دلِ نازک پر ایک اور چرکہ لگا۔ ظفر امام قاسمی

گزشتہ کل ( 22/ اکتوبر 2020ء بروز جمعرات ) کی صبح کا سہانا وقت تھا، نم آلود ہواؤں کے جھونکے پتوں پر سرسراہٹ پیدا کر رہے تھے، میں نماز فجر کی ادائیگی کے فورا بعد کمرے میں بیٹھ کر بائیں کان کے شدید درد سے پیچ و تاب کھا رہا تھا، اور نیند کی وادی میں جانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا کہ کچھ تو درد سے راحت ملے گی کہ یکلخت موبائل فون کی ٹرنگ ٹرنگ گھنٹی نے اپنی صبحِ نو کا آغاز کیا، اسی تکلیف آمیز کیفیت کے موبائل کی سکرین پر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ گھر سے فون آ رہا ہے، صبح صبح گھر کا نمبر دیکھتے ہی میری چھٹی حس نے اسی تکلیف خوردہ کانوں میں سرگوشی کی کہ ” ضرور گھر میں کوئی انہونی ہوئی ہے “ ورنہ اتنی صبح سویرے فون کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں۔
ادھر میری چھٹی حس نے کانوں میں سرگوشی کی اور ادھر میری بہن کی دلگیر زبان نے اس کی ترجمانی کردی، میری بہن نے مجھے بتایا کہ ” کلیم نانا کا صبح فجر کے وقت انتقال ہوگیا ہے ” کلیم کا نام سنتے ہی میں جو چِت لیٹا تھا یک بیک سیدھا ہوکر بیٹھ گیا، دل کی تھالی پر ایک کسک آمیز چرکہ لگا،کچھ دیر کے لئے میرے کانوں پر بے یقینی کی کیفیت طاری ہوگئی، دل اس اچانک اطلاع سے ڈوبنے لگا، لیکن! جو حقیقت تھی اس نے اپنا کام کردیا تھا، میں نے استرجاع ( انا للہ الخ) پڑھتے ہوئے حیرت و استعجاب اور بے کلی و بے یقینی کے سمندر میں ڈوب کر بہن سے وجہِ وفات دریافت کی، کیونکہ ابھی ایک ہفتہ پہلے میرا گھر آنا ہوا تھا تو مرحوم کلیم سے ملاقات ہوئی تھی، بالکل ہشاش بشاش تھے، کوئی بیماری نہیں تھی، عمر بھی ابھی کوئی خاص نہیں ہوئی تھی، یہی کوئی پچاس ساٹھ کے بیچ ان کی عمر تھی،بہن نے بتایا کہ دو تین دن پہلے اچانک ان کی طبیعت بگڑ گئی تھی، ڈاکٹروں نے بیماری کو لاعلاج بتاکر اس کی زندگی سے مایوسی کا اظہار کردیا تھا اور آج فجر یعنی رحمت کے نزول کے وقت ان کا انتقال ہوگیا۔
ہائے مرحوم کلیم کیا کمال کے آدمی تھے، گہرائی لی ہوئی گیہواں رنگت،متبسم چہرہ، مسکراتی آنکھیں، کھلے گلاب کی مانند شگفتہ پیشانی ، جاذبِ نگاہ قد و قامت، اندازِ گفتگو کا بانکپن،خشخشی داڑھی اور چہرے پر وضعداری کی نمایاں لکیریں نہایت دلکش اور دلنشیں تھیں، خدا نے ایک عجیب سی مقناطیسیت ان کے اندر رکھ دی تھی، جس کی قدرتی کشش میں ہر آدمی ان کے قریب کھنچتا چلا جاتا تھا،شخصیت میں اتنی سادگی اور بےساختگی کہ لوگ دیکھتے ہی رہ جاتے تھے،بھولپن،سادہ لوحی اور زندہ دلی تو اس مردِ خدا کی پہچان تھی، نہ کبھی کسی سے لے دے اور نہ کبھی کسی سے بحث و تکرار، متحمل مزاج اتنے کہ چاہے کوئی کتنا ہی ناروا سلوک کیوں نہ کردے ہنستے ہوئے یا عارضی طور پر آنسو بہاتے ہوئے سہہ لیتے،کبھی کسی کے انتقام کے پیچھے نہ پڑتے۔
