بی بی سی کی ایک رپورٹ نے کروڑوں کے کمبھ پر پانی پھیر دیا

ڈاکٹر سلیم خان
کمبھ میلے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے بی جے پی سرکارنے 70؍ارب روپئے خرچ کیے مگر بی بی سی کی ایک تفتیشی رپورٹ نے اس پر پانی پھیر دیا۔ہندوستان کا میڈیا دنیا کا سب سے وسیع اور لسانی طور پر نہایت متنوع ہے۔ 900 ٹی وی چینلز ہر شام کروڑوں ناظرین کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں ۔ ان کے علاوہ اخبارات اور ان کے پورٹل بھی دن رات خبریں نشر کرتے رہتے ہیں۔ سوشیل میڈیا پر تو ایک سونامی آئی ہوئی ہےلیکن میدان میں اتر کر حقائق کا پتہ لگانے کی توفیق شاذو نادر ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے ۔ عام طور انتظامیہ کے جھوٹےسچے بیانیہ کو نمک مرچ لگاکر پیش کردیا جاتا ہے اس لیے سچائی سامنے آنے کے بجائے کہیں کھو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گودی میڈیا کے اوپر سے عوام کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ ٹیلیویژن پر ہونے والے مباحث کو لوگ تفریح کی غرض سے دیکھتے ہیں ۔ ملک کے اندرمیڈیا ہاوس کے ابن الوقت اور مادہ پرست مالک نظریاتی ہم آہنگی سے کم اور مالی مفاد سے زیادہ سرکاری دباؤ میں کام کرتے ہیں۔ وہ صحافی جو سرکارکی چاکری نہیں کرتے ان کو دہشت گردی، بغاوت اور ہتکِ عزت جیسے الزامات لگا کر خوفزدہ کیاجاتا ہے۔ ای ڈی وغیرہ کے ذریعہ ڈرا دھمکا کر تنقیدکرنے والوں کی آوازوں کو خاموش کردیا جاتا ہے۔ ایسے میں کمبھ میلے کےتعلق سے بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹ اس دور کی صحافت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
بی بی سی نے میدان عمل میں جاکر جو تفتیش کی اس کے مطابق کمبھ کی بھگدڑ میں کم از کم 82 لوگ مارے گئے تھے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے پسماندگان نے بی بی سی کے نامہ نگاروں سے بات چیت کی ۔ ان کے بیانات پر اکتفاء کرنے کے بجائے شواہد اور دستاویزات کو جانچ پڑتال کی گئی۔ بی بی سی سارے ثبوت اپنی سائیٹ پر ڈال منصۂ شہود پر پہنچا دیا ۔ یہ ایسے ناقابلِ انکار حقائق ہیں کہ جن کی تردید ممکن نہیں ہے۔ اس تفتیشی رپورٹ نے سرکار کے اس دعویٰ کی قلعی کھول دی کہ کمبھ میلے کے دوران صرف 37 عقیدتمندوں نے جان گنوائی ۔ اس طرح کر سرکار کا جھوٹ بے نقاب ہوا تو حزب اختلاف کو حکومت کے خلاف محاذ کھولنے کا موقع مل گیا مگر افسوس کہ میڈیا نے اس احتجاج کو بھی دبا دیا ۔ بی بی سی کی رپورٹ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس پارٹی نےلکھا کہ ، "یوپی کی بی جے پی حکومت نے کمبھ بھگدڑ میں صرف 37 لوگوں کی ہلاکت کو تسلیم کیا جبکہ بی بی سی کی تحقیقات میں 82 ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ۔بی بی سی کو ایسے 26 خاندان ملے جنہیں کمبھ میلےسے 5 لاکھ روپے کے بنڈل دے کر ہٹا دیا گیا تھا تا کہ انہیں مرنے والوں کی گنتی میں شامل نہیں کیا جائے۔‘‘
