Baseerat Online News Portal

نیٹ NEET کے موجودہ نتائج اور مسلمان! ڈاکٹر مولانا عارف الیاس ندوی میوات

نیٹ NEET کے موجودہ نتائج اور مسلمان
_________

چند روز قبل سامنے آئے *نیٹ NEET* کے نتائج میں شعیب آفتاب نامی ایک نوجوان نے جو تاریخ رقم کی ہے وہ صرف ایک ریکارڈ ہی نہیں بلکہ انہوں نے قوم کے نوجوانوں کے لئے ایک مشعل روشن کرکے ان کو اس راہ پر چلنے کا جذبہ اور جنون پیدا کر دیا ہے۔
ملک کی تاریخ میں جب بھی کسی مسابقاتی امتحان میں کوئئ مسلمان پہلی پوزیشن حاصل کرتا ہے تو اس کے بالکل الگ اور دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ماضی میں ایسے واقعات بہت ملیں گے جہاں ملک میں کسی نہ کسی میدان میں کسی مسلم/ مسلمہ نے پہلی پوزیشن حاصل کی ہو۔ دس سال قبل یونین پبلک سروس کمیشن UPSC کے مسابقاتی امتحان میں جب کشمیر سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاہ فیصل نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں ان کو بآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے اور محسوس کیا بھی گیا۔ قومی سطح پر منعقد ہونے والے یہ مسابقاتی امتحانات کئ وجوہات کی بناء پر خاص ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ایک طرف جہاں یہ امتحانات کسی شخص کی ذاتی زندگی کو مکمل طور بدل کر رکھ دیتے ہیں اور اس کی دنیا ہی بدل جاتی ہے تو وہیں دوسری طرف پوری قوم اور سماج پر اس کے مثبت اور حوصلہ افزا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور بسا اوقات یہ مثبت نتائج قوم کی نفسیات کو بدل دینے کا کام کرتے ہیں۔ ماضی قریب میں اگر شاہ فیصل کی مثال کو سامنے رکھا جائے تو کئ اہم اور حوصلہ افزا باتیں سامنے آتی ہیں۔
1- جب ڈاکٹر شاہ فیصل نے سول سروسز کے اس امتحان میں کامیابی حاصل کو تو وہ نئ نسل کے لئے ایک قابل تقلید نمونے کے طور سامنے آئے۔
2- جب وہ صرف سترہ سال کے تھے تو ان کے والد کی وفات کا سانحہ پیش آیا مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔
3- سنہ 2010 کے بعد سے مسلسل ہر سال کوئئ نہ کوئی جموں و کشمیر سے اس امتحان میں کامیاب ہوکر وہاں کی نمائندگی کرتا آ رہا ہے۔
4- شاہ فیصل چونکہ علامہ اقبال کو بہت پسند کرتے ہیں اور ان کے سینکڑوں اشعار ان کو زبانی یاد بھی ہیں، تو اقبال رح سے ان کے تعلق نے ملک بھر کے اردو داں طبقہ خواہ وہ مدارس سے تعلق رکھتے ہوں یا ان کی مادری زبان اردو ہو دونوں ہی کو بڑی حد تک متاثر کیا، اور اس کا اثر یہ ہوا کہ اردو داں حضرات بھی اس امتحان میں شرکت کرکے سرخرو ہونے لگے، اور خصوصاً مدارس کے فضلاء جو یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں شاہ فیصل کی کامیابی نے ان میں بھی ایک الگ جذبہ پیدا کردیا۔

