مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو (دوسری قسط). @auqaabi

مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو (دوسری قسط)
مولانا نور عالم خلیل امینی لکھتے ہیں: "مفتی صاحب نے ہندوستان کے عصر حاضر کے سب سے بڑے محدث اور اسماء الرجال کے فاضل یگانہ حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی (محدث اعظمی) رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، مولانا علامہ سید سلیمان ندوی، امیر شریعت مولانا سید منت اللہ رحمانی، مولانا عبد الرحمن امیر شریعت بہار و اڑیسہ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب، مولانا شاہ فضل اللہ کی صحبت سے نہ صرف فیض پایا، بلکہ ان سے خوب خوب روحانی، علمی اور فکری پیاس بجھائی، اسی لئے نہ صرف یہ کہ ان کا علم شریعت ٹھوس ہے، بلکہ ان کے ہاں فکری استقامت، تجربے کی پختگی اور زبان و قلم کی راست روی کا جو امتیاز نظر آتا ہے، وہ انہیں اساطین علم و کمال و طریقت کا فیض ہے، جو مفتی صاحب نے خدا کی توفیق سے اچھی طرح جذب کیا تھا۔”
دارالعلوم دیوبند میں آمد: 19 ستمبر 1956 میں آپ تقریباً صبح ساڑھے پانچ بجے دیوبند پہنچے۔ آپ کے استقبال کیلئے آپ کے شاگردوں کی بڑی تعداد اسٹیشن پر موجود تھی۔ اسی دن مفتی صاحب حضرت مہتمم قاری طیب صاحب کی خدمت میں پیش ہوئے۔ آپ کو دیکھ کر قاری صاحب نے خوشی کا اظہار فرمایا اور ضابطہ کی کاروائی کا حکم جاری کردیا۔ آپ کی رہائش اور لوازمات کا مدرسہ کی جانب سے انتظام کردیا گیا تھا۔ آپ کا تقرر شعبہ تبلیغ کیلئے ہوا تھا اور اسی کی مناسبت سے حضرت قاری صاحب کے مشورہ سے آپ نے اپنے پہلے کام کا آغاز کیا۔
جماعت اسلامی کے دینی رجحانات: آپ نے محض دو مہینے کی قلیل مدت میں عرق ریزی اور کتابوں کی ورق گردانی کرکے کتاب کا مسودہ تیار کرلیا۔ حضرت مہتمم صاحب کے مشورہ سے کتاب کا نام” جماعت اسلامی کے دینی رجحانات” طے کیا گیا۔ یہ آپ کی پہلی کاوش تھی جسے دارالعلوم کے ارباب فضل و کمال کی مجالس میں پزیرائی حاصل ہوئی اور اس کی طباعت مکتبہ دارالعلوم سے ہوئی۔
دارالافتاء میں بحیثیت مرتب فتاویٰ: 6 ذیقعدہ 1376 میں آپ کو شعبہ تبلیغ سے دارالافتاء میں منتقل کردیا گیا۔ یہاں مفتی مہدی حسن صاحب کی ماتحتی میں اپنے امور انجام دینے تھے۔ دارالافتاء میں منتقلی کے بعد آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے حضرت مہتمم صاحب نے فرمایا: "میں چاہتا ہوں یہاں اہل علم کا اضافہ ہو، سیاسی لوگ بہت ہیں اہل علم ملتے نہیں ہیں، آپ جم کر رہیں، ان شاءاللہ کوئی تکلیف نہیں ہونے دی جائے گی”. حضرت مہتمم صاحب جیسی عظیم شخصیت کا یہ تبصرہ مفتی ظفیر صاحب کی علمی صلاحیت کو بتانے کیلئے کافی ہے۔
آپ نے محنت و جانفشانی سے ترتیب فتاویٰ کا کام شروع کیا۔ اللہ نے آپ کے وقت میں بہت برکت رکھی تھی۔ جو کام دہائیوں میں ہونا تھا اور جس کام کیلئے دہائیوں کا حساب لگایا گیا تھا، آپ نے اس کام کو قلیل مدت میں بحسن و خوبی اختتام تک پہنچا دیا تھا۔ دو مہینے بعد آپ کو ترتیب فتاویٰ سمیت کار افتاء کی ذمہ داری بھی دے دی گئی۔ اس طرح آپ نے باضابطہ فتوٰی نویسی کا سلسلہ بھی جاری کردیا تھا۔ ترتیب فتاویٰ کا کام آپ نے بہت جلد مکمل کرلیا تھا لیکن پہلی جلد کی اشاعت 1381 ہجری میں ہوئی اور بارہویں جلد کی طباعت 1402 ہجری میں مکمل ہوئی۔ بارہ جلدوں پر مشتمل آپ کا یہ کام اپنے آپ میں شاہ کار ہے، جس سے استفادہ کرکے دیگر افراد نے بھی ترتیب فتاویٰ میں ہاتھ لگایا ہے۔