مذکورہ بالا حقائق کا حوالہ دینے کے بعد کانگریس پارٹی نے بی جے پی سے سوال کیاکہ ، "بی جے پی حکومت کمبھ بھگدڑ میں مارے گئے لوگوں کی تعداد کو چھپانے کی کوشش کیوں کر رہی تھی؟ اور بی جے پی حکومت کو لوگوں کی موت سے زیادہ اپنی شبیہ کی فکر کیوں تھی؟”اس کے ساتھ ہی کانگریس کی ترجمان سپریا شرینیت نے بی بی سی ہندی کی خصوصی رپورٹ پر لکھا، "کمبھ بھگدڑ میں کم از کم 82 لوگ مارے گئے تھے۔ یہ تعداد یوپی حکومت کی طرف سے بتائی گئی 37 اموات سے کہیں زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں 11 ریاستوں کے 50 سے زیادہ اضلاع میں 100 سے زیادہ خاندانوں سے بات کی گئی ہے‘‘۔ اتر پردیش کامعاملہ ہوتوسماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کیسے چوک سکتے ہیں؟ انہوں نے بی جے پی پر سوال اٹھایا ، "حقائق بمقابلہ سچ: 37 بمقابلہ 82۔ ہر کسی کو(یہ بات ) دیکھنا، سننا، جاننا، سمجھنا اور شئیر کرنا چاہیے۔ صرف سچائی کی تحقیقات کافی نہیں ہے بلکہ اس کی تشہیر بھی اتنی ہی ضروری ہے۔‘‘
اکھلیش یادو نےبی جے پی والوں کو خود اپنا جائزہ لینے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ ’’جو لوگ کسی کی موت کے بارے میں جھوٹ بول سکتے ہیں، وہ جھوٹ کے کس پہاڑ پر چڑھ کر خود کو اپنی جھوٹی سلطنت کا سربراہ سمجھ رہے ہیں؟‘‘ ا کھلیش یادو نے آگے لکھا، "کوئی بھی ایسے بی جے پی ممبران پر بھروسہ نہیں کرے گا جو غلط اعدادوشمار دیتے ہیں‘‘۔ یہ دراصل اکھلیش یادو کی غلط فہمی ہے۔ ہندوستانی عوام بار بار دھوکہ کھانے کے لیے مشہور ہے۔ اس کی یادداشت بہت کمزور ہے اور اس کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی جیسی جماعتیں بار بار اقتدار میں آجاتی ہیں۔ بی بی سی کی یہ رپورٹ بڑی مشقت کے بعد تیار کی گئی ۔ اس نے تفتیش کی خاطر 11 ریاستوں کے 50 اضلاع میں 100 سے زیادہ خاندانوں کے ساتھ ملاقات کی ۔ اس دوران بی بی سی کو ایسے 26 خاندان ملے جن کے نقصان کو چھپانے کے لیے پچیس کے بجائے پانچ لاکھ روپیہ نقد پکڑا دیا گیا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوئی بھول چوک کا معاملہ نہیں تھا بلکہ جان بوجھ کر پھیلایا جانے والا جھوٹ تھا۔یوگی سرکار نے اپنی جھوٹی شان کو بگھارنے کی خاطر گنگا کے کنارے مرنے والوں کا حق مارا ہے۔
اس موقع پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ ایک کروڈ تیس لاکھ کی رقم کہاں سے آئی ؟ بھارتیہ جنتا پارٹی مسلمانوں کی حق تلفی کا ڈھول پیٹ کر ہندووں کو خوش کرنے کی کوشش تو کرتی ہے مگرساتھ ہی ہندو عقیدتمندوں کا حق مار کر اسے چھپاتی ہے۔ ایسے لوگ گنگا میں ڈبکی لگاتے ہوئے چاہے جتنی ویڈیو بنالیں خود سناتن عقیدے کے مطابق بھی پاک صاف نہیں ہوسکتے۔ ویسے جن لوگوں کے باقیات اور لاشوں کو بلڈوزر سے ڈھکیل یوگی سرکار نے گنگا میں بہا دیا ان تک تو بی بی سی بھی نہیں پہنچ سکی اور ان کی بابت ۸ سو سے زیادہ کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ پی ایم مودی کے ذریعہ کمبھ حادثے پر افسوس کا اظہارتھا ۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ’’پریاگ راج مہاکمبھ میں انتہائی افسوسناک حادثہ پیش آیا ہے۔ جن عقیدت مندوں نےاپنے پیاروں کو کھو دیا ان سے میری گہری تعزیت ہے ۔ میں تمام زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتا ہوں۔ مقامی انتظامیہ متاثرین کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے میں مصروف ہے۔ میں نے وزیر اعلیٰ یوگی جی سے بات کی ہے اور میں ریاستی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں‘‘ لیکن اس کھوکھلی ہمدردی کو بی بی سی کی رپورٹ نے آئینہ دکھا دیا۔
