فسادیوں کی طرف داری کیوں ؟ نور اللہ نور

فسادیوں کی طرف داری کیوں ؟

نور اللہ نور

گزشتہ روز ممبئی نے پولیس نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے جس کی اشد ضرورت تھی اور بے لگام میڈیا پر نکیل کسنے کے لیے یہ اقدام از حد ضروری تھا؛ گزشتہ روز ممبئی پولیس نے ” ری پبلک ٹی وی ” کے چیف ایڈیٹر ارنب گوسوامی کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا اور یہ پیغام دیا ہے کہ جو میڈیا کی شبیہ خراب کر رہے ہیں اور شر انگیزیوں کو پنپنے کا موقع فراہم کرتے ہیں وہ باز آجائیں۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو ممبئی پولیس کی یہ کارروائی بر حق ہے اور اس کا یہ قدم روا و جائز ہے کوئ بھی انصاف پسند شخص اسے درست قدم ہی کہے گا کیونکہ جس پلیٹ فارم سے امن و شانتی کا پیغام دیا جاتا ہے ؛ جہاں پر ملکی سر گرمیوں کا احتساب ہوتا ہے اور منصوبہ بندی کی راہ ہموار کی جاتی ہے وہاں سے منفی اور مضرت رساں کام انجام دیا جائے تو پھر یہ قدم اٹھانا پڑتا ہے۔
ہر طرف سے ممبئ پولیس کی سراہنا ہو رہی ہے اور تعریف و ستائش کی جارہی ہے کیونکہ انہوں نے صحیح سمت میں قدم اٹھایا ہے جن پر ان کی ستائش تو بنتی ہے اکثر لوگوں نے اسے حق بجانب قرار دیا مگر کچھ لوگ اس گرفتاری کو لیکر چراغ پا ہو گئے ہیں اور سڑکوں پر احتجاج و مظاہرے کر رہے ہیں اور یہی نہیں مرکزی حکومت اس درست اقدام کی ستائش کے بجائے ان فسادیوں کی پشت پناہی کر رہی ہے اور یہ بھی ان کے سر میں سر ملا کر باتیں کر رہی ہے ۔

اسی سلسلے میں وزیر داخلہ امیت شاہ کا ٹوئٹ ملاحظہ کیجئے کہ وہ کس طرح اس نفرت انگیز شخص کی طرف داری کر رہے ہیں وہ اپنے ٹوئٹ میں لکھتے ہیں کہ
” کانگریس اور اس کے اتحادیوں نے ایک بار پھر جمہوریت کو شرمندہ کیا ہے۔ جمہوریہ ٹی وی اور ارنب گوسوامی کے خلاف ریاستی طاقت کا صریحا غلط استعمال کرنا انفرادی آزادی اور جمہوریت کے چوتھے ستون پر حملہ ہے۔ یہ ہمیں ایمرجنسی کی یاد دلاتا ہے۔

ایک اور موجودہ حکومت کے نیتا کا ٹوئٹ دیکھئے کہ کس طرح برملا ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں
"سینئر صحافی # ارنب گوسوامی کی گرفتاری انتہائی قابل مذمت ، غیر منظم اور تشویشناک ہے۔ ہم نے 1975 کی سخت ایمرجنسی کی مخالفت کرتے ہوئے آزادی صحافت کے لئے بھی جدوجہد کی تھی” اب اندازہ لگائیں کہ اگر زیر اقتدار لوگ ہی ظالم کے طرف دار ہونگے تو امن و امان کا قیام کیسے ممکن ہوسکتا ہے ؟
یہ تو صرف چند جھلکیاں آپ کو بطور تمثیل دکھائی گئی یہی نہیں بلکہ سارے کے سارے وزیر اعظم سے لیکر معمولی سا مکھیا بھی اس کے دفاع میں نعرے لگا رہا ہے جس سے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم کتنی دور نگل گئے ہیں۔

ہر ایک کا یہی کہنا ہے کہ جمہوریت کے ستون پر حملہ کیا جارہا ہے یہ آئین کے منافی سرگرمی ہے جسے ممبئی پولیس انجام دے رہی ہے ویسے تو یہ آئین کے منافی ہے نہیں لیکن چلئے! مان لیا جائے کہ آئین کے منافی عمل ہے تو پھر ” ہاتھرس معاملہ” کی رپورٹنگ کرنے والی خاتون صحافی کے ساتھ بد تمیزی پر آواز کیوں نہیں بلند کی گئی ؟ ان کی ستائش کے بجائے سب و شتم سے کیوں نوازا گیا ؟ اور اگر ارنب گوسوامی کو بلا تردد بولنے کا حق ہے تو پھر اس دلت صحافی کو جس کو گرفتار کر لیا گیا اسے کیوں حق نہیں ہے؟
وزیر داخلہ صاحب جیسا کہ رہے ہیں کہ یہ جمہوریت کے ستون کو کمزور کرنے والا عمل ہے اور اس کے ستون پر حملہ ہے تو پھر ” گوری لنکیشن ” کے قتل پر آپ نے زبان کیوں نہیں کھولی اور ان کے قاتلوں کو سزا کیوں نہیں ملی ؟ اور اگر اتنی قدر ہے صحافیوں کی تو چند ہفتہ قبل ایک خاتون صحافی کے ساتھ بد تمیزی کرنے والوں پر نکیل کیوں نہیں کسی گئی اگر اسے آپ ایمرجنسی کہ سکتے ہیں تو بے گناہ ” سنجیو بھٹ ” کو سلاخوں میں رکھنا اور پاپیوں کی پشت پناہی یہ تو اس سے بڑی تکلیف دہ صورت حال ہے اس پر کبھی زباں نہیں کھلی آپ کی ؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ارنب گوسوامی خاطی ہے اور ثبوت و دلائل بھی بتا رہے ہیں کہ وہ خطا وار ہے اس کے بعد باوجود طرفدرای کرنا چہ معنی دارد ؟ یہ تو دریدہ دہنی کے ساتھ ظلم کی حمایت کرنا ہے اور ظالموں کو پناہ فراہم کرنا ہے مگر کیوں ان کو پناہ دی جارہی ہے ان کو شتر بے مہار کرنے کی وجہ کیا ہے ؟

آپ نے "پہلو ” کے قاتل کی شان میں یاترا نکالی؛ آپ نے فسادیوں کو ایوان میں پہنچنے کی راہ کی آخر کیوں؟ اور اب ارنب گوسوامی کی گرفتاری پر واویلا مچار ہے ہیں آخر آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ اگر یہی صورت حال رہی تو فسادی آزادی سے پھریں گے اور امن کا قیام ایک خواب ہو جائے گا اور ہر پھر جمہوریت پر ڈاکہ زنی ہوگی ؛ آئین میں دست درازی ہوگی ؛ عفت پر دست کشائی ہوگی اور ان سب کا سہرا آپ کے سر جائے گا اس لئے رائے کہ اس روش سے باز آجائیے اور ابھی بھی موقع ہے ایک خوبصورت ہندوستان کی تشکیل کا حصہ بنیئے!

Comments are closed.