بہار کیلئے کوئی منصوبہ نہیں۔ محمد صابر حسین ندوی

بہار کیلئے کوئی منصوبہ نہیں۔
محمد صابر حسین ندوی
7987972043
ایک ملک اپنی وسعت و آبادی اور جدید ترقی و تعمیر کے ساتھ پیش قدمی کرنے کو ہے، اس کے کل پرزے بہت تیزی کے ساتھ حرکت کر رہے ہیں، منفی و مثبت دونوں پہلوؤں سے تقویت حاصل ہورہی ہے، عالمی برادری میں نئی پہچان اور نیا رتبہ بننے کو ہے، مغرب سے لیکر خلیج اور افریقیوں تک اس نے اپنا جال بچھانے، اپنی پہچان بنانے اور ملک کو ایک نئے معیار تک پہنچانے کی کوشش کی ہے، انگریزی استعمار کے بعد سے اب تک غلامی کی زنجیریں توڑنے اور نیا آسمان و نئی تلاش کرنے میں بڑی کامیابی پائی ہے، حالانکہ اپنی اندرونی پالیسیوں، منافقین اور فاشزم کی وجہ سے اس کا چہرہ گرد آلود ہوتا رہتا ہے؛ لیکن اس کی مضبوط اساس لوگوں کو راغب کرتی رہتی ہے، چنانچہ اب دنیا کے سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ سیاح بھی اس کی طرف مائل ہیں، ہر سال اس ملک کے بعض حصوں کو دیکھنے آتے ہیں یا پھر وہاں پر مصنوعات کی فیکٹریاں لگانے اور بڑے بڑے پروجیکٹ کی راہ ہموار کرنے آتے ہیں، جدید ٹیکنالوجی کا مرکز بنا کر پوری قوم کو ایک اپنے منصوبے کا حصہ بنانا چاہتے ہیں، انہیں ایک گاہک کے طور پر دیکھتے ہیں، دنیا سب سے بڑا بازار اور سب سے زیادہ ورک فورس کی صورت میں دیکھتے ہیں، پھر اسی ملک میں ایک حصہ ایسا ہے جو اگرچہ اپنی تاریخ، ثقافت اور قدامت میں ماتھے کی بندیا ہے، کسی دلہن کے گلے کا ہار ہے، لیکن اس سے کیا ہوتا ہے کہ ماضی کیسا تھا، بات حال کی ہوتی ہے، جو ظاہر ہو اسی پر مکھیاں بھنبھناتی ہیں، چڑھتے سورج کو ہی سلام کیا جاتا ہے، اور ڈوبتے کو ٹھوکر ماری جاتی ہے، اسے مزید گہرائی میں دھکیلا جاتا ہے، یہی دنیا کا رواج ہے؛ چنانچہ اب وہ حصہ ایک کیمپس میں بدل چکا ہے، جہاں سے دہاڑی، یومیہ اور مہاجر مزدور فراہم کئے جاتے ہیں، بالعموم دنیا اور بالخصوص اس ملک کے ہر کونے تک ان کی پہنچ ہے، کچھ وہ بھی ہیں جو سرکاری انتظام میں دخیل ہیں؛ محنت و جفا کشی نے انہیں ایک نیا میدان فراہم. کردیا ہے؛ لیکن ان کی شرح بہت کم ہے، اکثریت اپنے ہاتھوں سے کمانے والے، خون پسینہ بہا کر دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے والے، اور کسی بھی طرح دو بالشت کا پیٹ بھرنے کی فکر دامن سے چمٹائے رہنے والے ہیں، اب ایسے میں کچھ لوگوں نے بیداری کی بات کہی ہے، ویسے ہمیشہ کہتے ہیں؛ کچھ سیاست دان اس چکر میں خوب سیاست بھی کرجاتے ہیں اور ان مزدوروں کی پیشانی سے پسینہ صاف کرنے کی ہوڑ لگی رہتی ہے، مگر ان سب کی حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف اور صرف گدی کا لطف لینا چاہتے ہیں؛ ان کی نسلیں راجا و مہاراجہ کی طرح جیتی ہیں، ان سے متعلق ہر فرد اپنے آپ میں دبنگ ہے؛ لیکن ان بیچاروں کا کیا، یہ تو صرف مزدوروں کے ایک کیمپ میں رہتے رہتے آخری سانس کی امید کئے جاتے ہیں۔