کمبھ میں جملہ تین بار بھگدڑ مچی اور پھر نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھی وہی کہانی دوہرائی گئی۔یہ حادثہ کلی طور پر ریلوے انتظامیہ کی بد انتظامی کے سبب رونما ہوا ۔ جس پریاگ راج اسپیشل ٹرین کو پلیٹ فارم نمبر 12 سے روانہ ہونا تھا، اسے اچانک پلیٹ فارم نمبر 16 پر منتقل کر دیا گیا۔ جب پلیٹ فارم نمبر 12 پر انتظار کرنے والی بھیڑ اور باہر انتظار کرنے والے لوگوں نے پلیٹ فارم 16 تک پہنچنے کی کوشش کی تو عقیدتمند ایک دوسرے سے ٹکرا کر ایسکلیٹرز اور سیڑھیوں پر گر پڑے اور بھیڑ کے نیچے کچل گئے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی کون سی دھرم یاترا ہے جس میں لوگ دوسروں کو پیروں تلے کچل دیتے ہیں۔ اپنے پاپ کو دھو کر پونیہ کمانے کا یہ کون سا جنون ہے جو انسانوں سے ان کی انسانیت چھین لیتا ہے۔ سرکار پہلے تو اس سے انجان بن جاتی ہے لیکن جب بات نہیں دبتی تو ریلوے کے ذریعہ مرنے والوں کے لواحقین کی خاطر 10 -10 لاکھ روپے، شدید زخمیوں کے لیے 2.5 لاکھ روپے اور معمولی زخمیوں کے لیے ایک لاکھ روپے کے معاوضہ دینے کا اعلان جاتا ہے۔
ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ موت تو موت ہے پریاگ جانے سے پہلے دس اور وہاں پہنچنے کے بعد مرنے کا معاوضہ پچیس لاکھ کیوں ؟ یہ کون سی منطق ہے؟ ریلوے بورڈ کے چیئرمین ستیش کمارتو جائے وقوع کا معائنہ کرنے ریلوے اسٹیشن پہنچتےہیں مگر وزیر ریلوے یا مودی و شاہ کو یہ توفیق نہیں ہوتی۔ وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے گھر میں بیٹھے بیٹھے بیان جاری کرکے افسوس کا اظہار کرکے مرنے والوں کی تعزیت فرما دیتے ہیں نیز زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات دے دی جاتی ہیں ۔وزارتِ ریلوے نے اس معاملے کی اعلیٰ سطح کی جانچ کا حکم دیتا ہے مگر ہنوز وہ رپورٹ ندارد ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو کام بی بی سی کرسکتا ہے وہ سرکار اور ہندوستانی میڈیا کیوں نہیں کرسکتا؟الہ باد ہائی کے جسٹس ارون بھسالی اور جسٹس کشیتیج شیلیندر کی ڈویژن بنچ نے ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سابق جنرل سیکریٹری سریش چندر پانڈے کی دائر کردہ پی آئی ایل پر ہلاکتوں اور لاپتہ لوگوں پر فروری کے آخری ہفتے تک رپورٹ طلب کی تھی۔ فی الحال جون ختم ہوچکا ہے مگر یوگی سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی اور عدالت کے حکم پر جو کام اسے کرنا تھا وہ ذمہ داری ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے نے اداکردی ۔ یہ بات نہ صرف سرکار بلکہ ہندوستانی میڈیا کے لیے شرمناک ہے کہ وہ تو ہندو مسلم کھیلتا رہا ہے اور باہر والوں نے اس بڑے ظلم کو بے نقاب کردیا ۔ہندوستانی مین اسٹریم میڈیا وہ نہیں کرسکا کیونکہ وہ سرکار کی گود میں بیٹھ مخالفین پر بھونکنے کے سوا سب کچھ بھول چکا ہے۔
Comments are closed.