زبان اور انسان: پہچان، پیکار، پیمان

مسعود محبوب خان (ممبئی)
تمام حمد اُس ربِّ ذوالجلال و الاکرام کے لیے، جس نے انسان کو محض مٹی کا پتلا بنا کر نہیں چھوڑا، بلکہ اسے "عَلَّمَہُ الْبَیَانَ” (سورۃ الرحمٰن: 4) کے اعزاز سے سرفراز کیا یعنی کلام کرنے کی قوت عطاء کی۔ زبان، محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں، بلکہ ربِّ کائنات کی عطا کردہ نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا: "اور اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا بنانا، اور تمھاری زبانوں اور رنگتوں کا فرق۔ بے شک اس میں علم رکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں”۔ (سورۃ الروم: 22)
زبان کا اختلاف جو بظاہر تقسیم لگتا ہے درحقیقت وحدتِ تخلیق کا حسن ہے۔ اسلام کسی خاص زبان کو فوقیت نہیں دیتا، بلکہ تمام اقوام، نسلوں اور زبانوں کو ایک ہی انسانی شجر کی شاخیں قرار دیتا ہے: "اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمھیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو”۔ (سورۃ الحجرات: 13)۔ یعنی تعددِ لسان و نسل تعارف کے لیے ہے، تفریق کے لیے نہیں۔ اگر زبان شناخت کا ذریعہ بنے تو رحمت ہے، لیکن اگر تعصب کی دیوار بن جائے تو وہی زبان فتنہ و فساد کا دروازہ کھول دیتی ہے جسے قرآن نے سختی سے منع فرمایا: "اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ ناکام ہو جاؤ گے اور تمھاری ہوا نکل جائے گی”۔ (سورۃ الانفال: 46)
اسلامی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ زبان کو کبھی فوقیت کا معیار نہیں بنایا گیا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: "کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے (مسند احمد)۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ اسلام کی نظر میں زبان نہیں، کردار اور نیت اصل ہے۔ صحابۂ کرامؓ میں بلال حبشیؓ، سلمان فارسیؓ، صہیب رومیؓ ہر ایک نے غیر عرب ہو کر بھی وہ مقام پایا جو اہلِ عرب کو بھی میسر نہ تھا۔ پس! جب زبانوں کو تفاخر، سیاست یا نفرت کا ہتھیار بنایا جائے، تو یہ اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ انسان کی اصل زبان نہیں، انسانیت ہے؛ اور انسانیت کا جوہر وہی ہے جو قرآن نے بیان کیا: "لِتَعَارَفُوا” یعنی باہم پہچان، ربط، احترام اور یگانگت۔
زبان، شناخت یا جدائی کا استعارہ؟
زبان صرف لبوں کی جنبش نہیں، بلکہ روح کی صدا، تہذیب کا آئینہ، احساسات کا لباس، قلب کی تفسیر، اور ضمیر کی تصویر ہے۔ یہ نہ صرف فرد کی شناخت ہے، بلکہ قوموں کی تہذیب، نسلوں کی تاریخ اور تمدّن کی مکمل داستان ہے۔ لیکن جب یہی زبانیں تلواروں کی نوک پر شناخت کی حدود طے کریں، تو اکھنڈ ملک کی عظمت، کھنڈ کھنڈ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ زبان ایک آئینہ ہے، جو ہمیں نہ صرف دوسروں کا چہرہ دکھاتی ہے بلکہ اپنا اصل بھی منکشف کرتی ہے۔ یہی زبان اگر محبت کی مٹی میں گندھی ہو، تو شاعری بن جاتی ہے، غزل، نعت اور مدھر کلام کی صورت میں قلوب کو سیراب کرتی ہے۔ لیکن اگر یہی زبان تعصب کی آگ میں سلگنے لگے، تو تلوار کی دھار بن کر رشتے کاٹ دیتی ہے، شہر جلا دیتی ہے، اور ایک ہی ماں کے دو بیٹوں کو اجنبی بنا دیتی ہے۔