ترتیب کتب خانہ: دارالعلوم کا کتب خانہ معیاری کتابوں کا مسکن تھا۔ نادر و نایاب کتابیں اور مخطوطات کثیر تعداد میں موجود تھیں۔ مختلف علوم و فنون کی معرکۃ الآرا تصنیفات سے دارالعلوم کا کتب خانہ اہل علم کیلئے مرجع بنا ہوا تھا لیکن کتب خانہ کی بے ترتیبی نے اس میں الجھاؤ پیدا کردیا تھا۔ وقت مقررہ پر کتابوں کی دستیابی اور تلاش و یافت جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ ایک سو سال پر محیط یہ کتب خانہ کسی ایسے فرد کی تلاش میں تھا جو اس کے گیسوئے برہم کو سنوار کر قابل دید بنا سکے۔ اسے مرتب کرکے ہر کسی کیلئے بسہولت قابلِ استفادہ بنا سکے اور یہ کام جو ایک صدی سے اپنی بے ترتیبی پر ماتم کناں تھا اس کی تشکیل و تعمیر کیلئے مفتی ظفیر الدین صاحب کا انتخاب عمل میں آیا۔ جس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کثیر عملے کی ضرورت تھی، مفتی صاحب نے جفا کشی، تندہی، خلوص و للہیت کے جذبہ سے سرشار ہوکر دارالعلوم دیوبند کو ایک مرتب اور منظم کتب خانہ بنا کر پیش کردیا تھا۔
مختلف کتب خانوں کا معائنہ: اس کام کو شروع کرنے سے قبل آپ نے باجازت اہتمام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، رامپور اور پٹنہ خدا بخش لائبریری کا سفر کیا۔ ان کتب خانوں کی ترتیب کا جائزہ لیا۔ ان کے طریق کار کو سمجھا اور پرکھا۔ وہاں کے منتظمین سے تبادلہ خیال کیا اور نئے عزم و استقامت کے ساتھ دیوبند آکر آپ نے اپنے کام کا آغاز کیا۔
تمام کتابوں کو اولا باعتبار زبان الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا گیا، عربی، فارسی، اردو نیز دیگر زبانوں کے علیحدہ خانے بنائے گئے۔ بعد ازاں، فنون کے اعتبار سے کتابوں کو منتخب کرکے الگ کیا گیا۔ تفسیر، اصول تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ، علم کلام، علم تصوف، اسرار شریعت اس طرز پر کتابوں کو رکھا گیا اور پھر ان فنون کی مختلف اقسام کی مختلف کتابوں کو از سر نو ترتیب دے کر سجایا گیا۔
دارالعلوم کا کتب خانہ مخطوطات سے بھرا ہوا تھا لیکن مرتب نہ ہونے کی وجہ سے استفادہ کافی مشکل تھا۔ آپ نے تمام مخطوطات کو الگ کیا۔ تمام کا تعارف اس طور پر لکھا کہ مصنفین کے مختصر حالات، کتاب کا فن، کتاب کی اہمیت دیگر کتابوں کے حوالہ جات تمام چیزوں کو آپ نے کتابی شکل میں ترتیب دیا۔ مخطوطات کا یہ شاہکار دو جلدوں میں دارالعلوم سے شائع کیا گیا۔ اس سے قبل طلباء کیلئے کتب خانہ سے استفادہ کی گنجائش نہیں تھی، آپ نے مہتمم صاحب سے درخواست کرکے کتب خانہ کو طلباء کیلئے عام کرایا اور طلباء کی سہولت کے پیش نظر مزید دو گھنٹوں کا اضافہ بھی آپ کی درخواست کا مرہونِ منت ہے۔
ماہانہ مجلہ کا اداریہ: 1385 ہجری کو شوری کی مجلس میں آپ کو بلایا گیا۔ اس وقت دارالعلوم کے ماہانہ مجلہ میں اداریہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ آپ سے اداریہ لکھنے کی درخواست کی گئی۔ آپ نے درخواست کو مشروط کرکے قبول کرلیا۔ آپ کی شرط یہ تھی کہ ٹائٹل پر مدیر کے خانہ میں میرا نام نہ لکھا جائے۔ یہ لوگ تھے جن کے خلوص و وفا کی قسمیں کھائی جاسکتی ہیں۔ آپ کی شرط قبول کی گئی اور پھر آپ نے دارالعلوم کے ماہانہ مجلہ میں اپنے علمی و تحقیقی مضامین سے چار چاند لگا دیئے۔
