آپ ﷺکے گستاخوں کا عبرتناک انجام قرآنی واقعات کی روشنی میں ازقلم : عبد الرحمن چمپارنی پہلی قسط ؍1

آپ ﷺکے گستاخوں کا عبرتناک انجام قرآنی واقعات کی روشنی میں
ازقلم : عبد الرحمن چمپارنی
پہلی قسط ؍1
محسن انسانیت ، سرکار دو جہاں ، خاتم النبین ، شفیع المذنبین ،سب کے چہیتے ، سب کے محبوب ،جن کی وجہ سے دنیا کا وجود ،جن کی وجہ سے انسان کی تخلیق ، وہ جن کا مشن انسانیت کو راہ راست پر لانا تھا ، وہ جو اپنی قوم کی بھلائی کےلیے طائف کے سفر میں پتھر کھا کر دعائیں دیتے رہے ، وہ نبی جو دشمنان اسلام کی ایذاؤں ، تکلیفوں اور ان کی ظلم وزیادتی کو سہتے رہے ، وہ نبی جو کل قیامت کے دن اپنی امت کے لیے سفارش کریں گے اور دربار خداوندی میں سر بہ سجود ہو ں گے ، جب ہر شخص نفسی نفسی کے عالم میں ہوگا ، وہی نبی کل قیامت کے دن اپنی ہاتھو ں سے حوض کوثر سے سبھی کو سیراب کریں گے ، اس نبی سیدنا محمد عربی ﷺ کو آپ ﷺ کی بعثت مبارکہ سے ہی ظالموں کا سامنا کرنا پڑا ، جس نے آپ ﷺ کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں ، تاریخ شاہد ہے کہ سب کے سب ہلاک و برباد ہوگئے ، جنہوں نے آپ ﷺ کی شان میں گستاخیاں کی ، جنہوں نے گالیاں دیں ، جنہوں نے برا بھلا کہا ،سب کے سب ملا میٹ ہو گئے ، ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں رہا ، اور نہیں ہے اور نہ ہی رہے گا ، اور یہ صرف آپ ﷺ او رصحابہ ؓ کے زمانے کی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس زمانہ کے ساتھ خاص ہے ، بل کہ یہ ہر زمانہ ،ہر وقت اور ہر ساعت کی بات ہے ، کہ جس زمانے میں اور جس لمحے میں نبی اکرم ﷺ کی بے حرمتی کی جائے گی ، اور جب کبھی بھی آپ ﷺ کو شب و شتم سے پکارا جائے گا ، اور جس وقت بھی آپ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی ہوگی ، اللہ اس ظالم ، اس بد معاش ، اس گستاخ کو ہلاک و برباد کرکے رہے گا ، اہانت و ذلت اس کی مقدر ہوگی اور دونوں جہاں میں اس پر لعنت ہی لعنت ہوگی ، خواہ وہ گستاخ کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو ، جاہ وحشمت اور دنیوی زرق برق چاہے کتنا ہی نہ ہو ، قر آن نے آپ ﷺ کے ساتھ گستاخی کرنے والے کا واقعہ نقل کرکے پوری انسانیت اور تا قیامت آنے والے لوگوں کو اس بات سے آگاہ فرما دیا ہے کہ جو کوئی بھی پیغمبر اسلام ﷺ سے بد زبانی کرے گا ، اور جو کوئی بھی آپ ﷺ کی گستاخی کرے گا ، وہ ہلاک و برباد ہوجائے گا ، کیا حال ہوا ابولہب کا جس نے نبی ﷺ کی دعوت ایمان اور کوہ صفاء کے اجتماع پر آپ ﷺ کو بد عائیں دی ، آپ ﷺکی شان میں گستاخیاں کی ، او رآپ ﷺ پر پتھر پھینکیں ، اس ظالم ابولہب کی گستاخی کی وجہ سے اس کی ذلت و اہانت قیامت ہوتی رہے گی ، ، سورۃاللھب اسی کی بدبختی پر بہ طور مہر کے ثبت ہے ، اور آنے والی نسلوں اور قوموں کے لیے سامان عبرت ارشاد ربانی ہے جس کا ترجمہ اور خلاصہ یہ ہے :