اس میں شک نہیں کہ جموں و کشمیر میں تعلیمی اعتبار سے پہلے ہی سے بہت بیداری ہے اور وہاں کے لوگ مسابقاتی امتحانات میں بڑے پیمانے پر شرکت کرتے رہے ہیں مگر جب شاہ فیصل نے UPSC کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی تو وہ راتوں رات شہرت کے بام عروج کو پہنچ گئے اور کروڑوں نوجوانوں کے Role Model بن گئے، ان کی پوزیشن نے پورے جموں و کشمیر میں خصوصاً اور پورے ملک میں عموماً امید اور حوصلہ کا ایک ایسا چراغ روشن کردیا کہ لوگ اس میدان کی جانب پہلے سے زیادہ کوشش کرنے لگے اور اس امتحان میں کامیابی کی دھن سوار کرنے لگے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیر سے ہر سال اس امتحان میں کئ لوگ کامیاب ہو کر بلندیوں کو چھونے لگے ہیں۔ ان کی پہلی پوزیشن نے در اصل قوم کی نفسیات کو اس امتحان اور دیگر مسابقاتی امتحانات کے تئیں بالکل بدل کر رکھ دیا اور یہ حوصلہ دے دیا کہ بشرط محنت کوئئ بھی کامیابی کی کہانی رقم کر سکتا ہے۔ تو ایک طرف جہاں ان کی کامیابی نے جموں و کشمیر میں اس امتحان کے امیدواروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے تو وہیں دوسری طرف قوم کی نمائندگی کے اعداد و شمار میں بھی ایک خاطر خواہ تبدیلی پیدا کر دی۔
اسی طرح شعیب آفتاب کی کامیابی کا قوم کے نوجوانوں پر آنے والے دنوں میں ایک بہترین اور حوصلہ افزا اثر ضرور دیکھنے کو ملے گا۔
قوموں کی نفسیات میں ان کے ارد گرد ماحول میں رونما ہونے والے واقعات کا بڑا اثر ہوتا ہے اور وہی واقعات ان کے حوصلوں کو پست و بالا کرنے میں دور رس اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ہم خود بھی بحیثیت قوم اپنا یہ نظریہ بنا چکے ہیں، یا ہماری یہ پہچان بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم تو صرف Tyre puncture، و Motor Mechanic اور مزدوری کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور ہمارے پاس زیادہ مواقع نہیں ہیں کہ ہم اعلی عہدوں تک پہنچ سکیں، ہماری یہ نفسیات آہستہ آہستہ بنائی گئی کہ ہم ایسے ہی کام کر سکتے ہیں تعلیم سے ہمارا کوئئ خاص تعلق نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ نے بھی اس سوچ کو مزید تقویت دی اگر چہ وہ اعداد و شمار درست تھے مگر ان اعداد و شمار نے ہماری نفسیات پر بڑا منفی اثر چھوڑا ہے اور ہمیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا کہ ہم واقعی اس سے زیادہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، یہ راگ اتنی شد و مد کے ساتھ الاپا گیا کہ بحیثیت مجموعی ہمیں اپنی یہی تصویر نظر آنے لگی۔ اس نفسیات کو مزید منفی بنانے میں ہمارے ملک کے سنیما کا بھی بڑا رول رہا ہے جہاں ایک اداکار کو مسلم کردار میں کسی مزدور، چائے والے یا کسی ہوٹل میں "چھوٹو” کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔
شہریت ترمیمی قانون کے وقت جس طرح سے شاہین باغ کی بہادر خواتین کو نشانہ بنایا گیا وہ ایک مستقل الگ موضوع ہے مگر شاہین باغ کی انہیں بہادر خواتین نے یہ واضح پیغام بھی دیا کہ گھروں میں ہم اپنی مرضی سے رہ رہے ہیں اور میدان میں نکل کر کام نہ کرنے کی کوئئ مجبوری نہیں ہے۔ میڈیا شاہین باغ بھی اسی منفی سوچ کے ساتھ گیا تھا کہ مسلمان عورت بڑی مجبور اور شوہر کی ستائئ ہوئی قوم ہے اس کو صرف مسلمان مرد اپنے اشاروں پر نچاتا ہے اس کو تعلیم نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ، مگر جب انہیں خواتین نے میڈیا کے اہلکاروں کو انہیں کی زبان میں جواب دیا تو مسلمان خواتین کے تعلق سے بنایا گیا ان کا تصوراتی محل لمحوں میں زمین پر آ رہا اور میڈیا کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ہمارا تصور مسلمان خواتین کے تعلق سے جتنا سطحی تھا مسلمان خواتین اتنی ہی زیادہ بہادر، بیباک اور تعلیم یافتہ نکلیں۔
جس طرح شاہین باغ نے قوم کی نفسیات کی ترجمانی کی اور یہ پیغام دیا کہ قوم ابھی بیدار ہے ٹھیک اسی طرح اس سال کے *نیٹ NEET* امتحان میں اول پوزیشن حاصل کرکے شعیب آفتاب نے یہ پیغام ضرور دیا ہے کہ ہم صرف گاڑی کے پرزے ہی ٹھیک کرنا نہیں جانتے، ہم صرف ٹائر پنکچر ہی ٹھیک کرنا نہیں جانتے بلکہ ہم *نیٹ NEET* جیسے قومی سطح پر منعقد ہونے والے مسابقاتی امتحانات میں صد فیصد نمبرات حاصل کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوانا جانتے ہیں۔
قومی اور علاقائی سطح پر منعقد ہونے والے ان مسابقاتی امتحانات میں کامیابی کے مواقع دیگر امتحانات کی بنسبت زیادہ ہوتے ہیں اور خصوصاً ایسے امتحانات جن میں صرف تحریری امتحان ہی آپ کی کامیابی کا پروانہ سناتے ہیں۔ ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ عموماً ان امتحانات میں امیدوار کا نام کسی بھی ممتحن کو معلوم نہیں ہوتا اور یہ سارا معاملہ Codes اور Serial numbers میں ہی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اس لئے تحریری امتحان کی صورت میں عموماً کسی بھی قسم کی عصبیت کا کوئئ پہلو دیکھنے کو نہیں ملتا۔
نیٹ NEET امتحان کے نتائج پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو اس سال بہت مسلمان کامیابی سے ہم کنار ہوئے ہیں۔ ایسے مسابقاتی امتحانات کے تعلق سے خود ہمارا رویہ بھی بڑی حد تک منفی رہا ہے جب کہ ہم اس حقیقت کو اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اس طرح کے امتحانات میں شرکت کرنے والے ہمارے نوجوانوں کا تناسب کتنا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس قدر زیادہ امیدوار میدان میں ہوں گے تو اسی تناسب کے اعتبار سے نتائج میں بھی مثبت تبدیلی اور اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ اسی لئے اگر دس سال پہلے اول پوزیشن حاصل کرنے والے شاہ فیصل کے بعد سے اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے تو اس مین بتدریج اضافہ ہی ہوا ہے۔ شعیب آفتاب کی کامیابی بھی در اصل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو مسابقاتی امتحانات کے تعلق سے ہمارے منفی رویہ کو مثبت بنانے میں بڑا کردار ادا کرے گی۔ ملک کی موجودہ صورتحال کو اگر قوم اور خصوصاً نوجوان ایک چیلنج کی شکل میں لیں اور کچھ کر گزرنے کا عزم کر ڈالیں تو یہی مشکل وقت آنے والے وقت میں قوم کا مستقبل طے کرے گا کہ قوم کس مقام پر ہے۔
*کرنے کے چند کام*
اخبارات میں لکھے جانے والے مضامین اور الیکٹرانک میڈیا پر پیش کئے جانے والے مباحثوں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو دو واضح فکری زاویہ نگاہ ابھر کر سامنے آتے ہیں۔
*الف* – مسلمانوں کو سیاست میں مزید متحرک ہو کر اپنے جمہوری حق کو حاصل کرنے کی سعی کرنا اور اپنی سیاسی نمائندگی کو بہتر بنانا۔
*ب* – صرف تعلیمی میدان میں مکمل توجہ مرکوز کرنا اور بقیہ شعبہ ہائے زندگی سے خود کو الگ کر لینا۔
ظاہر ہے ان دونوں نظریات کےاپنے فوائد ہیں۔ اگر ملک میں مسلم آبادی کے تناسب اور ڈھانچے کو بغور دیکھا جائے تو سیاست سے بالکل کنارہ کشی اختیار کر لینا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں ایک رائے ہونا ہی ممکن ہے، اس لئے ضروری ہے کہ سیاسی میدان میں بھی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔ مسلمانوں کی سیاسی اور تعلیمی صورتحال کے تعلق سے مولانا وحیدالدین خاں اپنی کتاب ” ہندوستانی مسلمان” میں صفحہ 25 پر 10 نکاتی پروگرام کی تجویز پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” مسلمانوں کو تعلیم میں آگے بڑھانا۔ مقامی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے یہ کوشش کرنا کہ ہر مسلمان ضرور پڑھے۔ پوری قوم صد فی صد تعلیم یافتہ بن جائے۔
سیاست کے تعلق سے مولانا لکھتے ہیں کہ ” ملکی سیاست کے طریقہ کو چھوڑ کر مقامی سیاست کے طریقہ کو اختیار کرنا۔ وہ معاملات جن کا تعلق سیاست سے ہوتا ، مثلا قومی جھگڑے، الیکشن میں ووٹ دینے کا مسئلہ، اس قسم کے تمام امور مقامی دائرہ میں رکھ کر حل کرنا۔ ان کو ملکی اور عمومی اشو ( قضیہ) بنانے سے کامل پرہیز کرنا”.