دنیا کی ہر قوم نے ابتداء میں اپنی زبان سے ہی پہچان پائی۔ عرب نے عربی سے، ایرانی نے فارسی سے، یورپ نے لاطینی، جرمن، فرانسیسی یا انگریزی سے۔ زبانوں نے ادبیات، فلسفہ، قانون، اور سائنسی علوم کی ترسیل کا ذریعہ بن کر اقوام کی فکری اور تہذیبی تعمیر کی۔ مثال کے طور پر: فارسی نے برصغیر کے ادب و ثقافت کو غالب، سعدی، رومی کے فلسفے سے روشناس کرایا؛ اردو نے اکبر، اقبال، غالب، فیض، اور فراز جیسے شعراء کے ذریعے برصغیر کے دل کی دھڑکن کو لفظوں کا قالب دیا؛ بنگالی زبان نے رابندر ناتھ ٹیگور کی صورت میں دنیا کو ایک نوبیل انعام یافتہ شاعر دیا۔ یہ سب زبان کی تخلیقی اور تعمیری قوت کے مظاہر ہیں، جو انسانوں کو قریب لاتی ہیں، اور دلوں میں پل باندھتی ہیں۔
تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ جب زبانوں کو سیاسی ہتھیار بنا دیا گیا، تو وہ صرف شناخت کا ذریعہ نہ رہیں، بلکہ بٹوارے کا بہانہ بن گئیں۔ افسوس کہ جو زبانیں محبت کی ترجمان تھیں، وہی نفرت کا وسیلہ بن گئیں۔ چند تاریخی مثالیں ملاحظہ ہوں، تقسیمِ ہند کے بعد، زبانیں نہ صرف مذہبی شناخت سے جُڑ گئیں، بلکہ لسانی بنیاد پر علاقوں کی تقسیم بھی شروع ہو گئی۔ اردو کو "ایک قوم کی زبان” قرار دیا گیا، اور ہندی کو "دوسری قوم کی شناخت” کا پرچم بنایا گیا۔
ملک میں لسانی ریاستوں کا قیام جیسے تمل ناڈو، آندھرا پردیش، مہاراشٹرا اس بات کا ثبوت ہے کہ جب شناخت کی سیاست زبان کی بنیاد پر ہو، تو جغرافیہ بھی بٹنے لگتا ہے۔ یہ سوال ہر فرد، ہر قوم، اور ہر ریاست کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ زبان کو ہم دیوار بناتے ہیں یا دروازہ؟ اگر ہم زبان کو دوسروں کی پہچان کا احترام سمجھیں، تو یہ دروازہ ہے۔ ایسا دروازہ جو قلوب کو جوڑتا ہے، ثقافتوں کو ملاتا ہے، اور نئی تہذیبوں کو جنم دیتا ہے۔ لیکن اگر ہم زبان کو اپنی بالادستی کا جواز بنائیں، تو یہ دیوار ہے۔ ایسی دیوار جو صرف دوسروں کو نہیں روکتی، بلکہ خود اپنے دل کی وسعت کو بھی قید کر لیتی ہے۔ زبان کو شناخت کا استعارہ ضرور بنائیے، لیکن جدائی کا نہیں۔
دنیا میں ہزاروں زبانیں ہیں، اور ہر زبان اپنے اندر ایک دنیا رکھتی ہے۔ کوئی زبان بڑی یا چھوٹی نہیں، ہر زبان خدا کے "کُن” کے بعد کے سفر کی ایک صدا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان صداؤں کو جدائی کی چیخیں نہ بنائیں، بلکہ محبت کے گیت بنائیں۔ کیونکہ "لفظ اگر جوڑنے لگیں، تو زبانیں شجرِ زندگی ہیں؛ اور اگر توڑنے لگیں، تو وہی زبانیں بنجر زمین میں بدل جاتی ہیں”۔
کیا زبانوں سے زیادہ اہم انسانی جانیں ہیں؟
