مسجد کے لیے مختص کی گئی زمین پر مدرسہ

۔
?دارالافتاء شہر مہدپور?
ایک گاؤں میں بریلوی اور دیوبندی میں جھگڑا ہوا۔ دیوبندی حضرات نے الگ سے زمین خرید کر مسجد کی بنیاد ڈالی اور اس کو تعمیر بھی کیا، ابھی نماز شروع نہیں ہوئی تھی اور دونوں میں صلح ہو گئی، اب تعمیر شدہ عمارت مسجد کے حکم میں رہے گی یا نہیں؟ ابھی اس میں مدرسہ چلتا ہے، جواب مطلوب ہیں۔
المستفتی: بندہ خدا
*الجواب حامدا ومصلیا ومسلماامابعد*
*بیان کردہ صورت میں وہ زمین وعمارت مسجد کے حکم میں نہیں ہوئی ہیں، اس لیے اس زمین کو وقف کرنے والے کی رائے کے مطابق استعمال کیا جائے۔ اور اگر کسی کمیٹی نے عوامی تعاون سے وہ زمین حاصل کی اور عوامی تعاون سے تعمیری کام کیا ہے توعوام کے علم میں لاکر اس زمین کو وہ کمیٹی باہمی کے مشورے سے مکتب، مدرسہ یا جماعت خانہ، مسافرخانہ وغیرہ کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔*
عن ابی حنیفۃ اذا صلی فیہ واحد باذنہ یصیر مسجدا،الاان بعضھم قال:اذاصلی فیہ واحد باذان واقامۃ، وفی ظاھر الروایۃ لم تذکر ھذہ الزیادۃ۔والصحیح روایۃ الحسن وھو انہ یشترط اداء الصلوۃ بالجماعۃ من اثنین فصاعدا باذنہ کماقال محمد۔
(الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الوقف،الفصل فی المساجد، ج 8؍ ص156، رقم المسئلة: 11495)
وکذا الرباط والبئر اذالم ینتفع بھما، فیصرف وقف المسجد و الرباط والبئر والحوض الی اقرب مسجد او رباط او بئر اوحوض الیہ۔(الردالمحتار مع الدر المختار ج 6؍ ص 549۔زکریا)
فقط
واللہ اعلم بالصواب
*کتبہ: (مفتی) محمد اشرف قاسمی*
خادم الافتاء شہر مہدپور ضلع اجین(ایم پی)
ashrafgondwi@gmail.com
۲۷؍صفرالمظفر۱۴۴۱ھ
15؍ اکتوبر 2020ء
تصدیق:
مفتی محمد سلمان ناگوری۔
مہد پور، اجین، ایم پی۔
ناقل: (مفتی) محمد توصیف صدیقی
معین مفتی: دارالافتاء شہر مہدپور
Comments are closed.