اس میں ملک سے مراد ہمارا ہندوستان ہے، اور مزدوروں کا وہ حصہ صوبہ بہار ہے، اب آپ خود سوچئے! جب ایک سو تیس کروڑ کو چودہ کروڑ سے فائدہ پہونچتا ہو، خود سرکار انہیں سستے داموں میں فراہم کرتی ہو، جو ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیلے ہوئے تعمیری و ترقی کے کاموں جی جان لگاتے ہیں، بھٹک بھٹک کر اپنے قوت بازو سے ہر کسی کا آشیانہ بنا کر اسے سنوار کر ملک کی زینت بناتے ہوں؛ تو بھلا کوئی کیونکر انہیں آگے بڑھنے کے مواقع دے گا اور ان کیلئے نئی راہیں کھولنے کی کوشش کرے گا، یہاں پندرہ سال لالو پرساد یادو اور پندرہ سال نتیش کمار نے راج کیا ہے؛ پچھلے تیس سال میں اگرچہ کچھ ترقی ہوئی ہے، چلتے پھرتے اس کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے، رپورٹس بھی بڑی بڑی باتیں کرتی ہیں؛ لیکن یہ ترقی اتنی کم ہوئی ہے کہ اسے ترقی کا نام وہی دے سکتا ہے جس نے ترقی دیکھی نہ ہو، اب پھر چناؤ ہونے کو ہیں، پارٹیوں نے زور لگادیا ہے، مگر اس بات کا ویژن کسی کے پاس نہیں ہے کہ وہ اس صوبے کو آئندہ سالوں میں کیسا بنانا ہے، کیونکہ سبھی کوشش کر کے دیکھ چکے، خود نتیش کمار نے ایک ریلی کے اندر یہ بات تسلیم کی کہ ہے کہ ہم نے بہت سی کمپنیوں کو دعوت دی؛ مگر کوئی آنے کو تیار نہیں ہے، مرکزی سرکار صرف پیکیج کا اعلان کروا دیتی ہے؛ لیکن آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ اس کا مصرف کیا رہا ہے، اس صوبے میں ہر دوسرا آدمی خطہ افلاس سے نیچے ہے، تعلیمی میدان کا یہ حال ہے کہ اسکول محض نام کے ہیں، طلبہ ٹیوشن پڑھ کر کچھ سیکھ جاتے ہیں، اور بسا اوقات یہ ملک کا نام بھی روشن کر جاتے ہیں، بجلی اب تک گھر گھر نہ پہونچ سکی، اگر پہنچی ہے تو اتنی نہیں کہ اسے ایک اچھی زندگی کہا جاسکے، سواری کا انتظام نہ کے برابر ہے، سرکاری ٹرانسپورٹ تو گویا ہے ہی نہیں، ہر سال باڑھ اور سیلاب سے اس کی کمر ٹوٹ چکی ہے، راستے اب بھی بابا آدم کے زمانے کی یاد دلاتے ہیں، یہاں کی معاشی صورتحال صرف سرکاری نوکری پر ٹکی ہے، کھیتی باڑی بھی اپنی فصل کے اعتبار سے بہت پیچھے ہے؛ کیونکہ اس کیلئے بھی پیسوں ہی کی ضرورت پڑتی ہے، ایسے میں بھلا ہجرت کا یہ رواج کیسے ٹوٹے گا؟ دراصل مرکزی نقطہ کی بات یہی ہے کہ اس صوبے کو ایک مزدور کیمپ بنادیا گیا ہے؛ ظاہر سی بات ہے کہ ملک اپنے مفاد کو صرف چودہ کروڑ کیلئے داؤ پر نہیں لگائے گا۔
Comments are closed.