ہم جس وقت میں ہیں یہ وقت چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے۔ اور کسی قوم کی خوابیدہ صلاحیتوں کے اظہار کا وقت بھی وہی ہوتا ہے جب اس کو چیلنج سے بھرے حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ اگر وہ قوم چیلنج کو قبول کرکے عزم و ہمت اور صبر کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرے تو وہ حالات کا دھارا بدل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، حالات کے دھارے کو بدلنے کے لئے ضروری نہیں کہ اس کی تعداد دیگر اقوام سے زیادہ ہو، قرآن مجید کی اس آیت میں بھی اسی طرف اشارہ ملتا ہے ” *كم من فئة قليلة غلبت* *فئة كثيرة بإذن الله، والله مع الصابرين* (البقرة ٢٤٩). اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ قلت عدد سے مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ صبر کے ساتھ ایسے حالات کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ ایسے مشکل اور صبر آزما حالات ہی تو در اصل کسی قوم کو مقابلہ اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا حوصلہ دیتے ہیں، ایسے حالات ہی تو قوموں کو ناقابل تسخیر طاقت بنا کر منظر عام پر لاتے ہیں۔
اور ایسا ہی کچھ دیکھنے کو ملا جب شعیب آفتاب نے نیٹ NEET کے امتحان میں بازی ماری اور نوجوانوں کو ایک نیا جنون دیا کہ ایسے ہی چیلنج بھرے حالات میں ہی محنت کرنے کا مزہ ہے جب بحیثیت قوم آپ کی نفسیات کو بدل دیا گیا ہو اور آپ پھر سے اس نظریہ کو صبر اور محنت کے ساتھ جہد مسلسل کا سہارا لیکر غلط ثابت کرتے ہیں تو پھر آپ کا نام شعیب آفتاب ہوتا ہے۔
_______
ڈاکٹر مولانا عارف الیاس ندوی میواتی
_______

Comments are closed.