صحابہ کرام کےسیاسی اختلافات کے معاملات میں کیا ہمیں جج بننے کاحق ہے؟

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
جواختلافات سیاسی بنیادپر حضرت علی۔حضرت معاویہ۔ حضرات حسنین۔یہاں تک کے اماں عائشہ کی اس میں شرکت۔اورپھر صحابہ کرام کا دوطرف ہونا۔ یہ سب اب تاریخ اسلامی کا حصہ ہے۔ اوران میں سے کون حق پر تھے۔اورکون ناحق پر ۔یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ اس معاملہ میں حضرت سیدنا علی اوروہ حضرات صحابہ جو حضرت علی کی حمایت میں تھے۔اگرچہ ہمیں ان کے درمیان فیصلہ کرنے حق نہیں ہے۔ کیونکہ ہم لوگ تو ان کی جوتیوں کے خاک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ میں قران وحدیث کی روشنی میں یہ محسوس کرتاہوں کہ ”دونوں گروہ جب خود اللہ کے سامنے اپنے کئیے کے لئیے جواب دہ ہیں “ توپھر ہمیں کیاکوئی حق ہے کہ ان کے اختلافات کے بارے میں صرف یہ کہ کر دوگروہ میں تقسیم ہوجائیں ایک گروہ ایک کوحق پرگردانتارہے۔اوردوسرا دوسرے گروہ کو اوریہ معاملہ یوں ہی چلتارہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم لوگوں سے ان کے بارے میں سوال ہوگا۔جوکچھ سوال وجواب ہوناہے آخرت میں خود ان سے ہوگا۔ جب شرعی نقطہ نظر سے اس بات کو پوری دنیا تسلیم کرتی آئی ہے۔دوسرے کے کئیے کاسوالکسی دوسرے سے نہیں ہوگا۔جیساکہ قران نے کہاہے۔”ولاتزروازرۃ وزراخری“پھر ہمیں چاہے شیعہ ہویاسنی کسی کوبھی انکے اختلافات کو آج چودہ سوسال گزرنے کے بعد ہودینے اوراس کی بنیاد پر امت مسلمہ کو دوامتبنالینے کا کیا جواز اورکیا حق ہے؟ اوران کے اختلافات کے تعلق سےہمیں جج بننے کا قران وحدیث کی روشنی میں۔ کیا حق ہے؟۔جہاں تک میں نے سمجھاہے ماضی کے گزرے ہوئے لوگوں کے معاملات سے متعلق اگر اس کا تعلق ہمارے دین اورعقیدہ سے نہ ہو توہم اس کے مکلف نہیں ہیں۔بلکہ صرف دین صحیح اوراسوہ رسول پر ہم عمل کے مکلف ہیں۔۔اللہ تعالی اس بکھری ہوئی امت کوکلمہ واحدہ پر متحد فرمائیے۔ آمین۔
Comments are closed.