مرحوم کے تعلق سے مجھے ایک حقیقی واقعہ آج عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ایسا یاد ہے جیسے اس منظر کی فلم میری نظروں کے سامنے ابھی چل رہی ہو، آج سے یہی کوئی بیس سال پہلے کا واقعہ ہے، اس وقت میں بہت ہی چھوٹا تھا،باتوں کے سمجھنے کی شدبد کچھ کچھ ہوگئی تھی، اس زمانے میں ایک دن مارے گاؤں میں اچانک یہ بات بجلی کی طرح گھوم گئی کہ ” کلیم پر زاہد ( فرضی نام) نے لاٹھیوں کی برسات کردی ہے، ( کوئی معمولی سی بات ہوگئی تھی) بدن جگہ جگہ سے پھٹ گیا ہے، جس کی وجہ سے کلیم گھر میں بیہوش پڑا ہے” لوگ جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر پھیلاتے جا رہے تھے اور افتاں و خیزاں کلیم کے گھر کی طرف بھاگے جا رہے تھے، میرے کانوں نے بھی یہ خبر سنی اور میں بھی سرپٹ کلیم کے گھر کی طرف دوڑا، وہ منظر مجھے ابھی تک یاد ہے، دیکھا کہ کلیم ایک میلی چادر کے اوپر بیہوش پڑا تھا، رات کا وقت تھا، ٹمٹماتے چراغ کی لو میں صاف نظر آرہا تھا کہ جگہ جگہ سے اس کا بدن پھٹ گیا تھا، جن سے خون کی سرخی رِس رہی تھی، اور سر ایک طرف ڈھلکا ہوا تھا، لیکن! وہی کلیم جب ہوش میں آیا تو اس واقعے کو ذہن سے ایسے اتار دیا جیسے یہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔
خیر یہ تو کافی لمبے عرصے پہلے کی بات ہے، ابھی دو سال پہلے کی بات ہے، اس کی بیوی اور جٹھانی کے مابین کسی بات کو لیکر ٹھن گئی، بات بڑھی تو چھینا جھپٹی تک نوبت جا پہونچی، کلیم صاحب بیچ بچاؤ کے لئے آئے تو پیچھے سے مخالف پارٹی کے کسی فرد نے اس کے سر پر اتنی زور سے لاٹھی ماری کہ سر سے خون کے فوارے چھوٹ پڑے، سر میں لگی ضرب اتنی کاری تھی کہ اس کا اثر سیدھے دماغ پر جا پہونچا اور مضروب پر ایسی ہولناک کیفیت طاری ہوگئی کہ ہر دیکھنے والا یہی کہتا تھا کہ اب اس کا بچنا مشکل ہے، میں بھی وہ ہولناک کیفیت دیکھا تھا، مضروب کی زبان انگلی بھر باہر لٹک گئی تھی اور وہ یوں ہچکیاں لے رہا تھا جیسے جاں بلب شخص موت کے طاری ہوتے وقت لیا کرتا ہے، لیکن! مرحوم کلیم کی کتابِ زندگی میں ابھی کچھ اور سانسوں کا لکھا جانا باقی تھا، سو وہ شفایاب تو ہوگئے، مگر اس کا اثر دماغ سے زائل نہ ہوا، اور غالبا وہی واقعہ اس کی موت کا سبب بنا ( کیونکہ میت کی ناک سے دفنانے کے وقت تازہ خون نکل رہا تھا، غالبا یہ اسی چوٹ کا اثر تھا، اس وقت مالی وسعت نہ ہونے کی وجہ سے وہ جڑ سے اپنا علاج نہ کرسکے تھے ) لیکن! خدا گواہ ہے کہ آج تک ہم سے اس تعلق سے کبھی بات نہ کی۔
ہمارے دیہاتی معاشرے کا یہ بہت ہی بڑا المیہ ہیکہ بات بات پر اتنی زبردست نوک جھونک ہو جاتی ہے کہ وہ نوک جھونک ڈانگ سوٹے تک جا پہنچتی ہے، اور جب تک آپس میں خون خرابہ نہیں ہوجاتا کلیجے کو ٹھنڈک محسوس نہیں ہوتی، اور پھر اس ڈانگ سوٹے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ناچاقی ایسی دور رس ہوتی ہیکہ موت کے وقت بھی اس کی تلخی محسوس ہوتی ہے، کوئی صلح سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا، دل اگر چاہتا بھی ہے تو ناک آڑے آجاتی ہے، جس سے کبھی کوئی دستبردار نہیں ہونا چاہتا۔ أللہم احفظنا منہ۔
