"پنجر” (تحریر ـ شہلا کلیم)

"پنجر”
(تحریر ـ شہلا کلیم)

بر صغیر کی آزادی کی تاریخ انسانی لہو سے لکھی گئی ، دو ملکوں کے درمیان تقسیم کی لکیر انسانی خون سے کھینچی گئی ـ اور عصمتوں کی دھجیوں پر کرہ ارض کے اس عظیم سانحے کا اندراج ہواـ بر صغیر کا بٹوارہ ایک ایسا درد انگیز سانحہ تھا جس نے صرف جسم ہی نہیں کچلے بلکہ روح کو بھی چھلنی کر دیاـ
ہر عہد کے حالات و واقعات انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ چنانچہ ادب کے میدان میں بھی اس کے گہرے اثرات نظر آئے ۔ نظم ہو یا نثر، ناول ہو، یا افسانے ، تقسیم و فسادات پر لکھنے کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ بر صغیر کے ادیبوں کیلیے تقسیم کا منظر انتہائی جان لیوا تھا کیونکہ ان تمام لوگوں نے اس ہولناک منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، محسوس کیا اور پھر قلمبند کیاـ نتیجتا اس دور کے ادباء کے نوک قلم سے لہو روشنائی بن کر بہہ نکلا اور دلسوز کہانیاں روانی سے پھوٹ پڑیں ـ ہر زبان کے شاعر اور ادیب نے اپنے تجربات و مشاہدات اور احساسات و جذبات کو نئے زاویے سے پیش کیا اور ایک درد ناک تاریخ رقم کی ـ امرتا پریتم بھی اس عہد کی ایک حساس ادیبہ تھیں ـ اس خونی سانحے کے تعلق سے انہوں نے اپنے احساسات و جذبات کو بے شمار کہانیوں کے روپ میں بیان کیاـ اور جب امرتا نے اس سانحے کے اثرات کو ایک عورت کی نظر سے دیکھا تو "پنجر” جیسا شاہکار ناول وجود میں آیاـ
پنجر کہانی ہے ایک عورت کی جو ہر دور میں سماجی رسوم و رواج کی بھینٹ چڑھتی رہی ـ پنجر قصہ ہے اس عورت کا جو معاشرتی اقدار و روایات پر ستی ہوتی رہی ـ پنجر داستان ہے عورت کی جو کبھی خلوص اور کبھی عداوت و انتقام پر قربان کی جاتی رہی ـ پنجر روداد ہے اس سیتا کی جو اگنی پریکشا کے بعد بھی قبول نہ کی گئی ـ پنجر نوحہ ہے اس صنف کا جس نے رام کے شبہات کا ازالہ بھی کیا اور راون کے کردہ گناہوں کی سزا بھی پائی ـ پنجر المیہ ہے وجود زن کا جس کی قسمت زندہ در گور ہونا ہےـ