جب زبان شناخت بنے، اور جان ارزاں ہو جائے… یہ سوال بظاہر سادہ، لیکن درحقیقت ایک تہذیبی عدالت کا فردِ جرم ہے، جس میں انسانیت مجرم بن کر کٹہرے میں کھڑی ہے اور اس کی خاموشی اس کے قصور کی دلیل ہے۔ زبان، جو انسان کی پہچان ہے، اگر پہچان کا فخر بن جائے تو فطری ہے، لیکن اگر وہی پہچان دوسروں کو اجنبی، کمتر یا دشمن بنا دے، تو یہی فخر غرور بن جاتا ہے، اور غرور سے جنم لیتا ہے فاصلہ اور فاصلہ بالآخر جدائی میں بدل جاتا ہے۔ جب ہم زبان کی بنیاد پر شناخت طے کرتے ہیں تو گویا ہم یہ طے کر رہے ہوتے ہیں کہ کسے جینے کا حق ہے اور کسے نہیں۔ ملک کی تقسیم کے وقت جو خون بہا، اس کی بنیاد مذہب ضرور تھی، لیکن مذہب سے جڑی ہوئی لسانی تفریق نے آگ کو ایندھن فراہم کیا۔ اردو کو ایک قوم کی زبان قرار دے کر ہندی کو دوسری قوم پرستی کا پرچم بنایا گیا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ "اردو دشمنی” اور "اردو پرستی”، دونوں نے انسانوں کو بانٹ دیا۔
ذرا غور کیجیے! جنوبی بھارت میں تمل بمقابلہ ہندی کی جو تحریک چلی، اس نے درجنوں جانیں لے لیں۔ ان میں سے کوئی شاعر نہ تھا، نہ ادیب، نہ لسانی ماہر۔ وہ سب عام انسان تھے، جن کی زندگی صرف اس لیے بے معنی ہو گئی کہ ان کی زبان سیاسی مرکز کی ترجیحات میں شامل نہ تھی۔ تاریخ میں جب بھی کسی قوم نے زبان کو تہذیب کی علامت بنانے کے بجائے اقتدار کی علامت بنا دیا، وہاں رشتے نہیں، ریزہ ریزہ وجود بکھرے۔ زبان کو جب سیاسی بقاء کا ہتھیار بنایا گیا، تو انسان زندہ رہنے کی بجائے بولنے کا حق مانگتے رہے۔ اور جب زبانوں کے نام پر خندقیں کھودی گئیں، تو ان میں دفن صرف لفظ نہیں ہوئے، پورے خواب، نسلیں، نسلوں کے امکانات دفن ہوئے۔
زبان پھول کی خوشبو ہو سکتی ہے، مگر تعصب اسے خنجر بھی بنا سکتا ہے۔ انسانی جان، زبان سے کہیں زیادہ مقدس ہے۔ زبانیں آنی جانی ہیں، ارتقاء کا حصّہ ہیں، اور وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ لیکن ایک جان کا چلے جانا، ایک دنیا کا ختم ہو جانا ہے۔ ہمیں طے کرنا ہے! کیا ہم زبانوں کے حسن کو سمجھنے والے انسان ہوں گے، یا صرف اپنی زبان کے جبر سے دوسروں کو خاموش کرانے والے؟ کیونکہ اگر ہم نے زبان کو انسانوں سے مقدم جانا، تو کل کائنات میں صرف خاموشیاں باقی رہ جائیں گی، اور ان خاموشیوں میں صدا ہوگی۔ "کاش ہم نے زبان کو اظہارِ محبت رہنے دیا ہوتا، تعصب کا ہتھیار نہ بنایا ہوتا!”۔
زبانوں کی بنیاد پر انسانوں کا بٹوارہ کب تک؟
ایک سوال جو وقت سے نہیں، ضمیر سے کیا جانا چاہیے؟ یہ سوال گھڑی کی سوئیوں سے مخاطب نہیں، نہ تقویم کے بدلتے صفحات سے، بلکہ انسان کے باطن میں سوئی ہوئی انسانیت سے ہے۔ دنیا میں بہت سے بٹوارے ہوئے زمینوں کے، وسائل کے، طاقت کے، نسلوں کے۔ لیکن جو بٹوارہ زبان کی بنیاد پر انسانوں کا ہوا ہے، وہ سب سے زیادہ اذیت ناک، اور سب سے زیادہ گہرا ہے۔ کیونکہ زبان صرف بولی نہیں جاتی، محسوس کی جاتی ہے۔ اور جب انسان کو اس کی زبان کے سبب کم تر، مشکوک یا مجرم سمجھا جائے، تو یہ صرف ایک تہذیبی بے حسی نہیں، بلکہ انسانی عزّت نفس کی توہین ہے۔
کیا حب الوطنی کا پیمانہ اب لہجہ و زبان ہو گیا ہے؟ کیا لہجے و زبان سے دلوں کی گہرائی کو ناپا جا سکتا ہے؟ یاد رکھیے، جس دن ہم نے وفاداری کی بنیاد لہجے پر رکھ دی، اُس دن محبت کی زبان خاموش اور نفرت کا نعرہ بلند ہو جائے گا۔ سیاسی نعرے زبان کے نام پر قتلِ عام کرتے رہیں؟ کیا ہمیں یہ سب اس وقت تک سہنا ہے جب تک سیاست دان زبان کے نام پر نفرت کے بینر اٹھا کر ووٹ بٹورتے رہیں؟ کیا ہمیں خاموش رہنا ہے جب ایک علاقے میں اردو کو "تسلّط” سمجھا جائے، دوسرے میں تمل یا بنگلہ کو "بغاوت” قرار دیا جائے، یا کسی قوم کو اس کی مادری زبان کے باعث "مشکوک شناخت” دے دی جائے؟
