کچھ عبادت گزاروں کی کیفیت – محمد صابر حسین ندوی

کچھ عبادت گزاروں کی کیفیت –

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

مؤمن کا مطلب یہی ہے کہ وہ پوری طرح سے توحید و رسالت اور لوازمات کو اپنائے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً ۪ وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ- (بقرۃ:٢٠٨) "اے ایمان والو ! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو کہ یقیناً وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے” دراصل بعض یہود مسلمان ہوئے؛ لیکن وہ چاہتے تھے کہ شریعت اسلامی کے ساتھ تورات کے احکام کو بھی ساتھ لے کر چلیں، جیسے ہفتہ کے دن کی تعظیم کریں اور اونٹ کے گوشت اور دودھ سے اجتناب کریں، یہاں اس کو منع فرمایا گیا ہے کہ جب اسلام لاؤ تو مکمل طورپر اسلام کے احکام کو قبول کرو، اسلام محض ایک طریقۂ عبادت نہیں؛ بلکہ پورا نظامِ حیات ہے، اعتقادات، عبادات، معاشرت اور شخصی زندگی، معاشی و اقتصادی نظام، سیاست اور طریقۂ حکومت، بین ملکی تعلقات اور اخلاقی تعلیمات ، انسانی زندگی کا کوئی شعبہ نہیں ، جس میں اسلام نے رہنمائی نہ کی ہو ، ان سب میں شریعت اسلامی کو بے کم و کاست ماننا ، نہ حرام کو حلال کرنا اور نہ حلال کو حرام ، یہ اسلام میں پورا پورا داخل ہونا ہے اور اسلام کو جزوی طورپر ماننا اور بعض شعبۂ ہائے زندگی میں دوسرے مذہب یا نظام حیات کی افادیت کا قائل ہونا اور اسے تسلیم کرنا شیطان کی پیروی ہے؛ کیوں کہ شیطان نے بھی اللہ کے تمام احکام کا انکار نہیں کیا تھا ؛ بلکہ اس نے صرف حضرت آدم کو سجدہ کرنے ہی پر اعتراض کیا تھا، عصر حاضر میں بھی یہودیوں کی وراثت سنبھالنے والے موجود ہیں، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ دین کے چولے میں ملبوس ہو کر اسے اپنے اعتبار سے ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں، بسااوقات وہ ظاہری دینداری میں کسی سے کم نہیں ہوتے، شکل و صورت اور کردار و اعمال سے قطعاً یہ محسوس نہیں ہوتا؛ کہ وہ ایمان کی آخری منزل پر ہیں، مگر جب کوئی مصیبت اور گزند ان تک پہنچتی ہے، آزمائشوں کا سامنا ہوتا ہے تو وہ چولا پھٹ جاتا ہے، اور دل کا غبار باہر نکل آتا ہے۔
قرآن کریم نے اسے بڑی دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے، صرف یہ ایک آیت ایسے لوگوں کے دلوں کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیتی ہے، اور ان کے چہرے پر پڑے نقاب کو کھینچ ڈالتی ہے، ان عبادت کی غرض اور حقیقت کو سر عام بیان کرتی ہے، اور بتاتی ہے کہ کس طرح ایک عبادت گزار بھی اللہ تعالی نافرمانی میں ایمان کی سرحد تک جاسکتا ہے، اور ایمانی حلاوت سے محروم ہوسکتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللہ عَلٰی حَرْفٍ ۚ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُۨ اطْمَاَنَّ بِہٖ ۚ وَ اِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُۨ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖ ۟ۚ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃَ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ – (حج:١١)-"اور بعض لوگ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرتے ہیں کہ جیسے وہ کنارے پر کھڑے ہوں ، پھر اگر کوئی فائدہ پہنچ جاتا ہے تو اس پر مطمئن ہوجاتے ہیں ، اور کوئی آزمائش آتی ہے تو اُلٹے منھ پھر جاتے ہیں ، دنیا بھی گئی اورآخرت بھی ، یہی تو کھلا ہوا نقصان ہے !” استاذ گرامی قدر فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ رقمطراز ہیں:”ہمیشہ جب دعوت ِحق شروع ہوتی ہے تو تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ، ایک : وہ جو اس پر لبیک کہتے ہیں اور اِس کے معاون و مددگار بنتے ہیں ، دوسرے : وہ مخالفین جو کھل کر اس کی مخالفت کرتے ہیں ، تیسرے : وہ طبقہ ہوتا ہے جو دیوار کی بِلی بن کر صورت حال کو دیکھتا رہتا ہے ، اگر مسلمانوں کو کوئی مادی فائدہ حاصل ہوگیا تو ان کی طرف آجاتا ہے اور اگر نقصان ہوگیا تو کفر کی طرف واپس ہوجاتا ہے ، رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں منافقین کی یہی صورت حال تھی ، ان میں بعض یہودی تھے ، بعض مشرک اوربعض دیہات کے رہنے والے لوگ ، مفسرین نے ایسا مزاج رکھنے والے مختلف افراد اور گروہوں کا نام لیا ہے ، مگر ان سب میں مشترک بات یہی ہے کہ وہ وقتی فائدہ کے لئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے ؛ لیکن حقیقت میں مسلمان نہیں تھے ۔” (آسان تفسير قرآن مجید)
04/11/2020

Comments are closed.