اصل جواب یہ ہونا چاہیے!!! محمد صابر حسین ندوی

اصل جواب یہ ہونا چاہیے!!!

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر امتی کا سرمایہ حیات ہے؛ لیکن جذبات اور دل کے طوفان میں اکثر حقائق اور واقعات تنکے کی طرح اکھڑ جاتے ہیں، جوش و جنون میں دل کی نگاہ بند ہوجاتی ہے، دماغ کے اس دروازے پر بھی قفل پڑجاتا ہے جس سے نئی راہیں کھلتی ہیں، آج مسلمان فرانس کی گستاخانہ حرکت سے پکا ہوا ہے، اس کا دل چھلنی ہے، چنانچہ دنیا میں احتجاجی لہر جاری ہے، مگر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب ایک طبقہ اپنے آپ کو دنیا کا ٹھیکہ دار مان چکا ہے، اس نے تمام سیاسی پارٹیوں، منصوبوں اور ملکی و غیر ملکی پالیسیوں پر دراندازی کر رکھی ہے، تو کیا وہ اسے تسلیم کرلے گا کچھ لوگ چیختے، چلاتے رہیں اور ایک ملک کو نشانہ بنائیں، تو وہ اپنے قدم پیچھے لے لے؛ یقیناً اس سے کوریج ملے گی، فوٹیج زیادہ ہوگا، مگر سچ جانئے یہ جذباتی نعرے تشدد کی جانب موڑ دئے جائیں گے، اسلام دشمن اسے ایک ہتھیار بنا کر استعمال کریں گے، جو کسی ایٹمی توانائی سے کم نہیں ہوگا، اس سے ایک ملک یا دو ملک نہیں بلکہ نسل متاثر ہوگی، اسلامو فوبیا کی اصطلاح مزید مستحکم ہوگی، ڈھکے چھپے دشمن اور انسانیت کے پردہ میں پوشیدہ خونخوار بھی اپنے نوکیلے پنجوں کے ساتھ میدان جنگ میں کوند پڑیں گے، جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لگاؤ جذباتی بھر ہے، ان کی اتباع کتنی کی جاتی ہے اس پر بات نہ کی جائے تو ہی اچھا ہے؟ مگر کیا جذبات حقائق بدل دیں گے، گستاخی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی کی گئی، تو ہم اسے اسوہ کیوں نہیں مانتے؟ آج دنیا کا سب سے بڑا مذہب اور اس کا پیغمبر دنیا شریر ترین لوگوں کے ہاتھوں استہزاء کیا جارہا ہے؛ لیکن اس کے ماننے والے سڑکوں پر ہیں، جبکہ اس کے دشمن اے سی روم میں بیٹھ کر سب کچھ پلان کر رہے ہیں، ہتھیاروں کے زور پر اور اپنی معاشی و ترقی کے دم پر دنیا کو بچا رہے ہیں، ایک متحدہ محاذ بنا کر اسلام کو اکھیڑ دینے کے درپے ہیں، پورا باغ صحرائی جنگل میں بدل دینے کا ارادہ ہے، ہائے امت مسلمہ کی نادانی اور ان کی بے بسی!!! چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ منظم کوششیں کی جائیں، اور صحیح نہج پر اقدام کیا جائے، استاذ گرامی قدر فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ نے ان خطوط کی نشاندہی کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
"چنانچہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کا جواب اس طرح ہونا چاہیے:
۱۔ پوری دنیا کے مسلمان اقوام متحدہ سے مطالبہ کریں کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کی جائز، منصفانہ اور شریفانہ حدود قائم کرے، جس میں یہ بات شامل ہو کہ کسی بھی مذہب کی مقدس شخصیتوں کی اہانت ایک جرم اور دل آزاری ہے اور یہ اظہار رائے کے دائرہ میں نہیں آتی؛ بلکہ اشتعال انگیزی اور شدت پسندی کے دائرہ میں آتی ہے، اپنے یہ جذبات مختلف ملکوں میں قائم اقوام متحدہ کے دفاتر اور ایمیل وغیرہ کے ذریعے پہنچائے جائیں۔
۲۔ مسلم تنظیمیں اس مہم میں قائدانہ کردار ادا کریں اور دیگر برادران انسانیت اور مذہبی قیادتوں کو بھی اپنے ساتھ لینےکی سعی کریں؛ کیوں کہ ہمارا مطالبہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام مذہبی گروہوں کے لئے ہے؛ تا کہ دنیا میں امن و آشتی قائم رہے۔