دیگر شعبے جات سے تعلق: عربی مجلہ الداعی کی نگرانی کیلئے کمیٹی منتخب کی گئی، جس میں آپ کو بھی شامل کیا گیا۔ مولانا بدر الحسن صاحب کو جب حضرت نانوتوی کی تصانیف کے مطالعہ کیلئے منتخب کیاگیا تو اس کی نگرانی بھی مفتی صاحب کے حصہ میں آئی۔ دارالقضاء کا قیام عمل میں آیا تو کمیٹی میں آپ کا نام بھی شامل کیا گیا۔ اہتمام یا حضرت مہتمم صاحب کے نام جو علمی خطوط آتے تھے ان کے جوابات بھی آپ لکھا کرتے تھے۔ شعبہ مطالعہ قرآنی کا آغاز آپ کی نگرانی میں کیا گیا۔
دیگر اداروں کی جانب سے پیشکش: امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی صاحب نے بارہا آپ سے امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں قیام کی درخواست کی۔ حتی کہ انہوں نے حضرت قاری طیب صاحب سے بھی اس سلسلہ میں بات کی لیکن قاری طیب صاحب نے آمادگی ظاہر نہیں کی۔ البتہ جامعہ رحمانی مونگیر اور امارت شرعیہ کے مختلف علمی کام آپ نے انجام دیئے ہیں اور امارت شرعیہ کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے (امارت شرعیہ دینی جد وجہد کا روشن باب) مرتب فرمایا۔ ندوہ العلماء کے پچاسی سالہ اجلاس سے قبل حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی نے آپ کو باجازت اہتمام ندوہ العلماء میں چند امور کی انجام دہی کیلئے طلب کیا۔ ندوہ العلماء کا کتب خانہ جسے مرتب کرنے کیلئے حضرت علی میاں ندوی نے چار سال تک مستقل ملازم رکھا تھا لیکن کام نہیں ہوسکا۔ مفتی صاحب نے دیگر امور کے ساتھ تین مہینے کی مختصر مدت میں کتب خانہ کو مرتب کردیا۔ دارالعلوم دیوبند اور ندوہ العلماء دونوں عالمی ادارے کے کتب خانے مفتی صاحب کی علم دوستی اور خلوص و صداقت کی بین دلیل ہے۔ کام کی تکمیل کے بعد مولانا علی میاں ندوی نے آپ سے ندوہ العلماء میں مستقل قیام کی پیشکش کی لیکن دارالعلوم کی محبت نے کہیں اور قیام کی اجازت نہیں دی۔
بیعت و سلوک: منکسر المزاجی، تواضع، خاکساری، عبادات کی پابندی اور خشیت الٰہی آپ میں اللہ نے ابتدا سے ہی ودیعت رکھا تھا۔ ابتدا میں جب آپ امیر شریعت خامس مولانا عبد الرحمن صاحب کی زیر سرپرستی حصول علم کی راہ پر گامزن تھے، تو اس زمانہ میں اوراد و وظائف اور تسبیحات کے سلسلہ میں ان سے رابطہ قائم کئے ہوئے تھے۔ فراغت کے بعد خط و کتابت کے ذریعہ یہ سلسلہ علامہ سید سلیمان ندوی سے بھی جاری رہا لیکن اس وقت تک آپ نے باضابطہ کسی کو اپنا راہبر و مرشد نہیں بنایا تھا۔ ایک دن موقع غنیمت جان کر آپ نے مولانا عبد الرحمن صاحب سے بیعت کی درخواست کی۔ مولانا عبد الرحمن صاحب نے دیگر اکابرین کی جانب رغبت دلائی۔ آپ نے علامہ سید سلیمان ندوی کو اس سلسلہ میں خط لکھا اور اپنا منشاء بھی ظاہر کیا کہ یا تو آپ بیعت فرمالیں یا شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے متعلق مشورہ سے نوازیں۔ بالآخر آپ نے حضرت مدنی کا دامن تھام لیا اور یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم میں تقرری کے باوجود آپ مستقل حضرت مدنی کے درس میں شریک ہوتے تھے۔ حضرت مدنی بعدکی وفات کے بعد آپ نے حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب کا دامن تھاما۔ قاری صاحب نے آپ کو خلافت سے نوازا تھا۔ حضرت مولانا محمد علی مونگیری کے پوتے مولانا فضل اللہ صاحب جو صاحب نسبت بزرگ اور دارالعلوم کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے انہوں نے آپ کو از خود خلعت خلافت سے نوازا تھا۔