بہرحال میں بات کر رہا تھا مرحوم کلیم کے متعلق، بات تو کافی لمبی ہوگئی، لیکن! میں مرحوم کلیم کے انتقال کے بعد اس کے حوالے سے کچھ اور دلچسپ باتیں سنا دیتا ہوں۔
مرحوم کلیم ایک پسماندہ گھرانہ اور پسماندہ دور کے زائیدہ تھے، جہاں تعلیم نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی، غربت و افلاس اتنی کہ دنیا میں قدم رکھنے والا ایک نیا بچہ اپنا ہوش سنبھالتے ہی پرندوں کے چوزوں اور مچھلیوں کے بچوں کی طرح اپنی روزی آپ تلاش کرنا شروع کردیتا تھا، جس کی وجہ سے جہالت و ناخواندگی اس کا دائمی رفیق بن جاتی تھی، پھر لوگ جاننے والوں سے نماز روزوں کے طریقے سیکھا کرتے تھے، مرحوم کلیم بھی انہیں میں سے ایک تھے، جانکار لوگوں سے نماز سیکھے ہوئے تھے، میں نے جب سے انہیں دیکھا شاید باید ہی نماز سے غفلت کرتے دیکھا، اور اخیر میں آکر تو وہ پکے نمازی بن گئے تھے۔
مرحوم کلیم ہمارے پڑوس ہی میں رہتے تھے، گاؤں محلے کے لوگوں میں کوئی رشتہ داری نہ بھی ہو تب بھی رشتہ داری نکل ہی جاتی ہے، سو مرحوم کلیم سے ہمارا کوئی نسبی یا صہری رشتہ تو نہ تھا، تاہم پہلے ہی سے ہمارے والد اور والدہ ان کو چچا کر کے کہتے تھے، جس کی بنا پر ہم لوگ انہیں نانا کر کے پکارتے تھے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ نانا نواسے کے رشتہ میں مذاق مخول کی رسم عرصۂ رفتہ ہی سے چلی آ رہی ہے، اس لئے جب بھی کلیم نانا سے ملاقات ہوتی کبھی سنجیدہ بات ہوتی ہی نہیں تھی، ملاقات ہوتے ہی مذاق مخول کا سماں چھا جاتا، تاہم ان کی بذلہ سنجی اور ظرافتِ طبعی ہمارے کچھ ناروا مذاق کے باوجود بھی یاوہ گوئی اور بیہودہ پنی کی شکار نہیں ہوتی۔
الغرض چونکہ مرحوم سے میرا ملنا ملانا، اور میل جول کی راہ و رسم تھی، جس کی وجہ سے اس کے جنازے میں شریک ہونا ایک اخلاقی فريضہ تھا اور سماجی حق بھی، سو نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے گھر آنا ہی پڑا،اور جب گھر پہنچا تو اس وقت میت کو کفنایا جا رہا تھا، میں جلدی جلدی میت کے گھر گیا، دیکھا کہ وہاں ایک محشر بپا ہے، عورتیں الگ بین کر رہی تھیں، اس کی کنواری بیٹی اپنے باپ کی لاش کے اوپر الگ نچھاور ہو رہی تھی اور اس کی بیوہ الگ آنسو بہا رہی تھی، منظر کافی سوگوار تھا، لیکن ایک منظر نے وہاں موجود ہر حاضرین کی آنکھیں اشکبار کردی تھی، اور وہ یہ کہ جس وقت میت کو کفنایا جارہا تھا، اس وقت اس کا لےپالک بیٹا وطن سے کافی دور دیارِ غربت میں بیٹھ کر ( جو صحیح سے بول بھی نہیں سکتا) ویڈیو کالنگ کے ذریعہ اپنے سفید پوش باپ ( جو درحقیقت اس کا چچا تھا) کے سراپے کو دیکھتا جا رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ آہیں بھرتا اور آنسو بہاتا جارہا تھا، یہ منظر مجھے اتنا دلگیر لگا کہ میں اس کی تاب نہ لا سکا جس کی وجہ سے وہاں بنا رکے ہی باچشم نم اپنے گھر کی طرف لوٹ گیا۔