۳۔ مسلم حکومتیں O I C کے پلیٹ فارم سے پوری قوت کے ساتھ اقوام متحدہ سے اس کا مطالبہ کریں اور عالم اسلام اس کو نافذ کرانے کے لئے واضح لائحۂ عمل اختیار کرے، جس کی ایک صورت یہ ہے کہ ایسی شرانگیزی کرنے والی حکومتوں سے اپنے تعلقات ختم کر دے یا محدود کر دے۔
۴۔ آج کی دنیا انفارمیشن ٹکنالوجی کی دنیا ہے، اور جب اس پلیٹ فارم سے کوئی آواز بڑے پیمانہ پر اٹھائی جاتی ہے تو پوری دنیا میں اس کی قوت محسوس کی جاتی ہے، اس ناشائستہ حرکت کے خلاف بڑے پیمانہ پر اس ذریعہ کو استعمال کیا جائے؛ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی تائید حاصل ہو سکے، مسلمان انفرادی سطح پر اور جہاں مسلم حکومتیں ہوں، وہاں سرکاری سطح پر بھی فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے، موجودہ دور میں یہ پُرامن احتجاج کا ایک مؤثر طریقہ ہے اور اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
۵۔ ہندوستان ایسا ملک ہے، جہاں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد بستی ہے، ہمارے ملک میں ایسے سیکولرزم کو اختیار کیا گیا ہے جس میں ہر شخص کو اپنی نجی زندگی میں اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے، اور جس میں ہر مذہب کے مقدسات کا احترام ملحوظ رکھا جاتا ہے، موجودہ حکومت کا فرانس کے رویہ کی تائید بے حد افسوسناک اور تکلیف دہ ہے؛ اس لئے ہمیں اپنی حکومت سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ فرانس کے اس رویہ کی مذمت کرے، جیسا کہ اس سے پہلے سابق وزیر اعظم جناب منموہن سنگھ صاحب نے اسی طرح کے ایک واقعہ پر کیا تھا۔
۶۔ سب سے اہم کام یہ ہے کہ دنیا کی مختلف زبانوںمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مختصر، متوسط اور تفصیلی لٹریچر شائع کیا جائے، اس لٹریچر کو ابلاغ کے جدید ذرائع کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے؛ کیوں کہ جھوٹ کا علاج سچ اور تاریکی کا علاج روشنی ہے۔
۷۔ یہ بات بے حد افسوسناک ہے کہ خود مسلم معاشرہ میں سیرت کا مطالعہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے، ہماری نئی نسل سیرت نبوی کی بنیادی معلومات سے نا آشناہے، اس پہلو پر بھی توجہ ضروری ہے، دینی مدارس بحیثیت ایک مضمون کے سیرت کو اپنے نصاب میں شامل کریں اور مختلف مرحلوں میں اس کی تعلیم دیں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لئے ان کے معیار کے لحاظ سے سیرت کی کتابیں مرتب کی جائیں اور انہیں کوشش کر کے داخل نصاب کرایا جائے، کم پڑھے لکھے لوگوں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کے لئے مطالعاتی مقصد کے تحت سیرت کا لٹریچر تیار کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ ہاتھوں تک پہنچایا جائے۔
۸۔ سب سے اہم بات برادران انسانیت تک صحیح طور پر سیرت کو پہنچانا ہے، اس کے لئے مختلف تدبیریں اختیار کی جا سکتی ہیں،جیسے: غیر مسلم بھائیوں کے لئے سیرت کے جلسے، غیر مسلم بچوں اور بچیوں کے لئے سیرت پر تقریر وتحریر کے مقابلے، بحمد اللہ ملک کے کئی علاقوں میں اس کا خوشگوار تجربہ ہو رہا ہے، ربیع الاول کے مہینہ میں زیادہ سے زیادہ اس کا اہتمام اور کھان پان کے پروگرام کے ساتھ سیرت پر مختصر تعارفی بیان ہونا چاہیے۔
غرض کہ ایسے واقعات پر پُر امن احتجاج بھی ضروری ہے، اس کے سد باب کے لئے ٹھوس تدبیریں بھی مطلوب ہیں اور یہ بھی ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائی جائے کہ سچ کی روشنی خود بخود جھوٹ کی تایکیوں کا پردہ چاک کر دیتی ہے۔” (شمع فروزاں: ٣٠/١٠/٢٠٢٠)

Comments are closed.