دارالافتاء میں واپسی: سن 1403 ہجری میں آپ کو کتب خانہ سے دوبارہ دارالافتاء میں منتقل کردیا گیا۔ فتویٰ نویسی کے علاوہ آپ کے ذمہ رسم المفتی اور در مختار کا درس بھی شامل کردیا گیا۔ مفتی صاحب کو دارالعلوم نے مختلف شعبوں میں آزمایا اور ہر جگہ مفتی صاحب کے کام کو سراہا گیا۔ انہوں نے اپنا کام محنت اور شوق سے کیا، کبھی کوتاہی یا دیگر عوارض کی وجہ سے کام میں رخنہ نہیں پڑنے دیا۔ مفتی سعید صاحب پالنپوری لکھتے ہیں کہ مفتی صاحب نے تقریبا ایک لاکھ فتاوی لکھے ہیں۔
تصنیفات وتالیفات: آپ زود قلم تھے، آپ کے قلم میں روانی و جولانی تھی، جب لکھتے تو لکھتے چلے جاتے۔ الفاظ نہایت مناسب اور متوازن ہوا کرتے تھے۔ الفاظ کے ہیچ و خم اور مترادفات کی بھر مار کے بجائے انداز بیان اور مواد پیش نظر رکھتے تھے۔ آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں سے بعض کتابیں شاملِ نصاب بھی ہے۔ آپ کی کئی کتابوں کا ترجمہ مختلف زبانوں میں کیا جاچکا ہے۔ آپ کے مقالات و مضامین ان مرتب کتابوں کے علاوہ ہیں۔ اگر تمام مضامین و مقالات کو یکجا کیا جائے تو یہ عظیم علمی سرمایہ ثابت ہوگا جو کئی جلدوں پر مشتمل ہوگا۔ آپ کی مشہور تصانیف یہ ہیں:
جرم و سزا کتاب و سنت کی روشنی میں
امارت شرعیہ دینی جد وجہد کا روشن باب
اسلام کا نظام امن
درس قرآن
اسلام کا نظام حیات
اسلامی حکومت کے نقش و نگار
اسلام کا نظام تعمیر سیرت
اسلام کا نظام مساجد
ان کے علاوہ فتاویٰ دارالعلوم کی بارہ جلدیں آپ کی محنت شاقہ کا روشن باب ہے۔
سفر آخرت: ضعف، کمزوری اور بچوں کے اصرار بسیار کے بعد آپ نے 2008 میں دارالعلوم سے سبکدوشی کا فیصلہ کرلیا۔ تقریبا زندگی کے 53 سال آپ نے دارالعلوم دیوبند کو دیا تھا۔ ان ایام میں یہاں کے سرد و گرم حالات کو آپ نے بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا تھا۔ لیکن کبھی آپ نے اپنے دامن پر کوئی داغ نہیں لگنے دیا۔ آپ فطرتا کم گو اور گوشہ نشین تھے اور اخیر تک آپ اپنے ان اصولوں پر کار بند رہے ۔ بالآخر طویل راہ کا یہ مسافر جس نے تمام عمر کتابوں کی ورق گردانی اور قلم کی روانی میں گزاردیا تھا 31 مارچ بروز جمعرات 2011 کو ہمیشہ کے لئے اپنے محبوب کی بارگاہ میں پہنچ گیا۔ علم و عمل کا عظیم سرمایہ جس نے متعدد ملکی اور قومی علمی تنظیموں کی سرپرستی کا فریضہ انجام دیا تھا اور بے شمار سیمینار میں اپنے وقیع مقالات سے علمی فضا کو قائم رکھا تھا وہ سدا کے لئے لاکھوں چاہنے والوں کو چھوڑ کر دار آخرت کو کوچ کرگیا ۔ بروز جمعہ آپ کی تدفین آپ کے قائم کردہ ادارہ مدرسہ شمس العلوم کے احاطہ میں عمل میں آئی۔
کتنے عظیم لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے
جی چاہتاہے ان کے نقش قدم چومتا چلوں
Comments are closed.