امرتا پریتم بنیادی طور پر پنجابی زبان کی شاعرہ اور مصنفہ ہیں ـ ان کی دیگر کتابوں کی طرح پنجر کا بھی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہواـ لیکن اس ناول کو شہرت کی بلندیوں پر لے جانے کا کام چندر پرکاش دِویدی نے ۲۰۰۳ میں "پنجر” فلم بنا کر انجام دیاـ جس میں ارمیلا مٹونڈکر ، سنجے سوری ، منوج واجپائی اور دیگر منجھے ہوئے فنکاروں نے بہترین کردار ادا کیےـ اور اس طرح ایک بلند پایہ کہانی ادبی حلقوں سے نکل کر منظر عام تک پہنچی ـ
ناول "پنجر” کے مطالعے کے بعد راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ "لاجونتی” بے اختیار ذہن میں گردش کر جاتا ہےـ دونوں کا مرکزی خیال یکساں ہےـ ناول پنجر اور افسانہ لاجونتی میں ان مغویہ عورتوں کے درد و کرب کی روداد بیان کی گئی ہے جو بدقسمتی سے تقسیم کے بعد اپنے شوہر وخاندان سے جدا ہو کر سرحد کے اُس پار پہنچ گئیں تھیں یا اِس پار رہ گئی تھیں ـ لیکن جب حساس اور دردمند دلوں کی جانب سے مغویہ عورتوں کے تبادلے کی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں تو ان عورتوں کے سماج نے انہیں قبول کرنے انکار کر دیا اور اگر خاندان والوں نے محبت کے جذبات سے مغلوب ہو کر قبول کر بھی لیا تو وہ عورت کی عصمت پر لگے حرف غلط کو تا عمر نہ مٹا سکیں ـ اور زندگی بھر پورے سماج کی نام نہاد عزتوں کا بوجھ اپنے بےجان جسم اور زخمی روح کے ساتھ ڈھوتی رہیں ـ
پنجر کی پارو ہو ، لاجونتی کی لاجو یا رامائن کی سیتا؛ اگنی پریکشا سے گزر کر بھی مرد کے ذہن میں پڑنے والے شک کے بیج کی کونپلیں پھوٹنے سے نہ روک سکیں ـ کسی راون کے ہاتھوں ہرن ہو جانے کے بعد عورت یا تو استعمال شدہ چیز سمجھ کر کوڑےدان کے حوالے کر دی گئی یا پاکدمنی ثابت ہو جانے کے بعد دیوی کے درجے پر بٹھا دی گئی لیکن اپنا پہلا مقام حاصل کرنے میں ناکام رہی ـ راون کی قید سے آزاد ہو کر رام کے آغوش میں پناہ لینے کے بعد وہ سب کچھ رہی مگر اپنے منصب پہ بحال نہ ہو سکی ـ
امرتا پریتم اسی المیے کو بلندیوں تک لے جاتی ہیں ـ امرتا کے ناول میں پارو کے روپ میں ایک خوددار عورت سامنے آتی ہے جو زندگی بھر پاکدامنی کی گواہیاں دے کر عزت نفس کو مجروح کرنے کی بجائے اس شخص کی وفاداری میں زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہے جس نے اسے اس وقت اپنایا جب اپنوں نے ٹھکرا دیا تھاـ اپنے پیاروں سے ملن کی چاہ اور بے تحاشہ محبتوں کے باوجود اس نے عزت نفس سے سودا کرنا گوارا نہ کیاـ اس کی خودداری نے ترس کھاتی نگاہوں کی پناہ میں جانے سے انکار کر دیا اور اس کی عزت نفس نے ہمدردیاں بٹورنے کی اجازت نہ دی ـ چنانچہ جب واہگہ بارڈر پر مغویہ عورتوں کا تبادلہ ہو رہا تھا تو اس نے ہر عورت کو اس کے خاندان تک پہنچایا اور خود اپنے پیاروں کو ٹھکرا کر اس شخص کے ساتھ لوٹ آئی جو اس کے لیے راون سے کم نہ تھاـ عورت کی خودداری کا تصادم جب سماجی اقدار سے ہوا تو ایک عظیم المیے نے جنم لیا اور اس المیے کو امرتا پریتم یوں بیان کرتی ہیں :-
"المیہ یہ نہیں ہوتا کہ زندگی کے طویل سفر پر سماج کے بندھن اپنے کانٹے بکھیرتے رہیں اور ہمارے پاؤں سے ساری عمر خون بہتا رہے بلکہ المیہ یہ ہوتا ہے کہ آپ لہو لہان پاؤں کے ساتھ ایک ایسے مقام پر کھڑے ہوجائیں جس کے آگے کوئی راستہ آپکو بلاوا نہ دےـ”
پارو بھی زندگی کے طویل اور المناک سفر کے بعد لہولہان قدموں کے ساتھ ایک ایسے مقام پر ڈٹ کر کھڑی ہو گئی جس کے بعد کوئی رستہ اسے بلاوا نہ دے سکا ، عزیزوں کی پکار اس کی خودداری کو ٹس سے مس نہ کر سکی اور اپنوں کے آنسوں اس کی وفا کو نہ دھو سکےـ اس نے رام کے ساتھ عصمتوں کے بوجھ تلے زندگی گزارنے کی بجائے اس راون کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی جو اسے کسی اگنی پریکشا کے بغیر قبول کرےـ اور اس رام کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا جو عورت کی بجائے کانچ کی مورت سمجھ کر دیوی کے مقام پر نصب کر دے اور زندگی بھر اس کی شان میں گنگناتا پھرےـــ
’’ ہتھ لائیاں کملاں نی لاجونتی دے بوٹے…‘‘
(یہ چھوئی موئی کے پودے ہیں ری، ہاتھ بھی لگاؤ کمھلا جاتے ہیں)

Comments are closed.