادعیہ وسنن کا زبانی یاد کرانا وغیرہ ،مائیں اپنے گھریلو نظام تعلیم وتربیت میں ان امور پر محنت کرکے بچوں کے حق میں ایک بڑی خدمت انجام دے سکتی ہیں ،بلکہ ان کے لئے ایمان و عقیدے کی تعلیم ،نماز ،طہارت ،فرائض ،واجبات سمیت اخلاقی تربیت بھی کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے ،وہ اپنے گھریلو کاموں کے ساتھ روزانہ کی ترتیب کے اعتبار سے اپنے بچوں کی بنیادی دینی تعلیم وتربیت کے فرائض بخوبی انجام دے سکتی ہیں ۔
مائیں اپنے اوقات میں سے بچوں کو اگر یومیہ صرف ایک گھنٹہ، ان کی مذہبی فکری ،اصلاحی اور اخلاقی تعلیم وتربیت کے لئے اپنا وقت فارغ کرلیتی ہیں تو ملت کا بہت بڑا کام انجام پاسکتا ہے اور وہ بھی بالکل مفت ۔گھر گھر اگر یہ نظام بن جاتا ہے ،مائیں اتنی ذمہ داری اٹھا لیتی ہیں تو اس سے نہ صرف اولاد کا لازمی حق ادا ہوگا ،بلکہ آخرت کی بہت بڑی جواب دہی سے بھی وہ پورے خاندان کو بچالینے میں کامیاب ہوں گی ۔بچپنے میں بہت سے ایسے امور ہیں ،جنہیں بچے محض دیکھ کر سیکھ لیتے ہیں ،اس میں بھی زیادہ وقت بچوں کا چوں کہ ماں کے پاس ہی گذرتا ہے ،اس لئے سیکھنے کے معاملے میں وہ ماں کو ہی ایک معتبر حوالہ خیال کرتے ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ ان کی نگاہ میں ماں سے زیادہ معتبر کوئی دوسری شخصیت نہیں ہوتی ،اس لئے اچھا یا برا جو کچھ بھی گھریلو زندگی میں بچے سیکھتے ہیں ،اس میں ماں کا اہم کردار ہوتا ہے ،ایک ماں کی پوری زندگی گویا اپنی اولاد کے لئے کا آئینہ ہوتی ہے ،جس میں بچہ جرائم سے پاک اپنا روشن مستقبل دیکھ رہا ہوتا ہے …..(جاری)
Comments are closed.