انسان کی تذلیل اور خدا کی تعظیم۔ محمد صابر حسین ندوی

انسان کی تذلیل اور خدا کی تعظیم۔
محمد صابر حسین ندوی
7987972043
جب انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، بالخصوص جب وہ محبت عشق کی انتہا کو پہونچ جائے تو اس سے متعلق ہر شئی محبوب اور معشوق بن جاتی ہے، کہتے ہیں "مجنوں کو لیلی کی گلی کا کتا بھی عزیز تھا” __ واقعہ یہ ہے کہ دلی اٹھان اور لطیف احساسات کی یہی خاصیت ہوتی ہے، انسان کو خود سے الگ کر کے کسی دوسری ہستی سے یوں منسلک کردیتی ہے کہ انسان خود کا وجود مختلف محسوس کرے، انسان غیر کے ہاؤ بھاؤ اور کردار کی نقالی بھی شروع کردیتا ہے، اس کے نقش پا کی اتباع اور گرد کو آنکھوں کا سرمہ بنالینا اور اس کی نگاہوں کی سمتوں کو سینہ سے لگانا لینا اصل قرار پالیتا ہے، آپ نے دنیا میں کوئی ایسا دل کا مریض نہ دیکھا ہوگا جو مرض کے ساتھ شفا کی زندگی اور من مرضی حیات کا تصور دیتا ہو، غور کیجئے! یہ انسانی معاشرے کے آپسی تعلقات اور رشتے کی بات ہے، دلی جذبات و انعطاف اور ہلچل کی کیفیت ہے؛ مگر ان سب سے بڑا اور ان سب سے کہیں برتر جس خالق نے اس کی تخلیق کی ہے، جو سارے جہاں کا رب و پالنہار ہے، آخر اس سے محبت کے تقاضے کیا ہیں؟ خاص طور پر اہل ایمان تو اس سے عشق کا دعویٰ کرتے ہیں، اس کی پیروی کرنے اور اس کے بتائے ہوئے راہ پر چلنے کے مدعی ہیں؛ لیکن کیا ایسا ہے کہ اس سے متعلق ہر چیز سے لگاؤ ہو؟ اس کے کلام سے عشق ہو اور سب سے بڑھ کر اس کی اعلی ترین مخلوق، بہترین شاہکار اور عمدہ ترین تخلیق انسان کے ساتھ بھی وہی رویہ اپنایا جاتا ہو جو اسے اپنے رب کے قریب کردے؟ اور یہ ظاہر کردے کہ اس راہ کا ہر تنکا اور خار ہمیں قابل قبول ہے، یوں تو اس کیلئے سجدہ ریز ہوتے ہیں، اپنی پیشانی رگڑتے ہیں، اپنا جسم بچھادیتے ہیں، اپنے آپ کو اس کے قدموں پر ڈال دیتے ہیں، لیکن اس سے متعلق سب سے اعلی مخلوق کے ساتھ ہمارا سلوک کس قدر بے تکا اور بے حسی کا ہے اس سے انکار کیا جاسکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات سے تعبیر کیا ہے، اپنا کلام اس کیلئے نازل کیا ہے، دنیا و آخرت کی رونقیں اس کیلئے سجائی ہیں، جنت و جہنم کے مراحل رکھے ہیں، ثواب و عقاب کا وعدہ ہے، اور ایک مکمل نظام حیات ہے، پھر بھی ان سب کا حقدار انسان خود ایک دوسرے کی تذلیل کرتا ہے، اس کی مذمت کرتا ہے، اس کی ٹانگ کھینچتا ہے، اس کی ترقی و تعمیر کی راہوں میں رکاوٹیں ڈالتا ہے، اوامر پر روکتا ہے اور نواہی پر ابھارتا ہے، آج دنیا کی دقت یہی نہیں ہے کہ انسان غريب ہے، امیر ہے، بھوکا ہے، شکم سیر ہے، مگر اصل پریشانی یہ ہے کہ انسان انسان کا مجرم ہے، اگر انسان غریب بھی ہو مگر امیر قدرا دان ہو، انسانیت پر رحم کھاتا ہو اس کے نزدیک اپنے رب کریم کی سب سے بہتر مخلوق کی عظمت برقرار ہو تو ایسا ہوہی نہیں سکتا؛ کہ وہ بھوکا تڑپتا رہے اور وہ خود اپنے محل میں سکون کی نیند لیتا ہو، محبت کا عالم تو یہ ہوتا ہے کہ محبوب سے متعلق معمولی خراش پر بھی دل دیک جائے، سینہ میں موجود دھڑکن ٹھہر جائے اور اس کی درستگی کیلئے زمین و آسمان کی قلابیں ملادینے اور خود کو تھکا دینے کی کوشش میں لگ جائے؛ ذرا دیکھئے! انبیاء و رسل علہیم السلام عظمت رب کے حقیقی قائل اور عشق الہی کی دولت سے سرشار تھے، ایسے میں کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان مقدس ہستیوں کے ذریعہ معشوق سے منسلک ایک فرد کی بھی حقارت کی گئی ہو، نعوذباللہ یہ تو بعید تر ہے، انبیاء سے تو اس کا تصور بھی نہیں؛ لیکن دنیا اسلاف و اخلاف کی پوری تاریخ بتاتی ہے کہ تمام نیک اور مقدس ہستیوں کا بھی یہی حال تھا، جو بزرگ کہلائے، پاکیزگی، تزکیہ و سلوک اور روحانیت کے حصول تک پہونچے؛ یقیناً انہوں نے انسانیت کی وہی قدردانی کی جو انبیاء نے کی ہے، سچ جانیں جب تک رب کے مخلوق کو دل میں جگہ نہ دیں گے اس کا خالق بھی جگہ نہ پائے گا۔
Comments are closed.