‘‘ ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہوجائے ، نہ اس کا مال نہ اس کے کام آیا ، او رنہ اس کی کمائی ( مال سے مراد اصل سرمایہ ، اورکمائی سے مراد اس کا نفع ہے ،مطلب یہ ہے کہ کوئی سامان اس کو ہلاکت سے نہ بچا وے گا ، یہ حالت تو اس کی دنیا میں ہوئی اور آخرت میں ) وہ عنقریب ( یعنی مرتے ہی ) ایک شعلہ زن آگ میں داخل ہوگا ، وہ بھی اور اس کی بیوی بھی جو لکڑیاں لاد کر لاتی ہے ، ( مرار خار دار لکڑیاں ہیں جن کو وہ رسول اللہ ﷺ کے راستہ میں بچھادیتی تھی تاکہ آپ کو تکلیف پہنچے اور دوزخ میں پہنچ کراس کے گلے میں ( دوزخ کی زنجیر او رطوق ہوگا کہ گویا وہ ) ایک رسی ہوگی خوب بٹی ہوئی ( تشبیہ شدت اور استحکام میں ہے ) ’’
دیکھئے : مفتی شفیع صاحب عثمانی ؒ ، معارف القرآن ،مط ،کتب خانہ نعیمیہ دیوبند ، د، ت ،( جلدنمبر ؍ ۸ صفحہ نمبر ۸۳۸)
قر آن کریم میں کئی ایک مقامات پر آپ ﷺ کی گستاخی کرنے والوں کا انجام صریحی طور پر موجود ہے ،جن کی ہلاکت وبربادی کو خدا نے تاقیامت آنے والے لوگوں کے سامنے واضح انداز میں بیان کردیا ہے ، قرآن گواہ ہے کہ جب کفار مکہ نے آپ ﷺ کے صاحبزادے قاسم یا ابراہیم کے انتقال کے وقت آپ ﷺ کو طعن و تشنیع کیا ، آپ ﷺ کو ابتر او رمقطوع النسل کہا ، اور آپ ﷺ کی شان میں گستاخیاں کی ،ان کا نام ونشان نہ رہا ، وہ ہلاک و برباد ہوگئے اور آپ ﷺمزید رفعت و منزلت اور مقام عرو ج و بلندی پر فائق ہوئے ، ارشاد ربانی کی کا ترجمہ وخلاصہ یہ ہے :
‘‘ بے شک ہم نے آپ کو کوثر ( جنت کی ایک حوض کا نام بھی ہے اور ہر خیر کثیر بھی اس میں شامل ہے ) عطا فرمائی ہے ( جس میں دنیا و آخرت کی ہر خیر و بھلائی شامل ہے دنیا میں دین اسلام کی بقاء و ترقی اور آخر ت میں جنت کے درجات عالیہ سب داخل ہیں ) سو ( ان نعمتوں کے شکر میں ) آپ اپنے پرودگار کے نماز پڑھئے ،( کیوں کہ سب سے بڑی نعمت کے شکر میں سب سے بڑی عبادت چاہئے اور وہ نماز ہے ) اور تکمیل شکر کے لیے جسمانی عبادت کے ساتھ مالی عبادت یعنی اسی کےنام کی) قربانی کیجئے (جیسا کہ دوسری آیتوں میں عموماً نماز کے ساتھ زکوۃ کا حکم ہے ،اس میں زکوۃ کے بجائے قربانی کا ذکر شاید ا س لیے اختیار کیا گیا کہ قربانی میں مالی عبادت ہونے کے علاوہ مشرکین اور مشرکانہ رسوم کی عملی مخالفت بھی ہے کیو ں کہ مشرکین بتوں کے نام کی قربانی کیا کرتے تھے ، آگے آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے قاسم کی بچین میں وفات پر بعض مشرکین نے جو یہ طعنہ دیا تھا کہ ان کی نسل نہ چلے گی اوران کے دین کا سلسلہ جلد ختم ہوجائےگا ، اس کا جواب ہے کہ آپ ﷺ بفضلہ تعالی بے نام و نشان نہیں ہیں بلکہ ) بالیقین آپ ﷺ کا دشمن ہی بے نام ونشان ہے ،(خواہ ظاہری نسل اس دشمن کی چلے یا نہ چلے ، لیکن دنیا میں اس کا ذکر خیر باقی نہیں رہے گا بخلاف آپ کے آپ کی امت اور آپ کی یا د نیک نامی ،محبت و اعتقاد کے ساتھ باقی رہے گی ،او ریہ سب نعمتیں لفظ کوثر کے مفہوم میں داخل ہیں ،اگر پسری اولا د کی نسل نہ ہو نہ سہی ، جونسل سے مقصو د ہے وہ آپ کو حاصل ہے یہاں تک کہ دنیاسے گزر کر آخرت تک بھی اور دشمن اس سے محروم ہے ) ’’
دیکھئے : مفتی شفیع صاحب عثمانی ؒ ، معارف القرآن ،مط ،کتب خانہ نعیمیہ دیوبند ، د، ت ،( جلدنمبر ؍ ۸ صفحہ نمبر۸۲۷۔۸۲۸)
(جاری
Comments are closed.