جس لےپالک بیٹے کی میں بات کر رہا ہوں اس کا نام آصف ہے، انیس بیس سال کا خوش شکل نوجوان ہے،کافی دلچسپ اور مست لڑکا ہے،ہمیشہ لوگوں کو اپنی دلکش اداؤں اور نرالی دھجوں سے ہنستا ہنساتا رہتا ہے، کبھی کسی سے لڑتا جھگڑتا نہیں، ہے تو بھولا بھالا پر چالاک اتنا ہے کہ مجال ہے جو کوئی اس کا ایک آنہ بھی ادھر ادھر کردے،بچپن ہی سے اس کی زبان صاف نہیں تھی،بولتا سب کچھ تھا پر آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھے میں صرف "ہاں” ملانا پڑتا تھا، لیکن! اب پہلے سے نسبتا زیادہ صاف ہے، تقریبا سب کچھ سمجھ میں آجاتا ہے، ابھی مہینہ بھر پہلے میرے ایک دوست کی معرفت فون پر مجھ سے کافی لمبی بات کی تھی ، کافی خوش تھا،چہک چہک کر "حافی ساب حافی ساب” ( حافظ صاحب،حافظ صاحب) کہہ کر حال و احوال دریافت کر رہا تھا، مگر آج اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب میرے لئے ناقابلِ برداشت تھا۔
نوجوان آصف درحقیقت مرحوم کلیم کا سگا بھتیجا ہے، جو اس نے اپنے بڑے بھائی سلیم سے اسے حالتِ شیرخوارگی ہی میں گود لے لیا تھا، کیونکہ شادی کے کافی عرصہ بعد بھی اولاد کی آہٹ سے اس کی گود ویران رہی، پھر جب آصف پیدا ہوا تو اپنے بڑے بھائی سلیم سے آصف کو مانگ لیا، سلیم کہ جس کی کل چار اولادیں ہوئیں، جن میں سے دو ناری اور دو نرینہ ہیں، ان میں سے ایک آصف بھی ہے، سلیم نے اپنے چھوٹے بھائی کے گھر کا چراغ روشن رکھنے کے لئے اپنے ننھے سے بیٹے کو بخوشی بھائی کے حوالے کردیا، اس کے بعد قدرت کی کرشمہ سازی دیکھئے  کہ کچھ عرصہ بعد کلیم کے گھر بیٹی کی شکل میں ایک پھول کھل گیا، جس کی وجہ سے کلیم کے گھر کی رونق میں مزید اضافہ ہوگیا، اور ادھر سلیم کے گھر کا حال یہ ہوا کہ سلیم کا بڑا بیٹا برساتو ( اصل نام کا علم نہیں ) اپنے سسرال میں گھر جوائی ہو کر رہ گیا، اور آصف کو تو پہلے ہی وہ اپنے بھائی کا حوالہ کرچکے تھے،وہ مکمل طور پر اپنے منہ بولے باپ کا وفادار بن گیا ،عرصہ ہوا سلیم بھی اس دنیا سے رخصت ہوگیا ہے، اب صرف اس کی دکھیاری بیوہ نرینہ اولاد کے ہوتے ہوئے ان کی کامل منفعت ( سنا کہ آصف کو حقیقت کا علم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے وہ بھی کبھی کبھی اپنی سگی ماں کو روپے پیسے بھیج دیا کرتا ہے )سے محروم ادھر ادھر سے وصول کر کے اپنی دو جوان بیٹیوں کا بوجھ سنبھال رہی ہے۔
خیر اب مرحوم کلیم اپنی مختصر سی علالت کے بعد دنیوی جھمیلوں سے یکسر بے نیاز و بیگانہ ایک لمبے سفر پر نکل چکے ہیں، لیکن ان کی بیوہ اور جٹھانی کے بیچ اب تک ٹھنی ہوئی ہے،اب آگے اللہ ہی اس گھر کا محافظ ہے۔
دعا ہیکہ اللہ رب العزت اس گھر کے حالات کو سازگار فرمائے، اور مرحوم کلیم کی بشری خطاؤں پر پردہ ڈھانپتے ہوئے جنت کے بالاخانوں میں اسے جگہ عنایت کرے، اور اس کی بیوہ، بیٹی اور نوجوان آصف کے دلوں کو صبر و قرار عطا کرے، آمین یا رب العلمین۔

Comments are closed.