زبان جب سیاسی نعرہ بن جائے تو وہ علم کا دروازہ نہیں، تشدّد کی کھڑکی بن جاتی ہے۔ اور جب زبانیں خون مانگنے لگیں، تو لفظوں کی حرمت رُل جاتی ہے، اور انسان لفظوں سے نہیں، گولیوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ زبان! بٹوارے کا ذریعہ نہیں، بقائے باہم کی بنیاد بنے! یہ وقت ہے کہ ہم اپنی اجتماعی زبان میں کچھ نئے الفاظ شامل کریں: "احترامِ زبان”، "لسانی ہم آہنگی”، "ثقافتی یگانگت”، "تکثیری شناخت”۔ کیونکہ زبانیں اگر بٹوارے کا ذریعہ بنیں، تو ہر نسل میں ایک دراڑ پڑے گی۔ لیکن اگر زبانیں سمجھنے کا وسیلہ بنیں، تو ہر دل میں ایک پُل اُترے گا۔
یہ سوال، "زبانوں کی بنیاد پر انسانوں کا بٹوارہ کب تک؟” ہم سب کے لیے ایک آئینہ ہے۔ آئینے میں دیکھنے کی ہمت وہی کرتا ہے جو تبدیلی کا پہلا قدم اٹھاتا ہے۔ آج ہم یہ فیصلہ کریں کیا ہم زبان کو پہچان کا پھول بنائیں گے، یا تعصب کا کانٹا؟ کیا ہم اپنی مادری زبان پر فخر کریں گے، اور دوسروں کی زبانوں کا بھی احترام؟ اور کیا ہم یہ بٹوارہ خود ختم کریں گے، یا کسی اور نسل کے کندھوں پر ڈال دیں گے؟ کیونکہ اگر ہم خاموش رہے، تو کل ہمارے بچّے یہی سوال کریں گے: "ابا، آپ نے زبانوں کے نام پر انسانوں کو بٹتا کیوں دیکھا… اور کچھ کہا کیوں نہیں؟”۔
اس کا مستقل حل؟
حل کی تلاش میں پہلا قدم اعترافِ جرم ہے: ہم نے زبانوں کو محبت کے پل بنانے کے بجائے، سرحدوں کی دیوار بنا دیا۔ ہم نے مادری زبان کو ماں کی گود نہیں، میدانِ جنگ بنا دیا۔ حل اُس دن نکلے گا جب ہم زبان کو اظہار کا ذریعہ سمجھیں، اقتدار کا ذریعہ نہیں؛ ہم کثرت کو وحدت کی زینت بنائیں، تفریق کی بنیاد نہیں؛ ہم بچّوں کو ایک سے زیادہ زبانیں سکھائیں تاکہ وہ دوسروں کو سمجھنے کے قابل بنیں، نہ کہ ایک زبان کے تعصب میں قید ہوں؛ ریاستیں لسانی مساوات پر قانون بنائیں، صرف اکثریتی زبان کو سرکاری حیثیت نہ دیں۔
یاد رکھیے، دنیا کے کئی ممالک — سوئٹزرلینڈ، کینیڈا، بیلجیئم — میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، لیکن وہاں اختلاف نہیں، احترام ہے۔ ہمارے یہاں بھی اگر تمام زبانوں کو برابر حیثیت دی جائے تو لسانی شعلے بجھ سکتے ہیں۔ ہم کب تک یہ تماشا دیکھتے رہیں گے کہ ایک ہی وطن کے شہری، صرف زبان کی بنیاد پر دشمن بن جائیں؟ کب تک ہم اس مکروہ حقیقت کو نظر انداز کریں گے کہ لسانی تقسیم، صرف طاقت کے ایوانوں کو مضبوط کرتی ہے، عوام کو نہیں؟
زبانیں انسانی تہذیب کی سب سے خوبصورت تخلیق ہیں۔ یہ ہمیں صرف بولنے کا نہیں، سننے کا ہنر بھی دیتی ہیں۔ اگر ہم دوسروں کی زبان سننا سیکھ جائیں، تو ان کا درد بھی سمجھ سکتے ہیں۔ جب ہم ایک دوسرے کی بولی کو اپنائیں گے، تب ہی دلوں میں نرمی آئے گی، اور دلوں کے درمیان جو کھنڈتا ہے، وہ ختم ہوگی۔ ہمیں اکھنڈ یا گریٹر جیسے نعرے نہیں چاہیے جو صرف نقشے پر ہو، ہمیں ایک لسانی ہم آہنگی چاہیے جو دلوں میں ہو۔ کیونکہ آخر میں، "انسان وہی ہے جو دوسروں کو زبان سے نہیں، دل سے پہچانے”۔
Comments are closed.